Ruh-ul-Quran - Yaseen : 71
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَاۤ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ
اَوَلَمْ يَرَوْا : یا کیا وہ نہیں دیکھتے ؟ اَنَّا خَلَقْنَا : ہم نے پیدا کیا لَهُمْ : ان کے لیے مِّمَّا : اس سے جو عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ : بنایا اپنے ہاتھوں (قدرت) سے اَنْعَامًا : چوپائے فَهُمْ : پس وہ لَهَا : ان کے مٰلِكُوْنَ : مالک ہیں
کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے، پس وہ ان کے مالک ہیں
اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَھُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَیْدِیْنَـآ اَنْعَامًا فَھُمْ لَھَا مٰلِکُوْنَ ۔ وَذَلَّلْنٰـھَا لَھُمْ فَمِنْھَا رَکُوْبُھُمْ وَمِنْھَا یَاْکُلُوْنَ ۔ وَلَھُمْ فِیْھَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ط اَفَلاَ یَشْکُرُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 71 تا 73) (کیا ان لوگوں نے دیکھا نہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے، پس وہ ان کے مالک ہیں۔ اور ہم نے انہیں ان کا مطیع کردیا، پس ان میں سے بعض ان کی سواریاں ہیں اور بعض کا وہ گوشت کھاتے ہیں۔ اور ان میں ان کے لیے دوسرے فوائد اور مشروبات ہیں، تو کیا وہ شکر نہیں کرتے ! ) کفار کی سرکشی کے مقابلے میں رحمت کے اسلوب میں دلائلِ ربوبیت گزشتہ آیت میں ہم یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری صرف اس لیے تھی کہ آپ لوگوں کو ہدایت قبول نہ کرنے کے نتیجے میں جس صورتحال سے اولاً تو دنیا میں اور ثانیاً آخرت میں سابقہ پیش آنے والا ہے اس سے آپ لوگوں کو انذار کریں۔ یعنی آپ ڈرائیں دھمکائیں اور خبردار کریں۔ لیکن پروردگار کی رحمت چونکہ ہمیشہ ہر چیز پر محیط رہتی ہے اس لیے وہ انتہائی ناراضگی کی حالت میں بھی برہمی کا اظہار کرنے کی بجائے اپنی نعمتوں کا ذکر فرما کر ان کی بند طبیعتوں کو کھولنے کی ایک صورت پیدا فرماتا ہے۔ گزشتہ آیات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم سے کوئی فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے شاعری قرار دے رہے ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ کو شاعر کہہ کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ جس فصیح وبلیغ کلام سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کرتے ہیں وہ وحی الٰہی نہیں بلکہ کمال درجے کی شاعری ہے اور آپ اس دور کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ اس لیے ان کے کلام سے متأثر ہونے کا نتیجہ یہ تو ہوسکتا ہے کہ انہیں ایک بڑا شاعر سمجھا جائے لیکن اس کا کوئی جواز نہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کا رسول مان لیا جائے۔ اندازہ کیجیے کہ یہ موقع ایسا ہے کہ پروردگار کی طرف سے شدید برہمی کا اظہار ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کو شاعری قرار دینا اور آنحضرت ﷺ کی نبوت کا انکار یہ ایک ایسی جسارت ہے جو ناقابلِ معافی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کیا ٹھکانا ہے کہ برہمی کے اظہار کی بجائے دلوں میں نئی جوت جگانے کے لیے فرمایا جارہا ہے کہ نادانو ! اور کچھ نہیں تو تم اپنے مویشیوں پر ہی غور کرو جن سے تم گوناگوں فائدے اٹھاتے ہو۔ انہیں کسی اور کی کمال صنعت نے پیدا نہیں کیا بلکہ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔ اور اس کی انتہا درجہ کی کرم فرمائی ہے کہ اس نے ان جانوروں کو اپنے کمال تخلیق سے پیدا فرمایا اور پھر تمہارے حوالے کرکے تمہیں ان کا مالک بنادیا۔ اولاً تو جانوروں کی تخلیق بجائے خود اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اظہار ہے اور پھر مزید یہ کہ بیشتر جانور انسان سے زیادہ قوت و طاقت کے مالک ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں اس طرح پیدا فرمایا ہے کہ گائے اور بھینس دودھ دیتی ہیں تو کبھی انکار نہیں کرتیں۔ اونٹنی دودھ بھی دیتی ہے اور باربرداری کی خدمت بھی انجام دیتی ہے اور عرب کے صحرا میں جہاں کئی دنوں تک پانی نہیں ملتا وہ بغیر کھائے پیے اس صحرا کو سامان اور اپنے مالک سمیت اٹھائے ہوئے لے جاتی ہے اور کبھی اپنے مالک سے سرتابی نہیں کرتی۔ بیل رہٹ بھی کھینچتے ہیں اور باربرداری کا کام بھی کرتے ہیں۔ بھیڑ بکریاں اللہ تعالیٰ نے اس طرح پیدا کی ہیں کہ وہ سر جھکائے ہر وقت انسان کی ضرورتوں کے لیے قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کے کتنے فوائد ہیں جو ان جانوروں سے وہ حاصل کرتا ہے۔ کہیں دودھ کی لسی بن رہی ہے، کہیں دہی تیار ہورہا ہے، کہیں گھی نکالا جارہا ہے پھر اس سے مختلف قسم کے کھانے تیار ہورہے ہیں، مختلف مٹھائیاں بن رہی ہیں، کہیں انسان ان کے بالوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے، کہیں ان کی کھالوں سے خیمے بنائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی ہڈیاں اور بول و براز بھی منفعت سے خالی نہیں۔ ان میں سے ہر نعمت انسان کے لیے نہ صرف لذیذ ہے بلکہ خوشگوار اور صحت بخش بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی طرف توجہ دلا کر سوال کرتا ہے کہ کیا ان تمام نعمتوں کے مقابلے میں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دے رکھی ہیں ان پر کوئی حق عائد نہیں ہوتا۔ یقینا انسانی فطرت، انسانی عقل اور انسانی اخلاق اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جس محسن نے ایسی گراں قدر نعمتوں سے گراں بار کر رکھا ہے یقینا اس کا یہ حق ہے کہ اس کی شکرگزاری اور فرماں برداری کی جائے۔ اپنی نیاز مندی اور شکرگزاری میں کسی اور کو شریک نہ کیا جائے اور اس کی رضا کے خلاف کبھی سوچنے کی زحمت بھی نہ کی جائے۔ اپنی ہمتوں اور طاقتوں کو اسی کے احکام کی بجاآوری میں صرف کیا جائے اور دل ہمیشہ اپنے محسن کی محبت سے سرشار رہیں۔
Top