Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
یاد کرو ! جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاک کردیا ہے اور تمہیں ترجیح دی ہے دنیا کی عورتوں پر
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰـمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰـکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفٰـکِ عَلٰی نِسَآئِ الْعٰلَمِیْنَ ۔ یٰـمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّـکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ۔ (یاد کرو ! جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں چن لیا ہے اور تمہیں خوب پاک کردیا ہے اور تمہیں ترجیح دی ہے دنیا کی عورتوں پر۔ اے مریم ! خلوص سے اپنے رب کی عبادت کرتی رہو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو) (42 تا 43) حضرت مریم وقت کے ساتھ ساتھ عمر کا سفر طے کرتی گئیں۔ بچپن گزرا، لڑکپن میں داخل ہوئیں، شعور نے آنکھ کھولی، ایک وقت آیا جب اللہ کی رحمت نے انھیں پکارا۔ یوں تو ان کا بیت المقدس میں تربیت کے لیے قبول کرلیا جانا اور پھر حضرت زکریا (علیہ السلام) جیسے مقرب الٰہی کی تربیت میں رہنا اور ہر وقت بیت المقدس کی پاکیزہ فضائوں میں سانس لینا، بجائے خود ان کے لیے اللہ کے قرب اور پسندیدگی کی علامت تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے شعور کو پختہ کرنے اور دل و دماغ کو ایک خاص رخ پر ڈالنے کے لیے ہاتفِ غیبی کے ذریعے یا ملائکہ کی زبان میں انھیں پکارا اور یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ نے کسی خاص مقصد کے لیے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تمہیں چنا اور برگزیدہ کیا ہے اور اس بڑے مقصد کی انجام دہی کے لیے سیرت و کردار میں جو پاکیزگی ہونی چاہیے اس کا پوری طرح انتظام کردیا ہے۔ ایک مقرب بارگاہ کی تربیت اور بیت المقدس کا پاکیزہ ماحول بجائے خود اس تطہیر کے لیے کافی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف سے پاکیزگی کے وہ انوار دل و دماغ میں اتارے جا رہے ہیں جو ہمیشہ خاصانِ خاص کا نصیب رہا ہے اور اس کی اہمیت کو مزید واضح کرنے کے لیے فرمایا کہ مریم اس عنایت کو معمولی نہ سمجھ لینا، یہ اتنا بڑا منصب ہے کہ جو دنیا میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ اس کی شکرگزاری اور اس کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ انتہائی تذلل اور عاجزی کے ساتھ اپنی ذات کو اللہ کے ساتھ وابستہ کردو، دل و دماغ میں صرف اسی کو بسائو، زندگی کی ہر دلچسپی پر اسی کو ترجیح دو اور اسی کی محبوبیت کو حاصل زندگی سمجھو۔ تمہارا سراپا اور تمہارے احساسات ہر وقت اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے چاہئیں اور تمہاری خوش قسمتی ہے کہ بیت المقدس میں رہنے کے باعث تم نماز کی جماعت میں شامل ہوسکتی ہو۔ اس لیے جب لوگ اللہ کے سامنے جھکیں تو تم بھی جماعت کی پابندی کے ساتھ جھکنے میں ان کا ساتھ دو ۔ سجدہ غایت تذلل کا نام ہے اور رکوع جماعت میں شرکت کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ اس لیے پہلے سجدہ کا ذکر فرمایا تاکہ انفرادی اور اجتماعی دونوں حالت کو محیط ہوجائے اور پھر رکوع کا ذکر فرمایا تاکہ بندگانِ خدا کا ساتھ نصیب ہوجائے اور یہود چونکہ اپنی نمازوں میں بالکل رکوع کو گم کرچکے تھے۔ اس لیے بھی شاید رکوع کا اہتمام کے ساتھ ذکر فرمایا۔
Top