Ahkam-ul-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر چاہے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں
حج کے بعد میل کچیل دور کرنا۔ قول باری ہے (ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں) عبدالملک نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ تفث قربانی کا جانور ذبح کرنے، سر مونڈنے، سر کے بال کٹوانے، ناخن اتارنے اور مونچیں کتروانے نیز بغل کے بال صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ عثمان بن الاسود نے مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے حسن اور ابو عبیدہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ حضرت ابن عمر اور سعید بن جبیر سے قول باری (تفثھم ) کی تفسیر میں ” اپنے مناسک “ مقنول ہے۔ اشعت نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ ” وہ اپنے نسک ادا کریں۔ “ حماد بن مسلمہ نے قیس سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کی ہے کہ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ) کا مفہوم ہے کہ اپنے بال اور ناخن صاف کرائیں ۔ ایک قول کے مطابق تفث سر مونڈانے اور غسل وغیرہ کرنے کے ذریعے احرام کے میل کچیل کو دور کرنے کا نام ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب تفث دور کرنے کے سلف نے وہ معافی بیان کئے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں سر مونڈنا بھی داخل ہے اس لئے کہ سلف نے اس کی یہ تاویل کی ہے اگر تفث اس معنی پر دلالت کرنے والا اسم نہ ہوتا تو سلف اس سے ہرگز یہ معنی نہ لیتے اس لئے کہ لفظ سے وہ معنی لینا ہرگز درست نہیں ہوتا جس کی لفظ تعبیر نہ کرتا ہو۔ یہ چیز حلق یعنی سرمونڈنے کے وجوب کی دلیل ہے اس لئے کہ امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کا یہ قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ حلق احرام کے تحت آنے والی عبادتوں میں داخل نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس امر کے ذریعے ممانعت کو رفع کردیا گیا ہے کیونکہ احرام کھولنے سے پہلے ان باتوں کی ممانعت تھی جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصطادوا اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو) نیز فرمایا (فاذا فضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض اور جب جمعہ کی نماز پڑھ کی جائے تو تم زمین پر پھیل جائو) لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ تفث دور کرنے کا حکم تمام مناسک کو شامل ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر اور سلف کے ان حضرات سے منقول ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ تمام مناسک کی ادائیگی اباحت کے طور پر نہیں ہوتی بلکہ وجوب کے طور پر ہوتی ہے۔ حلق کی کیفیت بھی یہی ہے اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تفث دو ر کرنے کے حکم میں حلق کے سوا دوسرے افعال کے سلسلے میں ایجاب مراد ہے اسی طرح حلق کے سلسلے میں بھی ایجاب مراد ہوگا۔ نحر کی نذر پوری کریں قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم اور اپنی نذریں پوری کریں) حضرت ابن عباس کا ول ہے کہ جن اونٹوں کو نحر کرنے کی انہوں نے نذریں مانی تھیں انہیں نحر یعنی ذبح کریں۔ مجاہد کا قول ہے کہ حج کے سلسلے میں جو نذیرں مانی گئی تھیں انہیں پوری کریں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر آیت سے نذر والے اونٹوں کا نحر مراد لیا جائے تو قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) میں وہ اونٹ اور جانور مراد نہیں ہوں گے جن کے نحر کی نذر مانی گئی ہو۔ اس لئے کہ اگر یہ مراد ہوتے تو جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کا گوشت کھانے کا ہمیں حکم دینے کے بعد ان کا ذکر نہ کرتا اس لئے درج بالا آیت ان جانوروں کے بارے میں ہوگی جن کی نذر نہ مانی گئی ہو اور یہ نفلی طور پر نیز حج تمتع اور حج قران کی بنا پر ذبح کئے جانے والے جانور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے نذر کے طور پر قربان کئے جانے والے جانور مراد نہیں لئے ہیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ نذر کی قربانی کا گوشت کھایا نہیں جاتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ جانوروں کا گوشت کھانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات اس پ دلالت کرتی ہے کہ آیت میں نذر مراد نہیں ہے۔ نذر کا نئے سرے سے ذکر کر کے اس کے ذریعے کئی احکام بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا دوم یہ کہ نذر کے جانوروں کی ان ایام میں قربانی دوسرے ایام کی بہ نسبت افضل ہوتی ہے۔ سوم یہ کہ جس چیز کی نذر مانی گئی ہے اسے پورا کرنا واجب ہے اس کے بدلے قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ حج کی ساری نذریں مراد ہوں خواہ وہ صدقہ ہو یا طواف یا اس قسم کی کوئی اور عبادت۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد ہر وہ نذر ہے ۔ جو ایک مدت تک کے لئے مانی گئی ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں نذر پوری کرنے کے لزوم پر دلالت موجود ہے کیونکہ قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم ) اور امر و جوب پر محمول ہوتا ہے اور یہ امام شافعی کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے یا اونٹ کی قربانی کی یا اس جیسی کوئی نذر مانے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ اس قول کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نفس نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ طواف زیارت کا بیان قول باری ہے صولیطو فوا بالبیت العتیق اور پرانے گھر کا طواف کریں) حسن سے روایت ہے کہ یہ طوف زیارت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ واجب طواف ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت وجوب کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ یہ امر ہے اور امر و جوب پر محمول ہتا ہے۔ اسے قضائے تفث یعنی میل کچیل دور کرنے کے حکم پر معطوف کیا گیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یو م النحر یعنی دسویں تاریخ کو ذبح کے بعد طواف زیارت کے سوا اور کوئی طواف نہیں ہوتا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے طواف زیارت مراد ہے اور یہ واجب طواف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں طواف قدوم کا احتمال ہے جسے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے مکہ مکرمہ پہنچ کر ادا کیا تھا اور اس کی ادائیگی کے بعد حج کا احرام کھو لدیا تھا اور اسے عمرہ قرار دیا تھا البتہ حضور ﷺ نے احرام نہیں کھولا تھا۔ اس لئے کہ آپ اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لائے تھے جو احرام کھولنے میں آپ کے لئے مانع بن گیا اور پھر آپ نے حج ادا کرنے تک اپنا احرام قائم رکھا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کئی وجوہ کی بنا پر اس سے طواف قدوم مراد لینا درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ ذبح کے فوراً بعد اس طواف کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور جانوروں کا ذبح یوم النحر کو ہوتا ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مانذقھم من بھیمۃ الا نعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق اور مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں، ان میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں) حرف ثم کے حقیقی معنی تراخی یعنی وقفہ ڈال کر کام سر انجام دینے کے ہیں جبکہ طواف قدوم یوم النحر سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف قدوم مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) امر کا صیغہ ہے اور امر وجوب پر محمول ہوتا ہے الا یہ کہ ندب اور استحباب کی کوئی دلالت قائم جائے طواف قدوم واجب نہیں ہے اگر اس سے طواف قدوم مراد لیا جائے گا تو کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹانا لازم آئے گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس سے وہ طواف مراد ہوتا جس کا حضور ﷺ کے صحابہ کرام کو حکم دیا گیا تھا جب یہ حضرات مکہ پہنچے تھے تو یہ منسوخ ہوتا اس لئے کہ انہیں حج فسخ کرنے کے لئے اس طواف کا حکم دیا گیا تھا۔ حج فسخ کرنے کا یہ حکم قول باری (واتموا الحج و العمرۃ للہ اللہ کے لئے حج اور عمرے کی تکمیل کرو) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ یہ حکم اس روایت کی بنا پر بھی منسوخ ہوچکا ہے جسے ربیعہ نے حارث بن بلال بن حارث سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔” اللہ کے رسول ! آپ ﷺ کا کیا خیال ہے کہ ہمارا یہ حج خاص طور پر ہمارے لئے فسخ کردیا گیا ہے یا تمام لوگوں کے لئے ؟ “ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ” خاص طور پر تمہارے لئے۔ “ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت ابو ذر وغیرہم سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حج پر آنے والا شخص طواف قدوم نہیں کرے گا۔ اگر اس نے عرفات میں جانے سے پہلے یہ طواف کرلیا تو اس کا حج عمرہ بن جائے گا۔ “ حضرت ابن عباس اپنے اس قول کے حق میں آیت (ثم محلھا الی البیت العتیق پھر ان (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے) سے استدلال کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے یہ مسلک اختیار کیا کہ ایسا شخص طواف کی وجہ سے احرام کھول دے گا خواہ اس نے یہ طواف عرفات میں جانے سے پہلے کیا ہو یا بعد میں۔ حضرت ابن عباس کا مسلک یہ تھا کہ یہ حکم بحالہ باقی ہے منسوخ نہیں ہوا۔ نیز یہ کہ حج کی تکمیل سے پہلے اس کا فسخ جائز ہے وہ اس طرح کہ ایسا شخص وقوف عرفہ سہے پہلے طواف کرلے اس کا حج عمرہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ تاہم ظاہر قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے اس حکم کا نسخ ثابت ہوچکا ہے۔ حضرت عمر نے بھی اس کے یہی معنی لئے تھے جب آپ نے یہ فرمایا تھا۔” حضور ﷺ کے زمانے میں جاری دو طرح کے متعہ سے اب میں لوگوں کو روکتا اور اس پر انہیں سزا دیتا ہوں۔ عورتوں کے ساتھ مقعہ اور حج کا مقعہ۔ “ حج کے متعہ یعنی حج کا احرام باندھ کر وقوف عرفہ سے پہلے طواف کر کے احرام کھول کر اسے عمرہ بنا دینے کے سلسلے میں حضرت عمر نے ممانعت کا جو حکم جاری کیا تھا اس کے لئے آپ کا ذہن درج بالا آیت کے ظاہری معنی کی طرف گیا تھا نیز حضور ﷺ کی طرف سے صحابہ کرام کو جو بتادیا گیا تھا کہ فسخ حج کا یہ حکم صرف ان کے لئے خاص تھا۔ تمام لوگوں کے لئے نہیں تھا۔ حضرت عمر کا ذہن اس توقیف کی طرف بھی گیا تھا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اب قول باری (ولیطوفوا بالبیت لعتیق ) سے یہ معنی لینا درست نہیں رہا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف سے ، طواف زیارت مراد ہے۔ آی ت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ ایام نحر کے گزر جانے سے پہلے پہلے طواف زیارت کرلینا واجب ہے۔ اس لئے امر پر فی الفور عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے الا یہ کہ تاخیر کے جواز پر کوئی دلیل قائم ہوجائے۔ تاہم ایام النحر کے آخر تک اس کی تاخیر کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے افلح بن حمید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے چند صحابہ کرام کی معیت میں حج کیا تھا۔ ان میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے۔ جب دسویں تاریخ ہوئی تو ان میں سے کوئی بھی بیت اللہ کی زیارت کو نہیں گیا یہاں تک کہ یوم النفر یعنی واپسی کا دن آگیا۔ ان میں سے صرف وہی لوگ طواف زیارت کے لئے گئے اور اس میں جلدی کی جن کے ساتھ عورتیں تھیں روایت میں یوم النفر کا ذکر ہے ہمارے نزدیک اس سے نفر اول یعنی پہلی واپسی مراد ہے جو ایام نحر کے تیسرے دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے۔ اگر ہم ظاہر آیت کو اس کے اصل مفہوم کے اعتبار سے لیں تو اس میں طاف زیارت کو یوم النحر سے مئوخر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تاہم جب سلف اور فقہاء ، مصار ، ایام نحر کے تیسرے روز تک اس کی تاخیر کی اباحت پر متفق ہوگئے تو ہم نے بھی اسے جائز قرار دیا۔ لیکن ایام تشریق یعنی تیرہویں تاریخ کے آخر تک طواف زیارت کو مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوجائے گا یعنی جرمانے کے طور پر ایک جانور کی قربانی دینی ہوگی۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اس پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوگا۔ طواف کو مئوخر نہ کرنے کا حکم اگر یہ کہا جائے کہ جب حرف ثم تراخی کا مقتضی ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ طواف کرنے والا جب تک طواف میں تاخیر کرنا چاہے اسے تاخیر کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس پر طواف زیارت میں تاخیر واجب نہیں ہے۔ دوسری طرف ظاہر لفظ اس کی تاخیر کے ایجاب کا مقتضی ہے اگر اسے اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے۔ جب تاخیر واجب نہیں اور طواف کرنا لامحالہ واجب ہے تو یہ چیز اس امر کی مقتضی ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر یوم النحر کو اس کی ادائیگی لازم ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں میل کچیل دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے معترض نے ظاہر لفظ سے ہمیشہ اس کی تاخیر کے جواز پر جو استدلال کیا ہے وہ درست نہیں ہے بجہ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اس مقام میں حرف ثم سے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ تراخی کے ساتھ طواف زیارت کرنا واجب ہے۔ اسی بن اپر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جس شخص نے ایام تشریق کے آخر تک حلق مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوگا اس لئے کہ قو ل باری (ثم لیقضوا تفثھم) اس امر کا مقتضی ہے کہ یوم النحر کو فی الفور حلق کرایا جائے اور ایام نحر کے آخر تک بالاتفاق اس کی تاخیر کو مباح کردیا ہے لیکن اس سے زائد تاخیر کو مباح نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کے حق میں اس بات سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایام تشریق کے دوسرے دن جو ایام النحر کا تیسرا دن ہے، نفر یعنی واپسی کو مباح کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے (واذکروا اللہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ اور چند گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذک کرو، جو شخص دو دنوں میں جلدی کرے) اس پر کوئی گناہ نہیں) لیکن طوف زیارت کے بغیر واپسی کی اباحت ممتنع ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسے نفر اول یعنی ایام الخ کیت یسرے دن سے پہلے طواف زیارت کرنے کا حکم ہے۔ جب آیت نفر اول کی اباحت کو متضمن ہے تو ایسے شخص کا طواف ایام النحر کے اندر ہی مکمل ہوجائے گا۔ اس لئے اسے لامحالہ طواف میں تاخیر کرنے سے روکا گیا ہے اس لئے اگر وہ اس میں تاخیر کرے گا تو کوتاہی کی تلافی کے لئے اس پر ایک دم لازم ہوجائے گا۔ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) کے الفاظ کے معانی واضح اور ان کی مرادظاہر ہے اس لئے یہ طواف کے جواز کا مقتضی ہے چاہے یہ طواف حدث یا خیابت کی حالت میں یا برہنہ ہو کر یا سر کے بل یا گھسٹ گھسٹ کر کیوں نہ کیا گیا ہو اس لئے کہ آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں ہے کہ طہارت وغیرہ اس میں شرط ہے اگر ہم اس میں طہارت وغیرہ کی شرط لاگئیں گے تو نص میں ایک ایسی چیز کا اضافہ کردیں گے جو اس میں داخل نہیں ہے جبکہ نص میں اضافہ جائز نہیں ہوتا الایہ کہ اس جیسا کوئی نص ہو جس کے ذریعے اس نص کا نسخ جائز ہوسکتا ہو۔ اس لئے آیت کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ ایک انسان اگر درج بالا ممنوعہ صورتوں میں سے کسی صورت میں طواف کرے گا تو بھی اس پر جواز کا حکم لگ جائے گا۔ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ولیو فوانذور ھم و لیطوفوا بالبیت العتیق) اس امر کا بھی مقتضی ہے کہ آیت میں مذکورہ افعال کی اس ترتیب سے ہٹ کر کوئی شخص اگر انہیں ادا کرے گا تو ایسا کرنا اس کے لئے جائز ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کسی نے میل کچیل دور کرنے سے پہلے طواف زیارت کرلیا یا میل کچیل دور کرنے کے بعد طواف کیا تو آیت کا مقتضی یہ ہے کہ ہر صورت میں ان مناسک کی ادائیگی ہوجائے گی اس لئے حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ فقہاء نے بھی بالا تفاق طواف زیارت سے پہلے حلق اور سلے ہوئے کپڑے پہن لینے کی اباحت کردی ہے۔ اسی طرح طواف زیارت سے پہلے بیوی کے ساتھ ہمبستری پر پابندی اور ممانعت کے مسئلے میں بھی ان میں اتفاق رائے ہے۔ البتہ خوشبو لگانے اور شکار کرنے کی اباحت کے مسئلے میں ان کے مابین اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ طواف زیارت سے پہلے یہ دونوں امور مباح ہیں۔ ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقہاء کی یہی رائے ہے ۔ حضرت عائشہ اور سلف میں سے دوسرے حضرات کا بھی یہی قول ہے حضرت عمر اور حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ جب تک طواف زیارت نہیں کرے گا اس وقت تک اس کے لئے بیوی، خوشبو اور شکار کی حلت نہیں ہوگی۔ کچھ فقہاء کا یہی قول ہے۔ سفیان بن عینیہ نے عبدالرحمٰن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو احرام باندھتے وقت خوشبو لگائی تھی اور بیت اللہ کے طواف سے پہلے احرام کھولنے پر خوشبو لگائی تھی۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ اس طرح کہ تمام حضرات طواف زیارت سے پہلے سلے ہوئے کپڑے پہن لینے اور حلق کی اباحت پر متفق ہیں حالانکہ ان دونوں چیزوں کو احرام فاسد کرنے میں کوئی دخل نہیں ہوتا اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ خوشبو اور شکار کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہو۔ بیت العتیق قول باری (بالبیت العتیق ) کی تفسیر میں معمر نے زہری سے اور انہوں نے حضرت ابن الزبیر سے روایت کی ہے کہ بیت اللہ کو بیت عتیق کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کہ اسے جابر لوگوں کی گرفت سے آزاد کردیا ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو جابر حکمرانوں کے قبضہ میں آنے سے آزاد رکھا ہے۔ ایک قول کے مطابق دنیا کے بتکدے میں یہ خدا کا پہلا گھر تھا اس کی بنیاد حضرت آدم (علیہ السلام) نے رکھی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کی تجدید ہوئی۔ اس بنا پر یہ قدیم ترین گھر ہے اور اسی لئے اس کا نام بیت عتیق رکھا گیا ہے۔
Top