Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَتِ
: کہا
الْمَلٰٓئِكَةُ
: فرشتہ (جمع)
يٰمَرْيَمُ
: اے مریم
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
اصْطَفٰىكِ
: چن لیا تجھ کو
وَطَهَّرَكِ
: اور پاک کیا تجھ کو
وَاصْطَفٰىكِ
: اور برگزیدہ کیا تجھ کو
عَلٰي
: پر
نِسَآءِ
: عورتیں
الْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہان
اور جب فرشتوں نے مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اے مریم ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تجھ کو منتخب کیا ہے۔ اور تجھ کو پاکیزہ بنایا ہے۔ اور تجھ کو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ سب جہان والی عورتوں پر۔
ربط آیات : گذشتہ سے پیوستہ دروس میں حضرت مریم کی ولادت کے متعلق ذکر تھا کہ کس طرح ان کی والدہ نے منت مانی کہ ان کے ہاں لڑکا ہوگا ، تو وہ اسے خدمت دین کے لیے وقف کردیں گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا۔ کہ لڑکے کی بجائے انہوں نے حضرت مریم کو جنا۔ پھر ان کی کفالت کا ذکر ہوا۔ کہ قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ انہوں نے اچھی طرح پر وش شروع کی۔ مگر حضرت مریم کے کمرے میں بےموسم کے پھل دیکھ کر سخت حیران ہوئے۔ پوچھا اے مریم ! یہ کہاں سے آئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ھو من عند اللہ۔ یہ اللہ کے ہاں سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت زکریا (علیہ السلام) کو خیال پیدا ہوا۔ کہ جو مالک الملک بےموسم پھل حضرت مریم کو بھیج سکتا ہے۔ وہ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد بھی عطا کرسکتا ہے۔ چناچہ انہوں نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا کی۔ تو اللہ نے انہیں یحییٰ بیٹے کی بشارت دی۔ اور فرشتوں نے ان کے پاکیزہ اوصاف بھی بیان کیے۔ آج کے درس میں روئیے سخن پھر حضرت مریم کی طرف ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے انتخاب اور ان کے مناقب کا بیان ہے۔ اور پھر آئندہ درس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت ، ان کے اوصاف اخلاق حمیدہ اور معجزات کا تذکرہ ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ و اذ قالت الملئکۃ یمریم۔ اور جب فرشتتوں نے کہا ، اے مریم ! یہ ظاہر ہے کہ حضرت مریم نبی نہیں ہیں۔ بلکہ غیر نبی ہیں۔ تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرشتوں کا غیر انبیاء سے کلام جائز ہے۔ انبیاء کے پاس تو فرشتے ہمیشہ وحی لاتے رہے ہیں اور ان سے کلام کرتے ہیں۔ مگر غیر نبھی سے فرشتوں کے کلام کی کیا حیثیت ہے اس سلسلے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرشتوں کا غیر نبی سے کلام ممنوع نہیں ہے۔ البتہ وحی صرف نبیوں پر ہی نازل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے احکام اور شریعت ہوتی ہے۔ جسے آگے لوگوں تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے اس لیے وحی صرف انبیاء تک محدود ہوتی ہے۔ البتہ فرشتوں کا عام لوگوں کے ساتھ کلام روا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نبی نہیں تھیں۔ مگر قرآن پاک میں ان کے ساتھ فرشتوں کا کلام مذکور ہے۔ حضرت مریم بھی بالاتفاق نبی نہیں ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں تصریح موجود ہے۔ وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم۔ آج تک جتنے بھی نبی ہوئے ہیں۔ سب مرد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا منصب عورتوں کو عطا نہیں فرمایا۔ البتہ نبی کے بعد صدیقیت کا درجہ بعض عورتوں کو عطا نہیں فرمایا۔ البتہ نبی کے بعد صدیقیت کا درجہ بعض عورتوں کو عطا فرمایا ہے۔ چناچہ قرآن پاک میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم کے متعلق صراحتا موجود ہے۔ امہ صدیقہ۔ ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی کے چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے نبی ، پھر صدیق ، پھر شہید اور پھر صالحین نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے۔ اور حضرت مریم کے لیے یہ اعزاز قرآن پاک سے ثابت ہے۔ اسی طرح جب فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر آئے تو حضرت سارہ بھی وہاں موجود تھیں۔ مریم کو بھی فرشتوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت دی۔ حضرت عمران بن حصین حضور کے اونچے درجے کے صحابی ہیں۔ جن کا ذکر مسلم شریف میں موجود ہے۔ (اور قوت القلوب والے نے لکھا ہے کہ حضرت عمران تیس سال تک صاحب فراش رہے۔ آپ کو ناسور اور شدید قسم کا بواسیر لاحق ہوگیا تھا) بیماری کی حالت میں فرشتے آکر ان کو سلام کرتے تھے۔ انہوں نے علاج کے طور پر زخم پر پر آگ سے داگ لگوایا۔ تو فرشتوں کا سلام موقوف ہوگیا۔ جب انہوں نے نے یہ طریقہ علاج ترک کردیا۔ تو سلام پھر ہونے لگا۔ فرشتوں کا سلام کرنا بھی ان کا کلام کرنا ہی ہے۔ اور یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ الغرض ! فرشتوں کا غیر نبی سے کلام کرنا ثابت ہے جو کہ اعلی درجے کی فضیلت ہے۔ حضرت مریم کے مناقب : یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان مناقب کا تذکرہ فرمایا۔ جو فرشتوں نے حضرت مریم سے بیان کیے۔ فرمایا ان اللہ اصطفک ، بیشک اللہ تعالیٰ نے تجھ کو پسند فرمایا ہ ، یا منتخب فرمایا ہے یا برگزیدہ بنایا ہے۔ آپ کی پہلی برگزیدگی تو یہ تھی کہ آپ کی والدہ کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ آپ کو عبادت الہی اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا گیا۔ چناچہ بیت المقدس میں ہی آپ کی رہائش کا بندوبست ہوا۔ اور وہیں آپ بچپن میں مصروف عبادت رہیں۔ پھر فرمایا و طھرک اور آپ کو پاکیزہ بنایا۔ پاک اور صاف بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی طہارت عطا فرمائی۔ حضرت مولانا عثمانی فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے دن سے ہی منتخب کرلیا تھا۔ آپ کو نیکی اور ایمان کے ساتھ پاک بنایا۔ کیونکہ انسان کو ایمان اور نیکی کے ساتھ طہارت حاسل ہوتی ہے ، پھر اچھے اخلاق و عادات اور اچھے اعمال طہارت کا ذریعہ ہیں۔ برخلاف اس کے برے اعمال ، برے اخلاق ، کفر اور شرک نجاست اور گندگی کا سبب ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؓ کو ان تمام بری خصلتوں سے پاک فرمایا۔ اس پر ہمہ تن عبادت میں مصروفیت مزید باطنی طہارت کی دلیل ہے۔ ہماری شریعت میں بھی ہر مومن مسلمان مرد اور عورت کے لیے طہارت ضروری ہے۔ یہ طہارت عقیدے اور اعمال یعنی ظاہر و باطن ہر طرح سے ہونی چاہئے۔ فرمایا و اصطفک علی نساء العالمین۔ فرشتوں نے حضرت مریم کو یہ بھی خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جہاں بھر کی عورتوں پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے۔ پہلے اصطفی سے مراد بچپن کی فضیلت تھی۔ اب اس دوسرے اصطفی سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بلا واسطہ باپ والدہ بننے کا شرف ہے دوسری عورتوں پر کہ بغیر لمس بشر کے آپ کے بطن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر پیدا ہوئے۔ یہ امتیاز دنیا میں کسی اور عورت کو حاصل نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مردوں میں تو بہت سے کاملین گزرے ہیں۔ سارے کے سارے انبیاء اس کے بعد صدیق اور دوسرے لوگ ، مگر عورتوں میں صرف چند عورتیں کاملین شمار ہوتی ہیں۔ ان میں مریم بنت عمران ہیں۔ حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم بطھی مومنہ اور کاملین میں سے تھیں اس کے بعد حضرت فاطمہ سیدۃ النساء اہل الجنۃ ہیں۔ اور پھر حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے ، جیسے ثرید کھانے کی دوسرے تمام کھانوں پر بعض روایات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ یہ سب عورتیں کاملین میں شامل تھیں۔ حضرت مریم کو نصیحت : بشارت سنانے کے بعد فرشتوں نے حضرت مریم کو بعض نصیحتیں بھی کیں۔ جس سے مراد اس رب العلمین کا شکر ادا کرنا ہے۔ جس نے انہیں اس قدر برتری عطا فرمائی۔ چناچہ فرمایا یمریم اقنتی لربک۔ اے مریم ! اپنے رب کی عبادت کرو۔ قرآن پاک میں قنوت کا لفظ جہاں بھی مذکور ہے ، اس سے مراد اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ اللہ نے اپنے پیارے بندوں کی صٖفات بیان فرماتے ہوئے فرمایا والقنتین والقنتت۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں۔ دوسری جگہ فرمایا ، وقوموا للہ قانتین۔ اللہ کے سامنے اطاعت کے جذبے کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ اسی سورة میں پیچھے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کی فہرست میں جن لوگوں کو شامل کیا ہے۔ ان میں صابرین۔ صادقین کے بعد قنتین یعنی اطاعت گزار بھی شامل ہیں۔ الغرض ! فرشتوں نے حضرت مریم کو اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ کے لیے اطاعت و فرمانبرداری کی وصیت کی۔ اس کے بعد فرمایا ، واسجدی وارکعی مع الراکعین۔ اور سجدہ کا ذکر پہلے ہے اور رکوع کا بعد میں ہے اس کی توجیہہ مفسرین کرام خصوصا امام بیضاوی یوں فرماتے ہیں کہ جن دو چیزوں کو حرف و کے ساتھ اکٹھا بیان کردیا جاتا ہے ان میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی جاتی ہے۔ اس لیے سجدے اور رکوع کے آگے پیچھے آجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاہم نماز پڑھتے وقت پہلے رکوع ہی کیا جائے گا۔ اور اسی طریقے پر عمل کیا جائے گا۔ جو حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ امام بیضاوی یہ بھی فرماتے ہیں کہ واسجدی سے مراد مکمل نماز پڑھنا ہے۔ چونکہ سجدہ نماز کا ایک اہم رکن ہے۔ اس لیے صرف اس کا ذکر کرکے مراد نماز لیا گیا ہے۔ بعض اوقات صرف تسبیح کہہ کر مراد پوری نماز لی جاتی ہے۔ بہرحال امام صاحب فرماتے ہیں۔ کہ سجدہ سے مراد یہاں پر نماز ہے۔ اور رکوع سے مراد خشوع و خضوع ہے۔ گویا عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ آپ کے مطابق پورے جملے کا مفہوم یہ ہوگا۔ کہ نماز نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی کے ساتھ ادا کرو۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہودیوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ سجدہ پہلے کرتے تھے اور رکوع بعد میں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہی ترتیب ملحوظ رکھی۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہودی سجدہ تو اہتمام کے ساتھ کرتے تھے۔ مگر رکوع کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہدایت کی کہ رکوع کرو۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ اس میں کوتاہی نہ کرو۔ آج کے دور میں بعض لوگ رکوع کا خیال نہیں کرتے۔ سجدہ کے لیے پیشان تو زمین پر رکھ دیتے ہیں۔ مگر رکوع پوری طرح ادا نہیں کرتے ، نہ پیٹھ کو پوری طرح ہموار کرتے ہیں۔ اور نہ رکوع سے سیدھا کھڑا ہوتے ہیں۔ بلکہ جلدی ہی سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے رکوع کی خاص طور پر تلقین کی گئی ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کرو۔ نماز میں سجدہ اعلی درجے کی تعظیم ہے اور رکوع ادنی ، درجے کی ہے۔ سجدہ کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس لیے سجدہ کی فضیلت کے پیش نظر اس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ غیب کی خبریں حضرت مریم کے تذکرہ کے بعد اب حضور خاتم المرسلین کی نبوت کی صداقت کا بیان ہے۔ اس کے بعد اگلے درس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری کا بیان ہوگا۔ تاہم درمیان میں حضور ﷺ کے تزکرہ کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ٓپ کی نبوت سے متعلق بعض شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ جن کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ٓیت نازل فرمائی۔ ذلک من انباٗ الغیب یہ واقعہ جو ہم نے بیان کیا ہے ، غیب کی خبروں میں سے ہے۔ نوحیہ الیک۔ جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ یعنی آپ کو اس واقعہ کا نہ علم تھا۔ اور نہ آپ جانتے تھے۔ اور آپ غیب دان بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔ اور جب حضرت مریم کا یہ واقعہ پیش آیا۔ وما کنت لدیھم آپ ان کے پاس بھی نہیں تھے۔ جو اس واقعہ کو ذاتی طور پر مانتے ہوں۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے۔ اذ یلقون اقلامھم جب کہ وہ لوگ اپنی قلمیں ڈال رہے تھے۔ یعنی اس بات میں قرعہ اندازی کر رہے تھے کہ ایھم یکفل مریم ، حضرت مریم کی کفالت کون کرے۔ یہ اس وقت ہوا جب ان کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ بچہ عطا کرے گا۔ تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت اور اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں گی۔ چونکہ عمران فوت ہوچکے ہیں۔ اس لیے بیت المقدس کے سارے زعما نے حضرت مریم کی کفالت اپنے ذمے لینے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بڑی بابرکت بچی ہے۔ جسے اس کی ماں نے خدمت دین کے لیے وقف کر رکھا ہے ، جب ان لوگوں کے درمیان کفالت کے مسئلہ پر جھگڑا پیدا ہوا۔ تو انہوں نے اس کا فیصلہ بذریعہ قرعہ اندازی کرنے پر اتفاق کرلیا۔ قرعہ اندازی کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ کہ ہر خواہش مند نے اپنی اپنی وہ قلمیں نہر میں ڈال دیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے۔ حضرت مریم کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی قرعہ ڈالنے والوں میں شامل تھے۔ چناچہ جب قلمیں پانی کے بہاؤ کی طرف ڈالی گئیں ، تو سب کے قلم بہاؤ کی طرف بہ نکلے۔ سوائے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے قلم کے ، جو بہاؤ کی الٹی طرف چل پڑا۔ چناچہ قرعہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا۔ اور اس طرح حضرت مریم ان کی کفالت میں چلی گئیں۔ قرعہ کی شرعی حیثیت : ہماری شریعت میں بھی قرعہ اندازی ایسے حقوق کے سلسلے میں جائز ہے۔ جو دو فریقوں کی اپنی رائے کے سپرد ہوں۔ اگر شریعت نے خود حقوق متعین کردیے ہیں۔ تو پھر قرعہ اندازی درست نہ ہوگی۔ مثلاً کوئی جائداد بعض آدمیوں کے درمیان مشترک ہے۔ وہ اس بات پر قرعہ اندازی نہیں کرسکتے۔ کہ جس کے نام کا قرعہ ہوگا۔ وہ ساری جائداد لے لے گا۔ یہ تو قمار یا سود کی قسم ہے۔ اس طرح ایک دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ہاں ایسے معاملات میں قرعہ اندازی اس طور پر جائز ہے کہ کوئی جائداد برابر برابر تقسیم کے بعد شمالی جنوبی یا شرقی غربی حصے کا معاملہ ہو کہ دونوں حصوں میں سے کون سا حصہ ایک حصہ دار لے گا۔ اور کونسا دوسرا حصہ دار وصول کرے گا۔ اس میں راہنما اصول یہ ہے کہ قرعہ اندازی اور امور میں جائز ہے ہے جن میں بغیر قرعہ اندازی کے بھی معاملہ کا فیصلہ ہوسکے۔ جیسے کوئی معتبر آدمی یا حاکم وقت متنازعہ حصص کو تقسیم کردے۔ قرعہ اندازی کی بعض مثالیں حضور ﷺ کے زمانہ پاک میں بھی ملتی ہیں فتح خیبر کے بعد یہودی اناج جمع کرتے تھے۔ تو حضرت عبداللہ بن رواحہ اس کو دو برابر ڈھیروں میں تقسیم کرکے ان کو اختیار دیتے تھے کہ جونسا چاہو اٹھا لو ، خود حضور ﷺ سفر پر جاتے وقت اپنی ازواج مطہرات میں قرعہ ڈال لیتے تھے۔ کہ کسے ساتھ لے جائیں۔ اگرچہ حضور ﷺ کو عام اجازت تھی کہ جس زوجہ مطہرہ کو چاہیں اپنی رفاقت میں ساتھ لے جائیں۔ مگر آپ ان کی تالیف قلوب کے لیے قرعہ ڈال لیتے تھے۔ چناچہ بعض اوقات آپ کے ساتھ حضرت عائشہ ہوتی تھیں ، بعض دفعہ حفصہ رفیقہ سفر ہوتیں اور بعض اوقات کوئی دوسری بیوی۔ تو بہرحال ایسے جائز امور میں قرعہ اندازی روا ہے جن میں اس کے بغیر بھی فیصلہ ہوسکے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر نسب میں کوئی تنازعہ پیش آجائے تو قرعہ اندازی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً نومولود کے متعلق فیصلہ مطلوب ہو کہ یہ کس کا بچہ ہے تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی سے نہیں ہوسکتا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی جب کشتی میں سفر کر رہے تھے۔ تو وہاں بھی قرعہ ڈالا گیا۔ اگرچہ انہوں نے خود ہی اقرار کیا کہ غلطی واقعی مجھ ہی سے ہوئی ہے۔ اس کے باوجود قرعہ ڈالا گیا۔ تو پھسلنے والوں میں وہی ثابت ہوئے۔ پیغمبر اور علم غیب : وما کنت لدیھم۔ اور آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اذ یختصمون۔ جب وہ جھگڑا کر رہے تھے۔ ہر ایک شخص مریم کی کفالت اپنے ذمے لینا چاہتا تھا۔ جب جھگڑا بڑھنے لگا تو فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ آپ کو یہ باتیں وحی کے ذریعے بتائی جا رہی ہیں ۔ آپ بنفسہ وہاں موجود نہ تھے۔ اور نہ آپ عالم الغیب ہیں۔ علم غیب تو خاصہ خداوندی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ماکنت بجانب الطور۔ اے نبی کریم ! آپ اس وقت کوہ طور کے کنارے پر نہیں کھڑے تھے۔ جب وہ واقعہ پیش آیا۔ بلکہ یہ باتیں ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائی ہیں۔ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ نہ آپ نے کتابیں پڑھی ، نہ آپ خود وہاں موجود تھے ، نہ عالم الغیب ہیں۔ اس کے باوجود بیشمار جزیات کا علم آپ کو وحی کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے اور جتنا چاہے علم عطا کرتا ہے اور پھر انبیاٗ (علیہم السلام) کو زیادہ علم عطا کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے امت تک پہنچانا ہوتا ہے۔ آخر میں حضور نبی کریم ﷺ کو سب نبیوں سے زیادہ علم عطا کیا۔ مگر یہ علم غیب نہیں بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو بذریعہ وحی معلوم ہوئیں۔
Top