Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَتِ
: کہا
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتہ (جمع)
يٰمَرْيَمُ
: اے مریم
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
اصْطَفٰىكِ
: چن لیا تجھ کو
وَطَهَّرَكِ
: اور پاک کیا تجھ کو
وَاصْطَفٰىكِ
: اور برگزیدہ کیا تجھ کو
عَلٰي
: پر
نِسَآءِ
: عورتیں
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
اور جب فرشتوں نے (مریم سے) کہا کہ مریم خدا نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور پاک بنایا ہے اور جہان کی عورتوں میں منتخب کیا ہے
تتمہ قصہ حضرت مریم علیہا السلام۔ قال اللہ تعالی، واذ قالت الملائکۃ یا مریم۔۔۔ الی۔۔۔ صراط مستقیم۔ یہاں تک حق جل شانہ نے آل عمران اور آل ابراہیم کے اصطفاء اور ان پر اپنی توجہات و عنایات کے واقعات ذکر فرمائے اب آگے اور قصہ اسی سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں کہ جو درحقیقت حضرت مریم کے قصہ کا بقیہ تتمہ ہے اس لیے کہ سلسلہ کلام کا آغاز حضرت مریم کے قصہ سے ہوا تھا درمیان میں مناسبت کی وجہ سے ضمنا حضرت زکریا کا قصہ ذکر فرمایا اب آگے پھر حضرت مریم کے قصہ کا بقیہ ذکر فرماتے ہیں اور وہ دوسرا قصہ یہ ہے کہ جب فرشتوں کے ایک گروہ نے بالمشافہ حضرت مریم سے کہا کہ اے مریم تحقیق اللہ نے تجھ کو برگزیدہ کیا کہ اپن کرامات عنایات کامورد بنایا اور ابتداء میں باوجود لڑکی ہونے کے تجھ کو اپنی نیاز میں قبول فرمایا اور اب اخیر میں تجھ کو فرشتوں کے کلام اور کطاب سے عزت بخشی اور تجھ کو ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک اور منزہ کیا اور اپنے پاک گھر یعنی مسجد اقصی کی خدمت کے لائق بنایا ظاہری پاکی یہ عطا کی کہ حیض ونفاس سے پاک کیا اور باطنی طہارت ونزاہت یہ عطا کی مس شیطانی سے تجھ کو محفوظ رکھا اور تمام جہانوں کی عورتوں کے مقابلہ میں تجھ کو بعض خصوصی فضائل اور امتیازات عطا کیے بلامس بشر کے حضرت مسیح جیسا مبارک اور اولوالعزم پیغمبر فرزند تم کو عطا کیا جو تمہارے سوا اور کسی عورت کو نہیں عطا ہوا لہذا اے مریم ان نعمتوں کے شکریہ میں اپنے پروردگار کی بندگی میں لگی رہو اور اپنی نماز میں قیام کو طویل کرو اور سجدہ کرتی رہو تاکہ تم کو اللہ کا قرب حاصل ہو، واسجدوقترب۔ اور رکوع کیا کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرو اس لیے کہ رکوع اگرچہ ربتۃ میں سجدہ سے کم ہے لیکن اراکعین کی معیت کی وجہ سے جب راکعین کے انوار وبرکات بھی اس کے ساتھ مل جائیں گے تو یہ رکوع قریب قریب سجود ہی کے قرب خداوندی میں معین اور مددگار ہوگا اور حضرت مریم کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم یا تو اس بناء پر تھا کہ اس زمانہ کی شریعت میں عورتوں کو نماز جماعت میں شریک ہونے کی اجازت تھی یا حضرت مریم کی خصوصیت تھی۔ نکتہ) ۔ جماعت میں شریک ہونے کے لیے غالبا رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ جس نے امام کیسا تھ رکوع پالیا اس نے رکعت کو پالیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور اسی پر فقہاء امت کا اجماع ہے اور بعض علماء نے وارکعوامع الراکعین کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ اے مریم جس طرح رکوع کرنے والے رکوع کرتے ہیں اسی طرح تم بھی رکوع کیا کرو یعنی رکوع میں مسلمانوں کی موافقت کرو اور جس طرح وہ نماز پڑھتے ہیں اسی طرح تم بھی پڑھا کرو۔ اب اللہ جل شانہ ان مضامین کے ضمن میں نبی ﷺ کی نبوت کی ایک دلیل ذکر فرماتے ہیں جو ان واقعات کے بیان سے مترشح ہوتی ہے یہ بائیں اور یہ قصے حضرت حنہ اور مریم اور حضرت عیسیٰ اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ کے ہم نے ذکر کیے منجملہ غیبی خبروں کے ہیں جن کی وحی ہم آپ تک بھیج رہے ہیں یہ دلیل ہے آپ کے نبی برحق ہونے کی اس لیے کہ کسی شے کے جاننے کی صرف تین صورتیں ہیں عقل، یا خبر کا سننا، یا مشاہدہ کرنا قصص اور واقعات میں عقل کو دخل نہ ہونا بالکل ظاہر ہے گزشتہ واقعات کو عقل سے معلوم کرلینا باجماع عقلا محال ہے اور حضور ﷺ نے ان واقعات کو کسی سے سنا بھی نہیں اور اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ توریت اور انجیل کے فلاں عالم سے حضور ﷺ نے سنا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس عالم کو سامنے لائے یا خود اس سے پوچھ آئے اور حضور ﷺ چونکہ امی تھے اس لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ آپنی کسی کتاب میں دیکھ کر یہ واقعات بیان فرمائے وہ کون سی کتاب اور کون سا دفتر ہے جس میں یہ تمام واقعات تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہوں اور وہ کتاب اور دفتر کہاں ہے اور کس کتب خانہ میں ہے جسے حضور پرنور دیکھ کر یہ واقعات بیان کرتے ہیں معترضین خود جاکر اس کتاب اور دفتر کو دیکھ لیں اور دیکھ کر وہ بھی اسی طرح ان واقعات کو بیان کردیں اب صرف تیسری صورت مشاہدہ کی رہ گئی کہ حضور ﷺ نے ان واقعات کو بچشم خود دیکھا ہو تو کسی ذی عقل اور ذی ہوش کو اس کا وسوسہ بھی نہیں آسکتا کہ حضور صدہاسال قبل کے واقعات کے وقت موجود تھے پس جب کہ آپ نے ان واقعات کانہ بچشم خود مشاہدہ کیا اور نہ کسی خارجی طریقہ و ذریعہ سے آپ کو ان کا علم حاصل ہوا پس متعین ہوگیا کہ حضور ﷺ کو ان واقعات کا علم بذریعہ وحی کے معلوم ہوا کہ آپ اللہ کے برحق نبی ہیں جن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی اور بذریعہ وحی کے آپ کو انبیاء الغیب سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں کہ اور آپ ان کے نزدیک نہ تھے جب وہ قرعہ کے لیے اپنے اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ ان میں سے کون شخص مریم کی پرورش کا کفیل اور خبرگیر ہوجائے اور آپ ان کے پاس نہ تھے جب وہ مریم کی پرورش کے بارے میں جھگڑ رہے تھے حق جل شانہ نے جب حضرت مریم کو نذر میں قبول فرمایا تو مسجد کے مجاورین میں جھگڑا ہوا کہ مریم کو کس کی پرورش میں رکھاجائے حضرت مریم چونکہ سردار کی لڑکی تھیں اس لیے ہرا یک یہ چاہتا تھا کہ میری پرورش میں رہے حضرت زکریا نے فرمایا میں زیادہ مستحق ہوں میری بی بی اس لڑکی کی خالہ ہے وہ نہایت محبت سے اس کی پرورش کرے گی فیصلہ اس پر ہوا کہ ہر ایک اپنا قلم جس سے توریت لکھتے تھے بہتے ہوئے پانی میں ڈالے جس کا قلم پانی کی حرکت کے خلاف الٹا بہے وہ حضرت مریم کا حق دار سمجھاجائے اس میں قرعہ حضرت زکریا کے نام کا نکلا اور حق دار کو حق پہنچ گیا پس جب آپ ان واقعات اور حالات کے وقت موجود نہ تھے تو معلوم ہوا کہ ان امور کا علم آپ کے بذریعہ وحی کے ہوا اور جس پر اللہ کی وحی کا نازل ہو وہ خدا کے نبی ہے۔ آغاز قصہ عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کو یاد کرو جب کہ فرشتوں نے حضرت مریم سے یہ بھی کہا اے مریم تحقیق اللہ تم کو بشارت دیتا ہے کہ اپنے ایک کلمہ کی جو من جانب اللہ ہوگا یعنی ایک بچہ پیدا ہونے کی خوش خبری دیتا ہے جو بلاباپ کے تم سے پیدا ہوگا اور بلاباپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ کلمۃ اللہ کہلائے گا اور اللہ کی طرف اس سنبت اور اضافت سے اس کو ایک خاص شرف اور عزت حاصل ہوگی کہ جس کا نام اور لقب مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا مسیح اصل میں مشیحا تھا عبرانی زبان میں اس کے معنی مبارک کے ہیں معرب ہو کر مسیح ہوگیا جیسے موسیٰ موشاکامعرب ہے باقی دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے وہ بالاجماع عربی لفظ ہ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مسیح کے معنی پونچھ دینے اور زائل کردینے کے ہیں چونکہ دجال سے تمام عمدہ خصلتیں پونچھ دی گئی ہیں اس لیے اس کو مسیح دجال کہتے ہیں اور عیسیٰ اصل میں ایشوع تھا یہ بھی عبرانی زبان کا لفظ ہے عبرانی میں ایشوع کے معنی سردار کے ہیں عیسیٰ ایشوع کا معرب ہے۔ نکتہ) ۔ حضرت عیسیٰ کو ابن مریم اس لیے فرمایا حالانکہ خطاب خود حضرت مریم کو ہے تاکہ اس پر تنبیہ ہوجائے کہ بغیر باپ کے پیدا ہوں گے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ اولاد باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے ماں کی طرف منسوب نہیں ہوتی اب آگے اس مولود مسعود کے کچھ اوصاف بیان کرتے ہیں کہ وہ مولود مسعود دنیا اور آخرت میں باعزت اور آبرو والا ہوگا اہل دنیا اور اہل آخرت دونوں ہی کی نظر میں معظم اور محترم اور مرتبہ والے ہوں گے اس صفت کے ذکر سے حضرت مریم کو تسلی مقصود ہے اس لیے کہ جب حضرت مریم کو بغیر باپ کے فرزند پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تو ممکن ہے کہ حضرت مریم بمقتضائے بشریت تشویش میں پڑجائیں کہ دنیا میں کون اس کو باور کرے گا کہ لڑکا بغیر باپ کے پیدا ہوا ناچار لوگ مجھ پر تو تہمت رکھیں گے اور بچہ کو ہمیشہ برے نام سے مشہور کردیں گے میں کسی طرح اپنی برات ظاہر کروں گی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم گھبراؤ نہیں ہم نے برات اور نزاہت کا انتظام کردیا ہے اللہ تعالیٰ خصوصی طور پر تم کو تمام برے الزام اور تہمتوں سے بری کرے گا چناچہ پہلی مرتبہ وجاہت کا ظہور اس طرح سے ہوا کہ پیدا ہونے کے بعد شیرخوارگی کی حالت میں کلام کیا یہ کہا کہ، انی عبداللہ اتانی الکتاب۔۔۔ الی۔۔ مبارکا۔ الخ۔ اس کلام کو سنتے ہی دلوں سے تمام بدگمانیاں دور ہوگئیں اور سمجھ گئے کہ یہ مولود مسعود نہایت مبارک ہے محض خدا کے حکم سے بلاباپ کے پیدا ہوا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو بتلادیا کہ جب کوئی اسبارہ میں تم سے کچھ سوال کرے تو تم اس بچہ کی طرف اشارہ کرنا وہ خود اپنی طہارت ونزاہت کو بیان کردے گا جس کی تفصیل سورة مریم میں آئے گی دوسری بار وجاہت اس وقت ظاہر ہوئی جب دشمنوں نے پکڑنے اور قتل کا ارادہ کیا تو اللہ نے زندہ اور صحیح سالم آسمان پر اٹھالیا اور دشمن دیکھتے ہی رہ گئے باقی دنیاوی وجاہت کی پوری پوری تکمیل، نزول من السماء کے بعد ہوگی جیسا کہ تمام اہل اسلام کا اجماعی عقیدہ ہے اور وہ مولود مسعود فقط باعزت اور باآبروہی نہ ہوگا بلکہ اللہ جل شانہ کے خاص الخاص مقربین میں سے ہوگا یعنی بارگاہ ایزدی کے ان مقربین میں سے ہوگا جو قرب ذاتی اور صفاتی سے متصف ہوں گے اور تجلیات ربانیہ کے مورد اور مظہر ہوں گے اور ان کے مقرب ہونے پر وہ ارھاصات اور خوارق عادت دلالت کریں گے جو ان سے قبل ازنبوت ظہور میں آئیں گے مثلا وہ بچہ لوگوں سے ایساحکیمانہ کلام کرے گا جیسا کہ انبیاء کرام کا کلام ہوا ہے حالانکہ وہ بچہ اسوقت ماں کی گود میں ہوگا اور اس کی یہ حالت مستمر اور دائم رہے گی یہاں تک کہ وہ معمر اور بڑی عمر کا ہوگا اور اس حالت میں بھی ایسا ہی کلام کرے گا عہد طفولیت اور عہد کہولیت کے کلاموں میں کوئی تفاوت نہ ہوگا ان احوال کے مشاہد کے بعد کسی کو وہم بھی نہ ہوگا کہ گہوارہ اور ماں کی گود میں جو کلام سززد ہوا تھا وہ کسی شیطان یا جن کا اثر تھا اور وہاں شیطان کا اثر یا گذر کہاں ہوسکتا ہے وہ نہایت شائستہ اور اعلی درجہ کے نیک بختوں میں سے ہوں گے اور شیطان کا اثر فاسق اور فاجر اور بدکار لوگوں پر ہوتا ہے اور کسی نقصان اور دینی خلل اور فساد کا گذر عبادصالحین پر نہیں ہوسکتا۔ حضرت مریم کا تعجب اور اس کا جواب۔ یہ بشارت سن کر حضرت مریم سمجھ گئیں کہ وہ لڑکا بےباپ کے پیدا ہوگا اور اسی وجہ سے وہ کلمۃ اللہ اور ابن مریم کہلائے گا یعنی میری طرف منسوب ہوگا اس لیے حضرت مریم نے اس بشارت کو سن کر بطور تعجب یہ کہا کہ اے میرے رب میرے لڑکا کیسے ہوگا حالانکہ مجھے کسی بشر نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور بچہ عادۃ بغیر مرد کے تعلق کے پیدا نہیں ہوتا پس معلوم نہیں کہ میرے جو بچہ ہوگا وہ کس طرح ہوگا آیا محض قدرت خداوندی سے بغیر باپ کے بچہ پیدا ہوگا یا مجھ کو نکاح کرنے کا حکم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے واسطہ سے جواب دیا کہ ویسے ہی بلا باپ کے پیدا ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں یعنی وہ کسی چیز کے پیدا کرنے میں کسی سبب کا محتاج نہیں حق جل شانہ اس پر قادر ہیں جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں وہ اشیاء کو بتدریج قانون عادت کے موافق مادہ اور سبب سے پیدا کرے اسی طرح وہ اس پر بھی قادر ہیں کہ دفعۃ بغیر مادہ اور بغیراسباب کے کسی چیز کو پیدا کردے آخراسی نے تو اپنی قدرت کاملہ سے اسباب کو بلاسبب کے اور مادہ کو بغیر مادہ کے پیدا کیا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ وہ جب کسی چیز کو انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو کہتا ہے کہ تو ہوجاپس وہ چیز فورا ہوجاتی ہے لہذا تم اس بچہ کے بدون مس بشر کے پیدا ہونے پر تعجب نہ کرو وہ لڑکا اسی طرح ہوگا خدا کی غیر محدود قدرت کسی سبب اور مادہ کی محتاج اور پابند نہیں۔ خوارق عادات کے متعلق فلاسفہ اور ملاحدہ کے شبہات کے جوابات۔ جو لوگ پابند اسباب ہیں اور اپنی محدود معلومات اور مخصوص مزعومات کے موافق دنیا کی ہر چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ اس قسم کی آیات قدرت کا اکثر وبیشتر انکار کربیٹھتے ہیں انہی آیات قدرت میں سے سے حضرت عیسیٰ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا بھی ہے یہ لوگ اس کے بھی منکر ہیں حالانکہ ان کے پاس، کوئی ایسی عقلی دلیل نہیں جس سے وہ اس کو محال ثابت کرسکیں سوائے اس کے یہ کہیں کہ بغیر باپ کے پیدا ہونا عادت کے خلاف ہے سو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ خلاف عادت ہونے سے کسی چیز کا محال ہونا ثابت نہیں ہوسکتا۔ روزمرہ کائنات میں ایسے عجائب وغرائب کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے جو پہلے سے ہرگز عادی اور معروف نہ تھے بلکہ وہم و گمان میں بھی نہ تھے جن عجائب وغرائب کے اسباب وعلل معلوم ہوجاتے ہیں ان کو آج کل کی اصطلاح میں اکتشاف اور اختراع کہتے ہیں کہ اور جن کے اسباب وعلل تک عقل کی رسائی نہیں ہوسکی ان کو فلتات طبعیہ سے تعبیر کرکے خاموش ہوجاتے ہیں یعنی جو چیزیں طبعی اور فطری طور پر ناگہانی اور اچانک طریقہ سے بلا کسی سبب اور علت کے ظہور میں آگئی ہیں ان کو فلتات طبعیہ کہتے ہیں جس کالفظی ترجمہ ہے عالم کائنات کے اتفاقی کرشمے جب اس قسم کی چیزیں ظہور میں آجاتی ہیں تو ان کے غیر عادی اور خارق عادت وجود سے تو انکار ہو نہیں سکتا تو ان کو فلتات طبعیہ کے نام سے موسوم کرکے خاموش بیٹھ جاتے ہیں کہ عقل اور تجربہ نے ان کے اسباب وعلل بتلانے سے جواب دے دیا ہے اب ہم ان منکرین معجزات سے انہیں فلتات طبعیہ کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ جب ان فلتات طبعیہ کے ظاہری اور معلوم اسباب تو ہوتے نہیں تو دوحال سے خالی نہیں یا یوں کہو کہ ظاہری اسباب اگرچہ نہیں مگر ان کا ظہور اسباب خفیہ کے بناء پر ہوا ہے جو ہمیں معلوم نہیں ہوسکے یا یوں کہو کہ ان فلتات طبعیہ کے لیے اسباب ظاہرہ اور اسباب معلومہ کی طرح اسباب خفیہ بھی نہیں مطلقا بلاکسی ظاہر اور خفی سبب کے ظہور پذیر ہوئے ہیں اگر منکرین معجزات شق اول کو اختیار کرتے ہیں تو ہم یہ کہیں گے کہ جس طرح فلتات طبعیہ بلاکسی ظاہری اور معلوم سبب کے ظہور میں آسکتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا اگرچہ ظاہرا کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا لیکن ممکن ہے کہ ان کا کوئی خفی سبب ہو جواب تک ہماری تحقیق میں نہ آیا ہو اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بےباپ کے پیدا ہوجائیں اور اس طرح کی ولادت کا کوئی خفی سبب ہوجوہماری تحقیق میں نہ آیا ہو پس کیا وجہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کو تو آپ محال اور ناممکن بتائیں اور فلتات طبعیہ کو ممکن بلکہ ان کے واقع ہونے کے قائل ہوں۔ اور اگر شق ثانی کو اختیار کریں یعنی یہ کہیں کہ فلتات طبعیہ مطلقا بلاکسی سبب کے ظہور میں آئے ہیں جس طرح ظاہر میں ان کے وجود کا کوئی سبب نہیں اسی طرح باطن میں بھی کوئی خفی سبب ان کے وجود کا نہیں تو اس صورت میں تو ان گرفتار ان عادت کو اور بھی اعتراف کرلینا چاہیے کہ اسباب عادیہ لازم اور مطرد نہیں اور ان اسباب عادیہ کے بغیر بھی کائنات ظہور پذیر ہوسکتی ہیں لہذا اس اقرار واعتراف کے بعد آیات قدرت اور خوارق عادت کا محض اس بناء پر انکار کرنا کہ یہ اسباب عادیہ کے خلاف ہیں انتہائی نادانی اور کمال ابلہی سمجھاجائے گا۔ اگلے لوگوں نے اگر اس قسم کی چیزوں کا انکار کیا تو ان کو کچھ معذور سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ چیزیں اس وقت غیر مالوف اور غیر مانوس تھیں مگر اس زمانہ والوں کے لیے کیا عذر ہے جبکہ وہ سائنس کے حیرت انگیز تجربوں کا مشاہدہ کررہے ہیں، آج کل تمام مغربی حکماء نے بالاتفاق تولد ذاتی کے امکان کو تسلیم کرلیا ہے کہ حیوان کا بدون حیوان کے محض جمادات سے پیدا ہونا بھی ممکن ہے اور دن رات اس کے تجربے ہورہے ہیں۔ پس جب کہ حیوان کا بدون حیوان کے پیدا ہونا ممکن ہے تو پھر کسی حیوان کا ایک حیوان سے پیدا ہونا ممکن کیوں نہیں یہ تو بدرجہ اولی جائز ہونا چاہیے کہ اس لیے کہ یہ اقرب الی الحصول ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی نئی بات دریافت ہوتی رہتی ہے جواب تک سربستہ راز تھی اسی طرح ممکن ہے کہ خوارق عادات بھی ایک سربستہ راز ہوں جو آئندہ چل کر کچھ منکشف ہوجائیں محض اپنے عدم علم کی بناء پر کسی چیز کا انکار کردینا یا اس کو محال بتانا سراسر بےعقلی ہے انسانوں کا علم اور تجربہ خواہ کتنا ہی وسیع ہوجائے بہرحال محدود اور متناہی ہے اس محدود اور متناہی علم اور تجربہ کی بناء پر خدائے قدوس کی غیر محدود کائنات پر حکم لگانا کھلی ہوئی سفاہت اور غباوت ہے اور جب انسان کا علم ہی حجت نہ ہو تو اس کی لاعلمی اور بیخبر ی کہاں سے حجت ہوجائے گی۔ ملاحدہ اور زنادقہ یہ چاہتے ہیں کہ جو چیز کتاب وسنت کے نصوص اور انبیاء کرام کے اجماع سے ثابت ہے اور جس کو تمام امتیں بطریق تواتر نقل کرتی آئی ہیں اس کو محض اپنی لاعلمی کی بناء پر رد کردیں آئے دن ہم ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں جو ہمارے معلوم شدہ قوانین کے خلاف ہوتی ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض حیوانات ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ جن کے اعضاء عادت اور ہماری مقررہ تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض حیوانات اپنی جنس کے علاوہ غیر جنس سے پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ ان کے مشاہدہ سے انکار نہیں ہوسکتا اس لیے حکماء اور فلاسفہ اس قسم کے امور کو فلتات طبعیہ اور عالم کائنات کے اتفاقی کرشمے کہہ کر ٹال دیتے ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعات کے وقوع کا قانون ہماری عقل اور ادارک سے بالا اور برتر ہے ہمیں صرف چندروزمرہ پیش آنے والے امور کے متعلق کچھ تھوڑا بہت کوئی قاعدہ اور قانون معلوم ہے باقی اس قسم کے شاذونادر واقعات کے وقوع کے متعلق خداوندذوالجلال کا کیا قانون ہے وہ کسی کو معلوم نہیں پس حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کو بھی اسی پر قیاس کرو کہ یہ بھی منجملہ انہی شاذونادر واقعات میں سے ہے جن کا قانون سوائے خدا کے کسی حکیم اور فلسفی کو معلوم نہیں جدید اکتشافات کے ذریعہ ہم صرف چند ظاہری باتوں کو جان لیتے ہیں اور یقین کرلیتے ہیں اور خوش ہوجاتے ہیں مگر اس کی لم اور حقیقت تک رسائی نہیں ہوتی اور نہ ہوسکتی ہے اور یہی حق ہے۔ ہم انسان میں حس اور نطق کا مشاہدہ کرتے ہیں مگر اس کے تعلق اور رابطہ کو نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ دانہ سے گیہوں پیدا ہوتا ہے لیکن کس طرح اگتا ہے اور اس کی ڈنڈی سیدھی ہونے اور پتوں کے جھکنے میں کیا تناسب اور ربط ہے اور اس کی کیا حقیقت اور کیا علت ہے اس کی کچھ خبر نہیں غرض یہ کہ نادانی کا تو یہ عالم کہ کائنات کے ایک ذرہ کے حقیقت اور علت سمجھنے سے قاصر اور خالق کائنات کی خبروں پر نکتہ چینی کے لیے تیار۔ بریں عقل و دانش بباید گریست۔ فضائل و کمالات عیسیٰ علیہ السلام۔ اور اے مریم تم اس بچہ کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے یہ خیال مت کرو کہ ولادت کے بعد لوگ طعن وتشنیع کانشانہ بنائیں گے بلکہ وہ مولود تمہاری عزت وجاہت کا سبب بنے گا اس لیے کہ وہ مولود مسعود عجیب و غریب فضائل و کمالات کا معدن اور مخزن ہوگا جس کو دیکھتے ہی اہل فہم سمجھ جائیں گے کہ یہ پیکر فضائل وشمائل معاذ اللہ والدالزنا نہیں ہوسکتا بلکہ نمونہ روح القدس ہے کہ جس کے پھونک مارنے سے مردے زندہ ہورہے ہیں اور اس کے مبارک ہاتھ پھیرنے سے کوڑھی اور نابینا چنگے اور سمکھے بن رہے اور اس مولود کی صفات یہ ہوں گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بلاکسی معلم اور بغیر استاذ کے آسمانی کتابوں کے علوم اور دانائی اور حکمت کی باتیں سکھائے گا اور بالخصوص ان کو توریت اور انجیل کا علم عطا کرے گا اور بنی اسرائیل کی طرف ایک عظیم الشان رسول بناکربھیجے گا جو صاحب معجزات ہوگا اور تحدی کے ساتھ ان سے یہ کہے گا کہ میں تمہارے پاس اللہ کی طرف سے اپنی نبوت و رسالت کی ایک روشن نشانی لے کر آیا ہوں یعنی ایسے معجزات قاہرہ لے کر آیا ہوں جو میری رسالت کی روشن دلیلیں ہیں جن کو دیکھ کر تم بداھۃ یہ جان لوگے کہ یہ معجزات بلاشبہ من ربکم یعنی تمہارے رب کی جانب سے ہیں اس لیے کہ اس زمانہ کے تمام حکماء اور اطباء ان کے مثل لانے سے عاجز اور درماندہ ہوں گے اور وہ معجزات یہ ہیں کہ میں تمہارے لیے اور تمہارے اطمینان کے لیے گارے سے پرندہ جیسی ایک صورت اور شکل بناؤں گا اور پھر اس مصنوعی صورت اور شکل میں پھونک ماروں گا پس وہ ظاہری صورت وشکل اللہ تعالیٰ کے حکم سے حقیقۃ زندہ پرندہ بن جائے گی اور اس کے علاوہ دوسرا معجزہ یہ ہوگا کہ میں مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو ہاتھ پھیر کا چھا اور چنگا کردوں گا اور مردوں کو زندہ کردوں گا اور یہ سب اللہ کے حکم سے ہوگا ظاہرا اگرچہ میرا ہاتھ ہوگا مگر درپردہ اللہ کا حکم ہوگا اور مادرزاد اندھا ہونا اور کوڑھی ہونا یہ وہ بیماریاں ہیں جن سے تمام اطباء اور حکماء عاجز ہیں بالخصوص مردہ کو زندہ کرنا یہ سب ہی سے بڑھ کر اعجاز ہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں چونکہ طب کا چرچا تھا اس لیے حضرت عیسیٰ کو اس قسم کے معجزات دیے گئے تاکہ اطباء اور حکماء کا عجز ظاہر ہو۔ نکتہ۔ لفظ باذن اللہ کا تکرار الوہیت کا شبہ رفع کرنے کے ہے مردہ کو زندہ کرنا بندہ کا کام نہیں بلکہ خدا کا کام اور اس کا حکم ہے اب تک حضرت عیسیٰ کے چار معجزات کا زکر ہوا، اول خلق کہیءۃ الطیر، دوم ابراء اکمہ، سوم، ابراء ابرص، چہارم، احیاء موتی۔ یہ چاروں معجزات فعلی تھے اب آگے پانچویں معجزہ کو ذکر کرتے ہیں جو علمی اور قولی معجزہ تھا وہ یہ کہ میں تم کو خبر دوں گا اس چیز کی جو تم کھاتے ہو اور اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو یعنی بذریعہ وحی کے بعض مغیبات پر تم کو مطلع کروں گا حضرت عیسیٰ نے چار عملی معجزات کے بعد یہ ایک معجزہ علمی ذکر فرمایا یعنی تمہاری ہدایت کے لیے اگر تم ایمان لانا چاہو تو ایمان لے آؤ میرے دعوائے نبوت کی صداقت، دلائل قاہرہ اور معجزات باہرہ سے تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہے اور یہ پانچ معجزے میرے نبوت اور رسالت کے ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں اور مجھ سے پہلے جو توریت نازل ہوچکی ہے میں اس کی تصدیق کے لیے آیا ہوں کہ بیشک وہ خدا کی کتاب تھی اور انبیاء کی یہی شان ہوتی ہے کہ آسمانی کتابوں کو سچا بتاتے ہیں اور ایک نبی دوسرے نبی کی تصدیق کرتا ہے اور میں اس لیے آیا ہوں کہ حلال کردوں تمہارے لیے ان بعض چیزوں کو جو تم پر حرام تھیں یعنی وہ بعض چیزیں جو تم پر توریت میں حرام تھیں، مثلااونٹ کا گوشت اور چربی اس کی حرمت کو منسوخ کروں گا اور مثلا ہفتہ کے دن جو مچھلی کی شکار کی ممانعت تھی اس کو بھی منسوخ کروں گا اور حاصل کلام یہ ہے کہ میرا نبی اور رسول ہونا تم پر خوب واضح ہوچکا ہے کیوں کہ میں اپنی نبوت کی نشانی خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کرچکا ہوں پس اللہ سے ڈرو یعنی میری مخالفت اور تکذیب میں اللہ کے عذاب سے ڈرو اور بےچون وچرا میری فرنابرداری کرو یعنی جو کہتا ہوں اس کو مانو تحقیق اللہ ہی میرا پروردگار ہے اور وہی تمہارا پروردگار ہے یعنی ان معجزات کی وجہ سے مجھ کو اپنا رب اور خدا نہ سمجھنا رب میرا اور تمہارا ایک ہی ہے جس کی ہم سب عبادت کرتے ہیں اور میں اس خدائے پروردگار کا برگزیدہ بندہ اور رسول ہوں معاذ اللہ اس کا بیٹا نہیں، یہ تین باتیں جو میں نے تم کو بتلائیں خدا تک پہنچنے کا یہی سیدھاراستہ ہے یعنی توحید اور تقوی اور اطاعت رسول اور توحید اور تقوی وہی معتبر ہے جو نبی اور رسول کی ہدایت اور تلقین کے مطابق ہو خود ساختہ توحید اور تقوی ہیچ ہے۔
Top