Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 14
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِیْ مَاۤ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابٌ عَظِیْمٌۚۖ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت لَمَسَّكُمْ : ضرور تم پر پڑتا فِيْ مَآ : اس میں جو اَفَضْتُمْ : تم پڑے فِيْهِ : اس میں عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، دنیا اور آخرت میں، تو جس چیز میں تم ملوث ہو گے تھے اس کے باعث تم کو ایک عذاب عظیم آ پکڑتا
مسلمانوں کو پھر تنبیہ افاض فی الحدیث کا مفہمو یہ ہوتا ہے کہ بات میں سے بات نکالتے ہوئے آدمی کہیں سے کہیں جا پنچے اور بات کا بتنگڑ بنا ڈایل۔ آیت 10 کے بعد یہ پھر مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ اس معاملے میں تم جس روشن پر چل نکلے تھے اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم کو ایک عذاب عظیم آ پکڑتا لیکن تم پر دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کی رحمت ہے اس وجہ سے اس نے درگزر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس فضل و رحمت کی قدر کرو، ایسا نہ ہو کہ کسی اسی طرح کے فتنہ میں پھر مبتلا ہو کر اپنے آپ کو مستحق عذاب بنا ڈالو۔ یہ خطاب سارے معاشرے سے ہے حالانکہ اس معاملے میں ملوث ہونے والے یا سہلا نگاری و بےپروائی کو راہ دینے والے زیادہ لوگ نہیں تھے۔ اس خطاب عام کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے مفاسد کی نوعیت وبائی امراض کی ہے۔ اگر چند افراد کے اندر بھی اس کا ظہور ہو تو ہر شخص کو خطرے سے آگاہ ہوجانا چاہئے کہ مبادا یہ وبا عام ہوجائے اور پھر اس کے نتیجہ میں پورا معاشرہ خدا کی پکڑ میں آجائے۔
Top