Tibyan-ul-Quran - An-Noor : 41
وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَا يَاْتَلِ : اور قسم نہ کھائیں اُولُوا الْفَضْلِ : فضیلت والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالسَّعَةِ : اور وسعت والے اَنْ يُّؤْتُوْٓا : کہ (نہ) دیں اُولِي الْقُرْبٰى : قرابت دار وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکینوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور ہجرت کرنیوالے فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ میں وَلْيَعْفُوْا : اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں وَلْيَصْفَحُوْا : اور وہ در گزر کریں اَلَا تُحِبُّوْنَ : کیا تم نہیں چاہتے ؟ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ : کہ اللہ بخشدے لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور جو لوگ تم میں صاحب فضل و کشائش ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ اپنے عزیزوں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں گے ، چاہیے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا پیار کرنے والا ہے
صاحب کشائش وسعت نہ رکھنے والوں پر حد سے تجاوز نہ کریں : 31۔ (یاتل) کا تعلق (الوت) سے بھی ہو سکتا ہے اور (الیت ) سے بھی (الوت) کے معنی ایک بات میں کمی کرنے کے ہیں اور (الیت) کے معنی قسم کھانے کے ہیں اور دونوں معنوں سے مفہوم صحیح اور درست ہوجاتا ہے ” صاحب فضل قسم نہ کھائیں “ ” صاحب فضل کمی نہ کریں “ کسی غریب ومسکین رشتہ دار یا غیر رشتہ دار سے کوئی اچھا سلوک کرتے ہیں ان کو کھلاتے پلاتے ہیں ان کو صدقہ و خیرات ادا کرتے ہیں ‘ ان کے کام آتے ہیں لیکن جب انکی طرف سے کوئی رنج پہنچ جائے یا کوئی دکھ آلگے تو ان سے وہ نیکی کرنا ‘ ان کا ہاتھ بٹانا ‘ ان کو صدقہ و خیرات دینا بند کردیں تو یہ گویا برائی کے دل بدلہ میں برائی ہوئی جو کوئی خوبی کی بات نہیں ، خوبی کی بات تو یہ ہے کہ برائی کے بدلہ میں نیکی کی جائے بلاشبہ یہی نیکی اصل نیکی ہے ، نیکی کے بدلہ میں نیکی کرنا کوئی خوبی کی بات نہیں ہے ۔ حکم عام ہے اگرچہ اس کا شان نزول خاص ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ اس سے مراد سیدنا ابوصدیق ؓ سیدہ عائشہ ؓ کے والد ماجد کے متعلق سمجھا گیا ہے لیکن یہ کوئی مخصوص حکم نہیں بلا اس کا تعلق اس سے بھی ہے جس کا ذکر پیچھے گزر چکا تاہم حکم دوسرے قرآنی احکام کی طرح عام ہے جو اس وقت بھی عام تھا ‘ آج بھی عام ہے اور رہتی دنیا تک عام ہی رہے گا ، خوبی کی بات ہمیشہ خوبی کی بات ہی ہوتی ہے ، غور کیجئے کہ قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو اخلاق کی کن بلندوں پر پہنچانا چاہتا ہے ، ایک آدمی اپنے ایسے محسن کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور ایسا چرکا لگاتا ہے کہ اس کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا پھر وہ محسن اس سے کوئی خاص انتقامی کاروائی بھی نہیں کرتا ‘ نہ ناراض ہوتا ہے ‘ نہ احسان جتلاتا ہے نہ کسی طرح سے اس کی کردار کشی کرتا ہے اور کرتا ہے تو صرف یہ کہ اس سے مالی تعاون کرنے سے ہاتھ روک لیتا ہے لیکن اللہ رب ذوالجلال والاکرام کو اس کی بات بھی بھلی نہیں لگتی اور اس کو برملا کہا جاتا ہے کہ تم اپنے اس فعل سے باز آجاؤ کہ تمہارا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ تم ایک ادنی آدمی کے مقابلہ میں آجاؤ اور اس سے محض اس لئے ہاتھ روک لو کہ اس نے اپنی سادگی اور ناسمجھی کے باعث تم پر زیادتی کردی ہے ۔ بلاشبہ اس کی زیادتی کی شرعی سزا اس کو ملنی چاہئے لیکن اس سے ہاتھ کھینچ لینا اس کے فعل کی شرعی سزا نہیں ہے ۔ اس کو بتایا جارہا ہے کہ تم اس رسول مکرم ﷺ کے تعلیم یافتہ ‘ صحبت یافتہ اور خاص آدمی ہو جس نے ہمیشہ پتھر مارنے والوں اور راستہ میں میں کانٹے بچھانے والوں کے لئے بھی اللہ سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگی ہیں کہ ” اے اللہ ! ان کو معاف فرما دے یہ جانتے نہیں کہ میں تیرا بھیجا ہوا ایک رسول ہوں “ یعنی ابھی ان کو اس بات کا یقین نہیں آیا ان کے ساتھ مہربانی فرما اور ان کے اندر اس بات کا یقین پیدا کر دے کہ یہ جان جائیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ انسان اور خطا لازم وملزوم ہیں اگر ایک سے ہوئی ہے تو دوسرے سے بھی ممکن ہے : 32۔ اس بیان سے یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ یہ طوفان بپا کرنے والے منافق تھے لیکن ان منافقین کے چرکے میں کچھ سادہ لوح مسلمان بھی آگئے تھے جن کے دل تو یقینا بیمار نہیں تھے لیکن وہ وقتی طور پر اس مرض میں مبتلا ہوگئے تھے اگرچہ بعد میں ان کو بہت افسوس ہوا ہوگا تاہم جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا منہ سے نکل ہوئی بات اور شیشہ پر پڑجانے والی لکیر مٹائے کب مٹتی ہے اس سے تو چشم پوشی ہی کی جاسکتی ہے ان کی معذرت قبول کرلی جائے یا اللہ کی رضا کے لئے خاموشی اختیار کرلی جائے اور انتقام لینے کی طاقت وقوت ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ انتقام نہ لیا جائے بلکہ ان کی معافی طلب کئے بغیر ہی ان کو یک طرفہ معاف کردیا جائے ، ایسے لوگوں کے لئے انعام قرآنی ایک بہت بڑا انعام ہے کہ ان کو صاحب فضل کہا گیا ہے اور صاحب مال بھی تسلیم کیا گیا ہے اور ایسے صاحب فضل اور صاحب مال پر جب اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرنا چاہتا ہے تو اس کو توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی ذرا اور جھک جائے اور اپنے آپ کو صاحب فضل اور صاحب مال نہ سمجھے بلکہ یہ بات دوسروں کو سمجھنے دے اور خود اس اللہ رب ذوالجلال والاکرام کے سامنے جھک جائے تاکہ اللہ کریم اس کے فضل و کرم اور مال ومنال میں مزید اضافہ فرما دے ۔ ان آیات کریمات کو پڑھیں اور اپنے آپ کا تجزیہ کریں کہ کیا ٰیہ خوبی آپ میں ہے ؟ کیا آپ انتقام کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود انتقام نہیں لیتے ؟ کیا آپ اپنے سے کم تر لوگوں کے ساتھ اس وسعت سے کام لے سکتے ہیں ؟ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو آج ہی سے اپنی اصلاح کا خود تہیہ کرلیں اور اس معاملہ میں جو کچھ بھی نفس باور کرائے اس کو جھٹک دیں ‘ دیر نہ کریں ” ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تم کو بخش دے اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور پیار کرنے والا ہے ۔ “
Top