Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور جب کہا فرشتوں نے کہ اے مریم بیشک اللہ نے تجھے منتخب فرما لیا اور پاک بنا دیا اور سب جہانوں کی عورتوں کے مقابلہ میں تم کو چن لیا۔
(1) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن المسیب (رح) سے لفظ آیت ” ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ابوہریرہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے یہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا بہترین عورتیں اونٹوں پر سوار کرنے والیاں قریش کی عورتیں ہیں جو اپنے بچوں پر مہربان ہونے والیاں ہیں ان کی چھوٹی عمر میں اور شوہر کے ہاتھ میں جو مال ہے اس پر اچھی طرح نگاہ رکھنے والیاں ہیں ابوہریرہ ؓ سے فرمایا بنت عمران نے کبھی اونٹ پر سواری نہیں کی۔ (2) ابن ابی شیبہ، بخاری ومسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر اور ابن مردویہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عورتوں میں سے بہترین عورت مریم بنت عمران ہے اور عورتوں میں سے بہترین عورت خدیجہ ؓ بنت خلویلد ہے۔ (3) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جہان والوں کی عورتوں میں سے افضل عورتیں خدیجہ ؓ فاطمہ ؓ مریم ؓ اور آسیہ ؓ فرعون کی بیوی ہیں۔ (4) ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے جہان والی عورتوں پر چار عورتوں کو چن لیا آسیہ بنت مزاحم مریم بنت عمران خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ﷺ ۔ (5) احمد اور ترمذی نے (اس کو صحیح کہا) ابن المنذر ابن حبان اور حاکم نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کافی ہے تجھ کو تمام عالم کی عورتوں میں سے مریم بنت عمران خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ﷺ ، آسیہ فرعون کی بیوی، ابن ابی شیبہ نے اس کو حسن سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ (6) ابن ابی شیبہ، بخاری ومسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن جریر نے ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مردوں میں سے بہت کامل ہوئے اور عورتوں میں سے کوئی کامل نہیں ہوئیں مگر مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی اور حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید (کھانے کی) فضیلت سارے کھانوں پر۔ (7) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے حضرت فاطمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو جنت والی عورتوں کی سردار ہے سوائے مریم بتول کے (بتول وہ عورت جو دنیا کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھے) ۔ (8) ابن جریر نے عمار بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حضرت خدیجہ ؓ کی فضیلت میری امت کی عورتوں پر ایسی ہے جیسی حضرت مریم ؓ کی فضلیت جہان والی عورتوں پر۔ (9) ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جنت والی عورتوں کی سردار مریم بنت عمران پھر فاطمہ پھر خدیجہ پھر آسیہ فرعون کی بیوی ہے۔ چار عورتیں سردار ہیں (10) ابن عساکر نے مقاتل کے طریق سے ضحاک سے روایت کیا ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار عورتیں اپنے اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں مریم بنت عمران آسیہ بنت مزاحم خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ﷺ اور ان میں سے افضل علم کے لحاظ سے فاطمہ ؓ ہیں۔ (11) ابن ابی شیبہ نے عبد الرحمن بن ابی یعلی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطمہ ؓ مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد کے بعد جہاں بھر کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (12) ابن ابی شیبہ نے مکحول ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ بہترین عورتیں اونٹوں پر سواری کرنے والیاں قریش کی عورتیں ہیں جو اپنے بچوں پر حد درجہ پر مہربان ہوتی ہیں ان کی چھوٹی عمر میں اور شوہر کے ہاتھ میں جو مال ہے اس کی حد درجہ نگہبانی کرتی ہیں اور اگر اس بات کو جان لیا تاکہ مریم بنت عمران نے اونٹ پر سواری کی تھی تو میں ان پر کسی کو فضلیت نہ دیتا۔ (13) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان اللہ اصطفک وطھرک “ سے مراد ہے کہ تجھ کو اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ بنایا ایمان کے لحاظ سے۔ (14) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” وطھرک “ سے مراد ہے کہ حیض سے پاک بنایا (اور) لفظ آیت ” واصطفک علی نساء العلمین “ یعنی جس زمانہ میں وہ تھیں اس زمانہ کی عورتوں پر ہم نے تجھ کو چن لیا۔ (15) ابن جریر نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) گرجا گھر میں عبادت کرتی رہتی تھیں اور ان کے ساتھ گرجا گھر میں ایک غلام تھا جس کا نام یوسف تھا اس کے ماں باپ نے بھی اس کے بارے میں نذر مانی تھی اور وہ گرجا گھر میں عبادت میں مصروف رہتا تھا یہ دونوں اکھٹے گرجا گھر میں ہوتے تھے اور حضرت مریم (علیہا السلام) اور یوسف کا پانی جب ختم ہوجاتا تو اپنے برتنوں کو لے جاتے اور جنگل کی طرف چلے جاتے جہاں پانی ہوتا تھا دونوں اپنے برتن بھرتے اور پھر لوٹ آتے اور اسی دوران فرشتے مریم (علیہا السلام) کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا لفظ آیت ” یمریم ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی نساء العلمین “ جب زکریا (علیہ السلام) نے یہ سنا تو فرمایا بلاشبہ عمران کی بیٹی یعنی مریم (علیہا السلام) کے لیے بڑی شان ہے۔ (16) عبد بن حمید ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کی ہے کہ لفظ آیت ” یمریم اقنتی لربک “ سے مراد ہے یعنی قیام لمبا کر۔ (17) عبد بن حمید ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب ان سے کہا گیا لفظ آیت ” اقنتی لربک “ تو وہ کھڑی ہوگئیں یہاں تک کہ اس کے قدم سوج گئے۔ (18) ابن جریر نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) اتنا قیام کرتی تھیں کہ اس کے قدموں سے پیپ بہنے لگی۔ (19) ابن عساکر نے ابن سعیدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت مریم (علیہا السلام) اتنی دیر نماز پڑھتی تھی یہاں تک کہ اس کے قدموں پر ورم آگیا۔ (20) ابن جریر نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ سے روایت کیا لفظ آیت ” اقنتی لربک “ سے مراد ہے ” اخلصی “ یعنی اپنے رب کی عبادت کے لیے اخلاص کا اظہار کر۔ (21) قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” اقنتی لربک “ سے مراد ہے اپنے رب کی اطاعت کر۔ (22) ابن ابی داؤد نے مصاحف میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے ” واسجدی وارکعی مع الرکعین “۔ (23) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما کنت لدیہم “ سے مراد محمد ﷺ کی ذات ہے۔ (24) ابن جریر ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وما کنت لدیہم اذ یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم “ کے بارے میں روایت کیا ہے جب مریم (علیہا السلام) کو مسجد میں بٹھا دیا گیا تو علما نے جو وحی کو لکھتے تھے اپنی قلموں کے ساتھ آپس میں قرعہ ڈالا کہ کون ان کی کفالت کرے تو اس بات کو اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کے لئے (یوں) بیان فرمایا لفظ آیت ” وما کنت لدیہم اذ یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم وما کنت لدیہم اذ یختصمون “ یعنی اس وقت آپ وہاں موجود نہ تھے۔ (25) ابن جریر ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے لفظ آیت ” اذ یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم “ کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے اپنی قلموں کو پانی میں ڈالا تو (سب کی قلمیں) پانی کے ساتھ بہہ گئیں لیکن زکریا (علیہ السلام) کی قلم اوپر کو اٹھ آئی تو اسی لیے زکریا (علیہ السلام) نے ان کی کفالت فرمائی۔ (26) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی قلموں کو ڈالا (مگر) کہا گیا کہ انہوں اپنی لاٹھیوں کو بہتے ہوئے پانی میں ڈال دیا تو زکریا (علیہ السلام) کی لاٹھی پانی کے بہاؤ کے سامنے ٹھہر گئی تو اس طرح آپ قرعہ اندازی میں غالب ہوگئے۔ (27) ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” اقلامہم “ سے مراد ہے کہ وہ قلمیں جن سے وہ تورات شریف لکھتے تھے۔ (28) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اقلامہم “ سے مراد ہے ان کے پیالے۔ (29) اسحاق بن بشیر وابن عساکر کرنے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) عطا فرمایا اور وہ تین سال کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے مریم (علیہا السلام) کو عیسیٰ کی خوشخبری دی اس درمیان کہ وہ محراب میں تھیں جب فرشتوں نے کہا اور وہ اکیلے جبریل (علیہ السلام) تھے لفظ آیت ” یمریم ان اللہ اصطفک وطھرک “ یعنی برائی سے (تجھ کو پاک کیا) ” واصطفک “ یعنی تجھ کو چن لیا ” علی نساء العلمین “ اس امت کی عورتوں پر لفظ آیت ” یمریم اقنتی لربک “ اپنے رب کی نماز پڑھ اور اپنے رب کے لیے نماز میں طویل قیام کر تو وہ نماز میں (اتنی دیر) کھڑی رہتی تھیں یہاں تک کہ ان کے قدموں پر ورم آگیا لفظ آیت ” واسجدی وارکعی “ یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ جو بیت المقدس میں نماز پڑھتے تھے قراء حضرات ان کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا لفظ آیت ” ذلک من انباء الغیب نوحیہ الیک “ یعنی غیب کی خبریں زکریا (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) اور مریم (علیہا السلام) کے قصہ میں لفظ آیت ” وما کنت لدیہم “ یعنی آپ ان کے پاس ہیں ” اذ یلقون اقلامہم “ مریم کی کفالت کے بارے میں پھر فرمایا ! اے محمد ! ہم آپ کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کی خبر دیتے ہیں لفظ آیت ” اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللہ یبشرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم وجیھا فی الدنیا “ یعنی مرتبہ والا ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا میں اور آخرت میں مقربین میں سے ہوگا ” ویکلم الناس فی المھد “ یعنی گہوارے میں (بات کرے گا) ” وکھلا “ اور بات کرے گا ادھیڑ عمر میں بھی جب لوگ اکٹھے ہوں گے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے ” ومن الصلحین “ یہاں صالحین سے مراد مرسلین یعنی آپ (اللہ کی طرف) سے بھیجے ہوئے میں سے ہیں۔ حضرت مریم باپردہ خاتون تھیں (30) ابن ابی حاتم نے اسحاق بن بشیر وابن عساکر نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب مریم (علیہا السلام) کو حمل ٹھہر گیا اور جبرئیل (علیہ السلام) نے اس کی خوشخبری سنا دی تو انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے معزز بن جانے کا یقین ہوگیا اور آپ مطمئن ہوگئیں دل ان کا خوش ہوا اور انہوں نے کمر کس لی ان کے ساتھ آزاد ہونے والوں میں ان کے خالہ زاد بھائی بھی رہتا تھا جس کا نام یوسف تھا وہ پردہ کے پیچھے مریم (علیہا السلام) کی خدمت کیا کرتا تھا ان سے بات کرتا تھا اور پردہ کے پیچھے کوئی چیز لینی ہوتی لے لیتا یہ پہلا آدمی تھا جو آپ کے حمل پر مطلع ہوا تو اس وجہ سے پریشان ہوا اور اس معاملہ نے اسے غمگین کردیا اور وہ اس الزام سے ڈرنے لگا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہیں جانتا تھا کہ حمل مریم (علیہا السلام) کو کیسے ہوا اس حمل نے یوسف کو اپنی ذات اور اپنے عمل کے بارے میں غوروفکر کرنے سے غافل کردیا کیونکہ وہ آدمی عبادت کرنے والا (اور) حکیم تھا اور مریم (علیہا السلام) پردہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ ہوتی تھی اور یو سف نے اس کے ساتھ پرورش پائی۔ جب مریم (علیہا السلام) اور یوسف کا پانی ختم ہوجاتا تو دونوں اپنے برتنوں کو اٹھا کر جنگل کی طرف چلے جاتے جہاں پانی تھا اپنے برتنوں کو بھرتے اور پھر گرجا گھر کی طرف لوٹ آتے اور فرشتے مریم (علیہا السلام) کو یہ بشارت دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے چن لیا ہے اور ہر آلائش سے پاک کیا ہے اس ہے اسی کو فرمائی لفظ آیت ” یمریم ان اللہ اصطفک وطھرک “ یوسف یہ سنتا تو خوش ہوتا جب یوسف پر مریم کا حمل ظاہر ہوا تو اس کے دل میں کوئی بات آئی یہاں تک کہ قریب تھا کہ وہ فتنہ میں پڑجائے جب اس نے ارادہ کیا کہ اس کو تہمت لگائے گا اپنے میں تو اس نے یاد کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کو پاک بنایا ہے اور اس کو چن لیا یہ یاد آیا کہ اس کی ماں سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچائے گا اور جو اس نے فرشتوں سے سنا تھا (یعنی) لفظ آیت ” یمریم ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک “ اور اس نے ان فضائل کو یاد کیا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کو فضیلت دی تھی اور کہا کہ زکریا (علیہ السلام) نے اس کی عبادت گاہ میں حفاظت کی تھی کہ کوئی مرد اس پر داخل نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہی شیطان کو اس پر اختیار ہے تو یہ حمل کہاں سے آیا ؟ جب یوسف نے اس کے رنگ کی تبدیلی کو اور حمل ظاہر ہونے کو دیکھا تو یہ معاملہ اس پر دشوار گذرا تو یہ معاملہ اس کو پیش کرتے ہوئے کہا اے مریم ! کیا بغیر بیج کے کھیتی ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! پوچھا کیسے ہوگی ؟ کہنے لگیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بغیر کھیتی کے بیج کو پیدا فرمایا اور پہلی کھیتی بغیر بیج کے پیدا ہوئی اور شاید تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ کسی نے بیج کے ذریعہ کیوں غلبہ نہ کہا ؟ کہ وہ غلبہ پالیتا تاکہ تخلیق کرنے اور فصل اگانے پر قادر نہ ہوتا یوسف نے کہا میں نے جو کچھ کہا میں اس پر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں تو نے یہ سچ کہا اور تو نے حکمت کے ساتھ گفتگو کی ہے اور جیسا کہ وہ قادر ہے کہ وہ پہلی کھیتی کو پیدا کرے اور اس کو اگائے بغیر بیج کے اور وہ قادر ہے اس بات پر کہ بیج کے بغیر فصل اگائے اب مجھ کو بتائیے کیا درخت بغیر پانی کے اگتا ہے ؟ کہنے لگیں کیا تو جانتا ہے کہ بیج کو کھیتی کو پانی کو، بارش کو اور درخت کو ایک ہی ذات پیدا کرنے والی ہے شاید کہ تو کہتا ہے اگر پانی اور بارش نہ ہوتی تو وہ ذات نہ قادرہوتی درخت کے اگانے پر یوسف نے کہا میں اپنے اس کہنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں تو نے سچ کہا اب مجھے بتائیے کیا کوئی لڑکا بغیر کسی مرد کے پیدا ہوسکتا ہے ؟ اس نے کہا ہاں ! پوچھا وہ کس طرح ؟ کہنے لگیں کیا تو نہیں جانتا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اور اس کی بیوی حوا کو بغیر حمل کے اور بغیر مرد اور عورت کے پیدا کیا اس نے کہا ہاں ! تو اب مجھ کو اپنی خبر کے بارے میں بتائیے کہنے لگیں اللہ تعالیٰ نے مجھ کو خوشخبری دی لفظ آیت ” بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسیٰ ابن مریم “ سے لے کر ” ومن الصلحین “ تک اب یوسف نے یہ جان لیا کہ یہ بھی ایک اللہ کا امر ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے مریم کے بارے میں ارادہ کیا جس کی وجہ سے یوسف خاموش ہوگیا۔ اسی حال میں برابر رہیں یہاں تک کہ مریم (علیہا السلام) کو درد زہ ہوا آپ کو آواز دی گئی اپنی عباد کی جگہ سے باہر آجاؤ تو وہ اپنے حجرے سے باہر آگئیں۔ (31) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” اذ قالت الملئکۃ یمریم ان اللہ یبشرک “ سے مراد ہے کہ فرشتوں نے اس بارے میں مریم (علیہا السلام) کو براہ راست خبر دی تھی۔ (32) ابن جریر ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یبشرک بکلمۃ منہ “ سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلمہ ہیں۔ (33) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انبیاء میں سے کسی نبی کے دو نام نہیں سوائے عیسیٰ اور محمد (علیہا السلام) کے۔ (34) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ مسیح سے مراد صدیق ہے۔ (35) ابن جریر نے سعید (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان کو مسیح اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ کو برکت کے ساتھ چھوا گیا تھا۔ (36) ابن ابی حاتم نے یحییٰ بن عبد الرحمن ثقفی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) زمین میں بہت سفر کرنے والے تھے اس لیے ان کو مسیح کہا گیا وہ شام کو ایک ایک زمین میں ہوتے تھے اور صبح کو دوسری زمین میں اور انہوں نے شادی نہیں کی یہاں تک کہ اٹھا لئے گئے۔ (37) عبد بن حمیدو ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” ومن المقربین “ سے مراد ہے کہ وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں مقربین میں سے ہوں گے۔
Top