Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ جھونکو۔ اور انفاق خوبی کے ساتھ کرو۔ بیشک اللہ خوبی کے ساتھ کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
انفاق کا حکم جہاد کے لیے : انفاق کا یہ حکم، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس جہاد کے لیے ہے جس کا یہاں حکم دیا گیا ہے۔ جہاد، جان اور مال دونوں کی قربانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے قرآن میں جہاں کہیں بھی جہاد و قتال کا بیان ہوا ہے انفاق کا حکم بھی اس کے ساتھ ضرور ہوا ہے۔ " تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم : اور تم جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے "۔ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ، میں بایدیکم، کے الفاظ سے ایک ایسے شخص کی تصویر نگاہوں کے سامنے آتی ہے جو اوپر سے نیچے کی طرف اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے، کسی دریا یا غار میں چھلانگ لگا رہا ہو۔ بعض عرب شاعروں نے بھی بہ اسلوب استعمال کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی دینے سے جی چراتے ہیں، بظاہر تو وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خطرات سے بچا رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ اپنے آپ کو ہلاکت کے جہنم میں جھونکتے ہیں انسان کے لیے زندگی اور بقا کا اصلی خزانہ خدا کی راہ میں جان اور مال کی قربانی میں ہے نہ کہ ان کے۔۔۔۔ قرآن نے جگہ جگہ اس حقیقت کی طرف اشارے کیے ہیں۔ سورة توبہ میں منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے " وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ : اور وہ عنقریب تمہیں اللہ کی قسمیں کھا کر یقین دلائیں گے کہ اگر ہم سامان کر پاتے تو ضرور آپ کے ساتھ جہاد کے لیے نکلتے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک رہے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں " (توبہ :42)۔ اس آیت میں " يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ " کے الفاظ سے اسی بخل اور بزدلی کی طرف اشارہ کیا ہے جس سے بچنے کی تاکید وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ کے ٹکڑے میں فرمائی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو زندگی اور مال کے حریص کامیابی سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ موت اور ہلاکت ہے۔ ٻوَاَحْسِنُوْا کا عطف اَنفقوا پر ہے۔ یہاں اس احسان کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں فیاضی اور خوش دلی کے ساتھ خرچ کرو اور وہ مال خرچ کرو جو تمہیں عزیز و محبوب ہو۔ انفاق کے معاملے میں اس احسان کی تاکید قرآن نے جگہ جگہ فرمائی ہے، " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الأرْضِ وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ : اے ایمان والو، ان پاکیزہ مالوں سے کرچ کرو جو تم نے تجارت وغیرہ سے کمائے ہو اور جو ہم نے زمین سے تمہارے لیے پیدا کیے ہیں اور اس میں سے برے مال کے خرچ کرنے کا خیال نہ کرو، جسے خرچ تو کرو لیکن اگر وہی مال تمہیں لینا پڑجائے تو آنکھ میچے بغیر نہ لے سکو اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ رکھو کہ اللہ بےنیاز اور حمید ہے " (بقرہ :267)۔ انفاق میں جب تک اللہ تعالیٰ کے لیے یہ جوش و جذبہ اور یہ احتیاط شامل نہ ہو اس وقت تک اس کو احسان کا درجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مال کا محتاج نہیں ہے۔ وہ سب سے بےنیاز و بےپروا ہے۔ البتہ ہم خود اس کے جود و کرم کے ہر وقت محتج ہیں۔ وہ اگر ہم سے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے تو اپنے لیے نہیں بلکہ خود ہمارے لیے کرتا ہے تاکہ اس طرح وہ ہمارے خلوص کا امتحان کرے اور ہمارے خزف ریزوں کو قبول فرما کر ان کو ایک ابدی اور لازوال خزانے کی شکل میں ہمیں ایک دن واپس لوٹائے۔
Top