Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 19
اَوَ لَمْ یَرَوْا كَیْفَ یُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : نہیں دیکھا انہوں نے كَيْفَ : کیسے يُبْدِئُ : ابتداٗ کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْخَلْقَ : پیدائش ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر دوبارہ پیدا کریگا اس کو اِنَّ : بیشک ذٰلِكَ : یہ عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : آسان
31کیا اِن لوگوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں ہے کہ اللہ کس طرح خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر اُس کا اعادہ کرتا ہے؟ یقیناً یہ (اعادہ تو)اللہ کے لیے آسان تر ہے۔32
سورة العنکبوت 31 یہاں سے لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ (ان کے لیے دردناک سزا ہے) تک ایک جملہ معترضہ ہے جو حضرت ابراہیم کے قصے کا سلسلہ توڑ کر اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا ہے۔ اس اعتراضی تقریر کی مناسبت یہ ہے کہ کفار مکہ جنہیں سبق دینے کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے وہ بنیادی گمراہیوں میں مبتلا تھے۔ ایک شرک و بت پرستی، دوسرے انکار آخرت۔ ان میں سے پہلی گمراہی کا رد حضرت ابراہیم کی اس تقریر میں آچکا ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ اب دوسری گمراہیم کے رد میں یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے ارشاد فرما رہا ہے تاکہ دونوں کی تردید ایک ہی سلسلہ کلام میں ہوجائے۔ سورة العنکبوت 32 یعنی ایک طرف بیشمار اشیاء عدم سے وجود میں آتی ہیں، اور دوسری طرف ہر نوع کے افراد کے مٹنے کے ساتھ پھر ویسے ہی افراد وجود میں آتے چلے جاتے ہیں۔ مشرکین اس بات کو مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ کی صفت خلق و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ انہیں اللہ کے خالق ہونے سے انکار نہ تھا، جس طرح آج کے مشرکین کو نہیں ہے، اس لیے ان کی اپنی مانی ہوئی بات پر یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ جو خدا تمہارے نزدیک اشیاء کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر ایک ہی دفعہ تخلیق کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے مٹ جانے والی اشیاء کی جگہ پھر ویسی ہی اشیاء پے در پے وجود میں لاتا چلا جاتا ہے، اس کے بارے میں آخر تم نے یہ کیوں سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے مرجانے کے بعد وہ پھر تمہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھا کھڑا نہیں کرسکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة نمل حاشیہ 80)
Top