Ahsan-ut-Tafaseer - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
(42 ۔ 44) ۔ صحیح حدیثوں سے قرعہ کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے 1۔ بنی اسرائیل میں قرعہ ڈالنے کا طریقہ یہ تھا کہ کسی کام میں جب یہ بحث آن پڑتی کہ اس کام کو کون کرے تو وہ لوگ نہر اردن پر جاکر تورات کے لکھنے کے اپنے اپنے قلم بہتے پانی میں ڈالتے تھے۔ جس کا قلم بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہے یا بہنے سے رک کر ٹھہر جائے تو وہی شخص اس کام کو کرتا تھا جب حضرت مریم کی ماں اپنی نذر کے موافق حضرت مریم کو بیت المقدس میں لائیں اور بیت المقدس کے مجاوروں سے اپنا خواب بیان کیا تو سب چاہنے لگے کہ مریم کو ہم پالیں آخر رواج کے موافق قرعہ پر فیصلہ قرار پایا اور حضرت زکریا کا قلم پانی کے بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہا۔ اس لئے حضرت مریم کے پالنے کے وہی حق دار ٹھہرے حضرت مریم کو یہ خوش خبری جو دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ” پسند “ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ مرتبہ کسی عورت کو نہیں دیا اور اپنے زمانہ کی عورتوں میں وہ سب سے بلند مرتبہ کی تھیں ان کی ستھرائی کا یہ مطلب ہے کہ ان کو اور عورتوں کی طرح ہمیشہ کے حیض کی عادت نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ کے حمل سے پہلے صرف دو دفعہ ان کو عمر بھر میں حیض آیا تھا۔ عبادت کا حکم سن کر حضرت مریم اس قدر عبادت کیا کرتی تھیں کہ ان کے پاؤں سوج جاتے تھے قنوت کے معنی یہاں خالص دل سے عبادت کرنے کے ہیں اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی وحی آسمان بھی اس طرح ثابت فرمائی ہے کہ یہ قصہ اور اس طرح کے اور قصے دنیا میں سوا اہل کتاب کے کسی دوسرے کو معلوم نہیں پھر اے نبی اللہ کے بغیر مدد اہل کتاب کے تم جو قصے ان کو سناتے ہو تو ان کے دل جانتے ہیں کہ یہ قصے تم کو آسمانی وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ تم بلا شک اللہ کے وہ نبی خاتم النبیین ہو جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے اور یہ فقط عناد سے تم کو اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہیں مانتے۔
Top