Ahkam-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
طہارت مومن یہ کہ نجاست کفر سے محفوظ ہے قول باری ہے (واذقالت الملئکۃ یا مریم ان اللہ اصطفاک وطھرک واصطفاک علی نساء العالمین، اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا) قول باری (واصطفاک) کے معنی یوں بیان کیئے گئے کہ اے مریم ! تجھے اللہ نے دنیا والوں کی تمام عورتوں پر فضیلت دے کر برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور ابن جریج سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مریم اللہ تعالیٰ نے دلادتمسیح کی جلیل القدرخصوصیت دے کر دنیا کی تمام عورتوں میں برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور مجاہدکاقول ہے کہ ارشاد باری (وطھرک) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے تجھے ایمان کی دولت دے کر کفر کی نجاست سے پاکیزگی عطاکی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس تفسیر کی گنجائش موجود ہے جس طرح کہ کافرپر اس کے کفر کی وجہ سے نجاست کے اسم کا اطلاق جائز ہے۔ قول باری ہے (انما المشرکون نجس، بیشک مشرکین نجس ہیں) یہاں کفر کی نجاست مراد ہے۔ اسی طرح قول باری (وطھرک) میں ایمان کی طہارت اور پاکیزگی مراد لی جاسکتی ہے۔ حضور ﷺ سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (المومن لیس نجبس مومن نجس نہیں ہوتا) اس سے آپکی مراد کفر کی نجاست ہے۔ اور یہ ارشاد اس قول باری کی طرح ہے (انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا، اے اہل بیت نبی ! اللہ تعالیٰ تم سے آلودگی کو دور رکھنا اور تمھیں پوری طرح پاکیز گی عطاکرنا چاہتا ہے۔ ) یہاں ایمان اور طاعت کی پاکیز گی مراد ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (وطھرک) سے مراد حیض اور نفاس وغیرہ کی آلود گیوں سے پاکیزگی ہے۔ فرشتوں نے حضرت مریم کی کس طرح تطہیر کی جبکہ وہ نبی نہیں تھیں اس لیے کہ ارشادباری ہے۔ (وماارسلنامن قبلک الارجالانوحی الیھم، اور آپ سے پہلے ہم صرف مردوں کو رسول بناکربھیجتے رہے جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے) درج بالاسوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔ کسی کا قول یہ ہے کہ دراصل یہ حضرت زکریاعلیہ السلام کا معجزہ تھا۔ کچھ دوسروں کا یہ قول ہے کہ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کی بنیادرکھنے کے طوپرہوا۔ جس طرح کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آپ کی بعثت سے پہلے بدلی کا سایہ فگن ہونا اور اس قسم کے دوسرے واقعات پیش آتے رہے۔
Top