Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ
: پھر
لْيَقْضُوْا
: چاہیے کہ دور کریں
تَفَثَهُمْ
: اپنا میل کچیل
وَلْيُوْفُوْا
: اور پوری کریں
نُذُوْرَهُمْ
: اپنی نذریں
وَلْيَطَّوَّفُوْا
: اور طواف کریں
بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ
: قدیم گھر
پھر چاہے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ قدیم (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں
حج کے بعد میل کچیل دور کرنا۔ قول باری ہے (ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں) عبدالملک نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ تفث قربانی کا جانور ذبح کرنے، سر مونڈنے، سر کے بال کٹوانے، ناخن اتارنے اور مونچیں کتروانے نیز بغل کے بال صاف کرنے کو کہتے ہیں۔ عثمان بن الاسود نے مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے حسن اور ابو عبیدہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ حضرت ابن عمر اور سعید بن جبیر سے قول باری (تفثھم ) کی تفسیر میں ” اپنے مناسک “ مقنول ہے۔ اشعت نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ ” وہ اپنے نسک ادا کریں۔ “ حماد بن مسلمہ نے قیس سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کی ہے کہ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ) کا مفہوم ہے کہ اپنے بال اور ناخن صاف کرائیں ۔ ایک قول کے مطابق تفث سر مونڈانے اور غسل وغیرہ کرنے کے ذریعے احرام کے میل کچیل کو دور کرنے کا نام ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب تفث دور کرنے کے سلف نے وہ معافی بیان کئے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے تو یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں سر مونڈنا بھی داخل ہے اس لئے کہ سلف نے اس کی یہ تاویل کی ہے اگر تفث اس معنی پر دلالت کرنے والا اسم نہ ہوتا تو سلف اس سے ہرگز یہ معنی نہ لیتے اس لئے کہ لفظ سے وہ معنی لینا ہرگز درست نہیں ہوتا جس کی لفظ تعبیر نہ کرتا ہو۔ یہ چیز حلق یعنی سرمونڈنے کے وجوب کی دلیل ہے اس لئے کہ امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کا یہ قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ حلق احرام کے تحت آنے والی عبادتوں میں داخل نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ اس امر کے ذریعے ممانعت کو رفع کردیا گیا ہے کیونکہ احرام کھولنے سے پہلے ان باتوں کی ممانعت تھی جس طرح یہ قول باری ہے (واذا حللتم فاصطادوا اور جب احرام کھول دو تو شکار کرو) نیز فرمایا (فاذا فضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض اور جب جمعہ کی نماز پڑھ کی جائے تو تم زمین پر پھیل جائو) لیکن پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ اس لئے کہ تفث دور کرنے کا حکم تمام مناسک کو شامل ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر اور سلف کے ان حضرات سے منقول ہے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ تمام مناسک کی ادائیگی اباحت کے طور پر نہیں ہوتی بلکہ وجوب کے طور پر ہوتی ہے۔ حلق کی کیفیت بھی یہی ہے اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ تفث دو ر کرنے کے حکم میں حلق کے سوا دوسرے افعال کے سلسلے میں ایجاب مراد ہے اسی طرح حلق کے سلسلے میں بھی ایجاب مراد ہوگا۔ نحر کی نذر پوری کریں قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم اور اپنی نذریں پوری کریں) حضرت ابن عباس کا ول ہے کہ جن اونٹوں کو نحر کرنے کی انہوں نے نذریں مانی تھیں انہیں نحر یعنی ذبح کریں۔ مجاہد کا قول ہے کہ حج کے سلسلے میں جو نذیرں مانی گئی تھیں انہیں پوری کریں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر آیت سے نذر والے اونٹوں کا نحر مراد لیا جائے تو قول باری (علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام) میں وہ اونٹ اور جانور مراد نہیں ہوں گے جن کے نحر کی نذر مانی گئی ہو۔ اس لئے کہ اگر یہ مراد ہوتے تو جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کا گوشت کھانے کا ہمیں حکم دینے کے بعد ان کا ذکر نہ کرتا اس لئے درج بالا آیت ان جانوروں کے بارے میں ہوگی جن کی نذر نہ مانی گئی ہو اور یہ نفلی طور پر نیز حج تمتع اور حج قران کی بنا پر ذبح کئے جانے والے جانور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے نذر کے طور پر قربان کئے جانے والے جانور مراد نہیں لئے ہیں۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ نذر کی قربانی کا گوشت کھایا نہیں جاتا جب کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ جانوروں کا گوشت کھانے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات اس پ دلالت کرتی ہے کہ آیت میں نذر مراد نہیں ہے۔ نذر کا نئے سرے سے ذکر کر کے اس کے ذریعے کئی احکام بیان کئے ہیں اول تو یہ کہ ان کا گوشت نہیں کھایا جائے گا دوم یہ کہ نذر کے جانوروں کی ان ایام میں قربانی دوسرے ایام کی بہ نسبت افضل ہوتی ہے۔ سوم یہ کہ جس چیز کی نذر مانی گئی ہے اسے پورا کرنا واجب ہے اس کے بدلے قسم کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ حج کی ساری نذریں مراد ہوں خواہ وہ صدقہ ہو یا طواف یا اس قسم کی کوئی اور عبادت۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس سے مراد ہر وہ نذر ہے ۔ جو ایک مدت تک کے لئے مانی گئی ہو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ زیر بحث آیت میں نذر پوری کرنے کے لزوم پر دلالت موجود ہے کیونکہ قول باری ہے (ولیوفوا نذورھم ) اور امر و جوب پر محمول ہوتا ہے اور یہ امام شافعی کے اس قول کے بطلان پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے یا اونٹ کی قربانی کی یا اس جیسی کوئی نذر مانے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا۔ اس قول کے بطلان کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نفس نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے۔ طواف زیارت کا بیان قول باری ہے صولیطو فوا بالبیت العتیق اور پرانے گھر کا طواف کریں) حسن سے روایت ہے کہ یہ طوف زیارت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ یہ واجب طواف ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت وجوب کا مقتضی ہے۔ اس لئے کہ یہ امر ہے اور امر و جوب پر محمول ہتا ہے۔ اسے قضائے تفث یعنی میل کچیل دور کرنے کے حکم پر معطوف کیا گیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ طواف کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یو م النحر یعنی دسویں تاریخ کو ذبح کے بعد طواف زیارت کے سوا اور کوئی طواف نہیں ہوتا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے طواف زیارت مراد ہے اور یہ واجب طواف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس میں طواف قدوم کا احتمال ہے جسے حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام نے مکہ مکرمہ پہنچ کر ادا کیا تھا اور اس کی ادائیگی کے بعد حج کا احرام کھو لدیا تھا اور اسے عمرہ قرار دیا تھا البتہ حضور ﷺ نے احرام نہیں کھولا تھا۔ اس لئے کہ آپ اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لائے تھے جو احرام کھولنے میں آپ کے لئے مانع بن گیا اور پھر آپ نے حج ادا کرنے تک اپنا احرام قائم رکھا تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ کئی وجوہ کی بنا پر اس سے طواف قدوم مراد لینا درست نہیں ہے۔ اول یہ کہ ذبح کے فوراً بعد اس طواف کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور جانوروں کا ذبح یوم النحر کو ہوتا ہے اس لئے کہ ارشاد باری ہے (ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی مانذقھم من بھیمۃ الا نعام فکلوا منھا واطعموا البائس الفقیر ثم لیقضوا تفثھم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق اور مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں، ان میں سے خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں پھر اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور پرانے گھر کا طواف کریں) حرف ثم کے حقیقی معنی تراخی یعنی وقفہ ڈال کر کام سر انجام دینے کے ہیں جبکہ طواف قدوم یوم النحر سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف قدوم مراد نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) امر کا صیغہ ہے اور امر وجوب پر محمول ہوتا ہے الا یہ کہ ندب اور استحباب کی کوئی دلالت قائم جائے طواف قدوم واجب نہیں ہے اگر اس سے طواف قدوم مراد لیا جائے گا تو کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹانا لازم آئے گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس سے وہ طواف مراد ہوتا جس کا حضور ﷺ کے صحابہ کرام کو حکم دیا گیا تھا جب یہ حضرات مکہ پہنچے تھے تو یہ منسوخ ہوتا اس لئے کہ انہیں حج فسخ کرنے کے لئے اس طواف کا حکم دیا گیا تھا۔ حج فسخ کرنے کا یہ حکم قول باری (واتموا الحج و العمرۃ للہ اللہ کے لئے حج اور عمرے کی تکمیل کرو) کی وجہ سے منسوخ ہوچکا ہے۔ یہ حکم اس روایت کی بنا پر بھی منسوخ ہوچکا ہے جسے ربیعہ نے حارث بن بلال بن حارث سے اور انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔” اللہ کے رسول ! آپ ﷺ کا کیا خیال ہے کہ ہمارا یہ حج خاص طور پر ہمارے لئے فسخ کردیا گیا ہے یا تمام لوگوں کے لئے ؟ “ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا ” خاص طور پر تمہارے لئے۔ “ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت ابو ذر وغیرہم سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حج پر آنے والا شخص طواف قدوم نہیں کرے گا۔ اگر اس نے عرفات میں جانے سے پہلے یہ طواف کرلیا تو اس کا حج عمرہ بن جائے گا۔ “ حضرت ابن عباس اپنے اس قول کے حق میں آیت (ثم محلھا الی البیت العتیق پھر ان (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے) سے استدلال کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے یہ مسلک اختیار کیا کہ ایسا شخص طواف کی وجہ سے احرام کھول دے گا خواہ اس نے یہ طواف عرفات میں جانے سے پہلے کیا ہو یا بعد میں۔ حضرت ابن عباس کا مسلک یہ تھا کہ یہ حکم بحالہ باقی ہے منسوخ نہیں ہوا۔ نیز یہ کہ حج کی تکمیل سے پہلے اس کا فسخ جائز ہے وہ اس طرح کہ ایسا شخص وقوف عرفہ سہے پہلے طواف کرلے اس کا حج عمرہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ تاہم ظاہر قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) سے اس حکم کا نسخ ثابت ہوچکا ہے۔ حضرت عمر نے بھی اس کے یہی معنی لئے تھے جب آپ نے یہ فرمایا تھا۔” حضور ﷺ کے زمانے میں جاری دو طرح کے متعہ سے اب میں لوگوں کو روکتا اور اس پر انہیں سزا دیتا ہوں۔ عورتوں کے ساتھ مقعہ اور حج کا مقعہ۔ “ حج کے متعہ یعنی حج کا احرام باندھ کر وقوف عرفہ سے پہلے طواف کر کے احرام کھول کر اسے عمرہ بنا دینے کے سلسلے میں حضرت عمر نے ممانعت کا جو حکم جاری کیا تھا اس کے لئے آپ کا ذہن درج بالا آیت کے ظاہری معنی کی طرف گیا تھا نیز حضور ﷺ کی طرف سے صحابہ کرام کو جو بتادیا گیا تھا کہ فسخ حج کا یہ حکم صرف ان کے لئے خاص تھا۔ تمام لوگوں کے لئے نہیں تھا۔ حضرت عمر کا ذہن اس توقیف کی طرف بھی گیا تھا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے تو اب قول باری (ولیطوفوا بالبیت لعتیق ) سے یہ معنی لینا درست نہیں رہا۔ ہماری اس وضاحت سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں طواف سے ، طواف زیارت مراد ہے۔ آی ت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ ایام نحر کے گزر جانے سے پہلے پہلے طواف زیارت کرلینا واجب ہے۔ اس لئے امر پر فی الفور عمل درآمد کرنا ضروری ہوتا ہے الا یہ کہ تاخیر کے جواز پر کوئی دلیل قائم ہوجائے۔ تاہم ایام النحر کے آخر تک اس کی تاخیر کی اباحت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سفیان ثوری وغیرہ نے افلح بن حمید سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ انہوں نے چند صحابہ کرام کی معیت میں حج کیا تھا۔ ان میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے۔ جب دسویں تاریخ ہوئی تو ان میں سے کوئی بھی بیت اللہ کی زیارت کو نہیں گیا یہاں تک کہ یوم النفر یعنی واپسی کا دن آگیا۔ ان میں سے صرف وہی لوگ طواف زیارت کے لئے گئے اور اس میں جلدی کی جن کے ساتھ عورتیں تھیں روایت میں یوم النفر کا ذکر ہے ہمارے نزدیک اس سے نفر اول یعنی پہلی واپسی مراد ہے جو ایام نحر کے تیسرے دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے۔ اگر ہم ظاہر آیت کو اس کے اصل مفہوم کے اعتبار سے لیں تو اس میں طاف زیارت کو یوم النحر سے مئوخر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تاہم جب سلف اور فقہاء ، مصار ، ایام نحر کے تیسرے روز تک اس کی تاخیر کی اباحت پر متفق ہوگئے تو ہم نے بھی اسے جائز قرار دیا۔ لیکن ایام تشریق یعنی تیرہویں تاریخ کے آخر تک طواف زیارت کو مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوجائے گا یعنی جرمانے کے طور پر ایک جانور کی قربانی دینی ہوگی۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ اس پر کوئی جرمانہ عائد نہیں ہوگا۔ طواف کو مئوخر نہ کرنے کا حکم اگر یہ کہا جائے کہ جب حرف ثم تراخی کا مقتضی ہے تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ طواف کرنے والا جب تک طواف میں تاخیر کرنا چاہے اسے تاخیر کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس پر طواف زیارت میں تاخیر واجب نہیں ہے۔ دوسری طرف ظاہر لفظ اس کی تاخیر کے ایجاب کا مقتضی ہے اگر اسے اس کے حقیقی معنوں پر محمول کیا جائے۔ جب تاخیر واجب نہیں اور طواف کرنا لامحالہ واجب ہے تو یہ چیز اس امر کی مقتضی ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر یوم النحر کو اس کی ادائیگی لازم ہے۔ یہی وہ وقت ہے جس میں میل کچیل دور کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے معترض نے ظاہر لفظ سے ہمیشہ اس کی تاخیر کے جواز پر جو استدلال کیا ہے وہ درست نہیں ہے بجہ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ اس مقام میں حرف ثم سے اس کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔ یعنی یہ بات نہیں ہے کہ تراخی کے ساتھ طواف زیارت کرنا واجب ہے۔ اسی بن اپر امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ جس شخص نے ایام تشریق کے آخر تک حلق مئوخر کردیا اس پر دم واجب ہوگا اس لئے کہ قو ل باری (ثم لیقضوا تفثھم) اس امر کا مقتضی ہے کہ یوم النحر کو فی الفور حلق کرایا جائے اور ایام نحر کے آخر تک بالاتفاق اس کی تاخیر کو مباح کردیا ہے لیکن اس سے زائد تاخیر کو مباح نہیں کیا۔ امام ابوحنیفہ کے اس مسلک کے حق میں اس بات سے استدلال کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایام تشریق کے دوسرے دن جو ایام النحر کا تیسرا دن ہے، نفر یعنی واپسی کو مباح کردیا ہے چناچہ ارشاد ہے (واذکروا اللہ فی ایام معدودات فمن تعجل فی یومین فلا اثم علیہ اور چند گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذک کرو، جو شخص دو دنوں میں جلدی کرے) اس پر کوئی گناہ نہیں) لیکن طوف زیارت کے بغیر واپسی کی اباحت ممتنع ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اسے نفر اول یعنی ایام الخ کیت یسرے دن سے پہلے طواف زیارت کرنے کا حکم ہے۔ جب آیت نفر اول کی اباحت کو متضمن ہے تو ایسے شخص کا طواف ایام النحر کے اندر ہی مکمل ہوجائے گا۔ اس لئے اسے لامحالہ طواف میں تاخیر کرنے سے روکا گیا ہے اس لئے اگر وہ اس میں تاخیر کرے گا تو کوتاہی کی تلافی کے لئے اس پر ایک دم لازم ہوجائے گا۔ قول باری (ولیطوفوا بالبیت العتیق) کے الفاظ کے معانی واضح اور ان کی مرادظاہر ہے اس لئے یہ طواف کے جواز کا مقتضی ہے چاہے یہ طواف حدث یا خیابت کی حالت میں یا برہنہ ہو کر یا سر کے بل یا گھسٹ گھسٹ کر کیوں نہ کیا گیا ہو اس لئے کہ آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں ہے کہ طہارت وغیرہ اس میں شرط ہے اگر ہم اس میں طہارت وغیرہ کی شرط لاگئیں گے تو نص میں ایک ایسی چیز کا اضافہ کردیں گے جو اس میں داخل نہیں ہے جبکہ نص میں اضافہ جائز نہیں ہوتا الایہ کہ اس جیسا کوئی نص ہو جس کے ذریعے اس نص کا نسخ جائز ہوسکتا ہو۔ اس لئے آیت کی اس امر پر دلالت ہو رہی ہے کہ ایک انسان اگر درج بالا ممنوعہ صورتوں میں سے کسی صورت میں طواف کرے گا تو بھی اس پر جواز کا حکم لگ جائے گا۔ قول باری (ثم لیقضوا تفثھم ولیو فوانذور ھم و لیطوفوا بالبیت العتیق) اس امر کا بھی مقتضی ہے کہ آیت میں مذکورہ افعال کی اس ترتیب سے ہٹ کر کوئی شخص اگر انہیں ادا کرے گا تو ایسا کرنا اس کے لئے جائز ہوگا۔ اس لئے کہ آیت میں ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کسی نے میل کچیل دور کرنے سے پہلے طواف زیارت کرلیا یا میل کچیل دور کرنے کے بعد طواف کیا تو آیت کا مقتضی یہ ہے کہ ہر صورت میں ان مناسک کی ادائیگی ہوجائے گی اس لئے حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ فقہاء نے بھی بالا تفاق طواف زیارت سے پہلے حلق اور سلے ہوئے کپڑے پہن لینے کی اباحت کردی ہے۔ اسی طرح طواف زیارت سے پہلے بیوی کے ساتھ ہمبستری پر پابندی اور ممانعت کے مسئلے میں بھی ان میں اتفاق رائے ہے۔ البتہ خوشبو لگانے اور شکار کرنے کی اباحت کے مسئلے میں ان کے مابین اختلاف رائے پیدا ہوگیا ہے۔ کچھ حضرات کا قول ہے کہ طواف زیارت سے پہلے یہ دونوں امور مباح ہیں۔ ہمارے اصحاب اور عامتہ الفقہاء کی یہی رائے ہے ۔ حضرت عائشہ اور سلف میں سے دوسرے حضرات کا بھی یہی قول ہے حضرت عمر اور حضرت ابن عمر کا قول ہے کہ جب تک طواف زیارت نہیں کرے گا اس وقت تک اس کے لئے بیوی، خوشبو اور شکار کی حلت نہیں ہوگی۔ کچھ فقہاء کا یہی قول ہے۔ سفیان بن عینیہ نے عبدالرحمٰن بن القاسم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو احرام باندھتے وقت خوشبو لگائی تھی اور بیت اللہ کے طواف سے پہلے احرام کھولنے پر خوشبو لگائی تھی۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے وہ اس طرح کہ تمام حضرات طواف زیارت سے پہلے سلے ہوئے کپڑے پہن لینے اور حلق کی اباحت پر متفق ہیں حالانکہ ان دونوں چیزوں کو احرام فاسد کرنے میں کوئی دخل نہیں ہوتا اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ خوشبو اور شکار کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہو۔ بیت العتیق قول باری (بالبیت العتیق ) کی تفسیر میں معمر نے زہری سے اور انہوں نے حضرت ابن الزبیر سے روایت کی ہے کہ بیت اللہ کو بیت عتیق کے نام سے اس لئے موسوم کیا ہے کہ اسے جابر لوگوں کی گرفت سے آزاد کردیا ہے ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو جابر حکمرانوں کے قبضہ میں آنے سے آزاد رکھا ہے۔ ایک قول کے مطابق دنیا کے بتکدے میں یہ خدا کا پہلا گھر تھا اس کی بنیاد حضرت آدم (علیہ السلام) نے رکھی، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کی تجدید ہوئی۔ اس بنا پر یہ قدیم ترین گھر ہے اور اسی لئے اس کا نام بیت عتیق رکھا گیا ہے۔
Top