Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ : اور سورج تَجْرِيْ : چلتا رہتا ہے لِمُسْتَقَرٍّ : ٹھکانے (مقررہ راستہ لَّهَا ۭ : اپنے ذٰلِكَ : یہ تَقْدِيْرُ : نظام الْعَزِيْزِ : غالب الْعَلِيْمِ : جاننے والا (دانا)
اور سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا رہتا ہے (یہ) خدائے غالب اور دانا کا (مقرر کیا ہوا) اندازہ ہے
38۔ حسن بصری (رح) اور سلف کے قول کے موافق سورج کہ تین سو ساٹھ مطلع اور چاند کی اٹھائیس منزلیں مقرر ہیں سورج کے مطلع پورے ہونے سے ایک سال اور چاند کی منزلیں پوری ہونے سے ایک مہینہ پورا ہوتا ہے اس آیت میں رات دن کے ذکر کی مناسبت سے سورج کے دورہ کا اور آگے کی آیت میں چاند کے دورہ کا ذکر ہے سورج کے دورہ کے علمائے مفسرین نے دو مطلب بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ ہر روز مشرق سے مغرب کی طرف جو سورج جاتا ہے تو کہاں جاتا ہے اس مطلب کی تفصیل اور تفسیر صحیح حدیثوں میں آئی ہے صحیح بخاری مسلم ترمذی نسائی مسند امام احمد 3 ؎ وغیرہ میں جو حدیثیں ہیں (3 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 571 ج 3 و تفسیر الدر المنثور ص 263 ج 5) ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک روز حضرت ابوذر ؓ سے پوچھا کہ یہ سورج جو غروب ہوتا ہے تو تم کو معلوم ہے کہ یہ کہاں جاتا ہے انہوں نے کہا مجھ کو کچھ معلوم نہیں آپ نے فرمایا یہ عرش معلیٰ کے نیچے اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں سجدہ کرتا ہے ‘ اور معمول کے موافق مشرق سے نکلنے کی اس کو اجازت ملتی ہے جب قیامت آنے کو ہوگی تو مغرب کی طرف سے نکلنے کا اس کو حکم ہوجائے گا پھر کسی کا ایمان قبول نہ ہوگا یہ فرما کر پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی اگرچہ سورج اور تمام مخلوقات ہر وقت عرش معلیٰ کے نیچے ہے کیوں کہ مستدرک حاکم اور بیہقی کی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث میں جس حدیث کو حاکم نے صحیح قرار دیا 4 ؎ ہے یہ آچکا ہے (4 ؎ حوالہ کے سلاوہ دیکھئے تفسیر ثنائی پہلی جلد ص 98) کہ ساتوں آسمان بمقابلہ کرسی کے ایسے ہیں جس طرح بڑے جنگل میں ایک چھلا پڑا ہوا ہو اور جس قدر اس چھلے سے وہ جنگل بڑا ہے وہی حال عرش کا بمقابلہ کرسی کے ہے اب عرش معلیٰ کی بڑائی اس قدر ہونے کے سبب سے کسی وقت تمام مخلوقات میں کی کوئی شے عرش معلیٰ کے نیچے ہونے سے سرک تو نہیں سکتی لیکن خاص طور پر سورج کے سجدہ کرنے کے ذکر میں اس کے عرش کے نیچے ہونے کا ذکر حدیث میں آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غروب کے قوت بھی سورج عرش معلیٰ کے نیچے ہی رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں سجدہ کرتا ہے دوسرا مطلب آفتاب کے دورہ کا یہ ہے کہ قیامت تک مشرق سے نکلنے اور مغرب میں غروب ہونے کا دورہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کے پیچھے لگا دیا ہے وہی اس کا دور ہے قیامت کے دن اس کی حرکت جاتی رہے گی اس مطلب کی تائید اس طرح کی صحیح حدیثوں سے نہیں ہوتی جس طرح پہلے مطلب کی تائید صحیح حدیثوں سے ہوتی ہے اس لیے آیت کی وہی تفسیر صحیح ہے جو اوپر بیان ہوئی غرض سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی شے کو ایک حال پر قیام نہیں اب سورج مشرق سے نکلتا ہے ایک دفعہ اس کو مغرب سے نکلنا پڑے گا اور اب بھی جاڑے کے موسم میں مشرق سے مغرب تک اس کو تھوڑا سا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کے سبب سے جاڑے کے موسم کا دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور گرمی کے موسم میں بہت فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس کے سبب سے گرمی کے موسم کا دن بڑا ہوجاتا ہے بعض روایتوں میں یہ جو ہے کہ سورج کے مغرب کی طرف سے نکلنے کے بعد دنیا ایک سوبیس برس تک قائم ہوگی اور جب لوگ سورج کا مغرب کی طرف سے نکلنا بھول جائیں گے تو ایمان اور توبہ پھر قبول ہونے لگ جاویں گے یہ بات صحیح حدیثوں کی مخالف ہے کیوں کہ صحیح حدیثوں میں آچکا ہے کہ سورج کے مغرب سے نکلتے ہی دابۃ الارض نکل آوے گا اور مسلمان اور کافر کو الگ الگ کر دیوے گا اور سورج کے مغرب سے نکلتے ہی اسلام اور توبہ پھر قیامت تک قبول نہ ہوں گے ‘ آخر کو فرمایا سورج کی چال کا یہ انداز ایسے زبردست صاحب علم کا ٹھہرایا ہوا ہے کہ اس میں کبھی فرق نہیں پڑسکتا (شاہ صاحب (رح) کے) ترجمہ میں ہندی کا جو لفظ سادھا ہے اس سے مطلب یہی اندازہ ہے۔
Top