Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 42
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَتِ : کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتہ (جمع) يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ اصْطَفٰىكِ : چن لیا تجھ کو وَطَهَّرَكِ : اور پاک کیا تجھ کو وَاصْطَفٰىكِ : اور برگزیدہ کیا تجھ کو عَلٰي : پر نِسَآءِ : عورتیں الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
اور جب فرشتوں نے مریم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اے مریم ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تجھ کو منتخب کیا ہے۔ اور تجھ کو پاکیزہ بنایا ہے۔ اور تجھ کو بزرگی عطا فرمائی ہے۔ سب جہان والی عورتوں پر۔
ربط آیات : گذشتہ سے پیوستہ دروس میں حضرت مریم کی ولادت کے متعلق ذکر تھا کہ کس طرح ان کی والدہ نے منت مانی کہ ان کے ہاں لڑکا ہوگا ، تو وہ اسے خدمت دین کے لیے وقف کردیں گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا۔ کہ لڑکے کی بجائے انہوں نے حضرت مریم کو جنا۔ پھر ان کی کفالت کا ذکر ہوا۔ کہ قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا۔ انہوں نے اچھی طرح پر وش شروع کی۔ مگر حضرت مریم کے کمرے میں بےموسم کے پھل دیکھ کر سخت حیران ہوئے۔ پوچھا اے مریم ! یہ کہاں سے آئے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ھو من عند اللہ۔ یہ اللہ کے ہاں سے آئے ہیں۔ اس پر حضرت زکریا (علیہ السلام) کو خیال پیدا ہوا۔ کہ جو مالک الملک بےموسم پھل حضرت مریم کو بھیج سکتا ہے۔ وہ اس بڑھاپے میں مجھے اولاد بھی عطا کرسکتا ہے۔ چناچہ انہوں نے نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کے لیے دعا کی۔ تو اللہ نے انہیں یحییٰ بیٹے کی بشارت دی۔ اور فرشتوں نے ان کے پاکیزہ اوصاف بھی بیان کیے۔ آج کے درس میں روئیے سخن پھر حضرت مریم کی طرف ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے انتخاب اور ان کے مناقب کا بیان ہے۔ اور پھر آئندہ درس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت ، ان کے اوصاف اخلاق حمیدہ اور معجزات کا تذکرہ ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ و اذ قالت الملئکۃ یمریم۔ اور جب فرشتتوں نے کہا ، اے مریم ! یہ ظاہر ہے کہ حضرت مریم نبی نہیں ہیں۔ بلکہ غیر نبی ہیں۔ تو یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرشتوں کا غیر انبیاء سے کلام جائز ہے۔ انبیاء کے پاس تو فرشتے ہمیشہ وحی لاتے رہے ہیں اور ان سے کلام کرتے ہیں۔ مگر غیر نبھی سے فرشتوں کے کلام کی کیا حیثیت ہے اس سلسلے میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرشتوں کا غیر نبی سے کلام ممنوع نہیں ہے۔ البتہ وحی صرف نبیوں پر ہی نازل ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے احکام اور شریعت ہوتی ہے۔ جسے آگے لوگوں تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے اس لیے وحی صرف انبیاء تک محدود ہوتی ہے۔ البتہ فرشتوں کا عام لوگوں کے ساتھ کلام روا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نبی نہیں تھیں۔ مگر قرآن پاک میں ان کے ساتھ فرشتوں کا کلام مذکور ہے۔ حضرت مریم بھی بالاتفاق نبی نہیں ہیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں تصریح موجود ہے۔ وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم۔ آج تک جتنے بھی نبی ہوئے ہیں۔ سب مرد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کا منصب عورتوں کو عطا نہیں فرمایا۔ البتہ نبی کے بعد صدیقیت کا درجہ بعض عورتوں کو عطا نہیں فرمایا۔ البتہ نبی کے بعد صدیقیت کا درجہ بعض عورتوں کو عطا فرمایا ہے۔ چناچہ قرآن پاک میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم کے متعلق صراحتا موجود ہے۔ امہ صدیقہ۔ ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے نیکی کے چار مراتب بیان فرمائے ہیں۔ سب سے پہلے نبی ، پھر صدیق ، پھر شہید اور پھر صالحین نبی کے بعد صدیق کا درجہ ہے۔ اور حضرت مریم کے لیے یہ اعزاز قرآن پاک سے ثابت ہے۔ اسی طرح جب فرشتے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بشارت لے کر آئے تو حضرت سارہ بھی وہاں موجود تھیں۔ مریم کو بھی فرشتوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کی بشارت دی۔ حضرت عمران بن حصین حضور کے اونچے درجے کے صحابی ہیں۔ جن کا ذکر مسلم شریف میں موجود ہے۔ (اور قوت القلوب والے نے لکھا ہے کہ حضرت عمران تیس سال تک صاحب فراش رہے۔ آپ کو ناسور اور شدید قسم کا بواسیر لاحق ہوگیا تھا) بیماری کی حالت میں فرشتے آکر ان کو سلام کرتے تھے۔ انہوں نے علاج کے طور پر زخم پر پر آگ سے داگ لگوایا۔ تو فرشتوں کا سلام موقوف ہوگیا۔ جب انہوں نے نے یہ طریقہ علاج ترک کردیا۔ تو سلام پھر ہونے لگا۔ فرشتوں کا سلام کرنا بھی ان کا کلام کرنا ہی ہے۔ اور یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ الغرض ! فرشتوں کا غیر نبی سے کلام کرنا ثابت ہے جو کہ اعلی درجے کی فضیلت ہے۔ حضرت مریم کے مناقب : یہاں پر اللہ تعالیٰ نے ان مناقب کا تذکرہ فرمایا۔ جو فرشتوں نے حضرت مریم سے بیان کیے۔ فرمایا ان اللہ اصطفک ، بیشک اللہ تعالیٰ نے تجھ کو پسند فرمایا ہ ، یا منتخب فرمایا ہے یا برگزیدہ بنایا ہے۔ آپ کی پہلی برگزیدگی تو یہ تھی کہ آپ کی والدہ کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ آپ کو عبادت الہی اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کیا گیا۔ چناچہ بیت المقدس میں ہی آپ کی رہائش کا بندوبست ہوا۔ اور وہیں آپ بچپن میں مصروف عبادت رہیں۔ پھر فرمایا و طھرک اور آپ کو پاکیزہ بنایا۔ پاک اور صاف بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی طہارت عطا فرمائی۔ حضرت مولانا عثمانی فرماتے ہیں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلے دن سے ہی منتخب کرلیا تھا۔ آپ کو نیکی اور ایمان کے ساتھ پاک بنایا۔ کیونکہ انسان کو ایمان اور نیکی کے ساتھ طہارت حاسل ہوتی ہے ، پھر اچھے اخلاق و عادات اور اچھے اعمال طہارت کا ذریعہ ہیں۔ برخلاف اس کے برے اعمال ، برے اخلاق ، کفر اور شرک نجاست اور گندگی کا سبب ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم ؓ کو ان تمام بری خصلتوں سے پاک فرمایا۔ اس پر ہمہ تن عبادت میں مصروفیت مزید باطنی طہارت کی دلیل ہے۔ ہماری شریعت میں بھی ہر مومن مسلمان مرد اور عورت کے لیے طہارت ضروری ہے۔ یہ طہارت عقیدے اور اعمال یعنی ظاہر و باطن ہر طرح سے ہونی چاہئے۔ فرمایا و اصطفک علی نساء العالمین۔ فرشتوں نے حضرت مریم کو یہ بھی خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جہاں بھر کی عورتوں پر برگزیدگی عطا فرمائی ہے۔ پہلے اصطفی سے مراد بچپن کی فضیلت تھی۔ اب اس دوسرے اصطفی سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بلا واسطہ باپ والدہ بننے کا شرف ہے دوسری عورتوں پر کہ بغیر لمس بشر کے آپ کے بطن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر اور صاحب کتاب پیغمبر پیدا ہوئے۔ یہ امتیاز دنیا میں کسی اور عورت کو حاصل نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مردوں میں تو بہت سے کاملین گزرے ہیں۔ سارے کے سارے انبیاء اس کے بعد صدیق اور دوسرے لوگ ، مگر عورتوں میں صرف چند عورتیں کاملین شمار ہوتی ہیں۔ ان میں مریم بنت عمران ہیں۔ حضور ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں۔ فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم بطھی مومنہ اور کاملین میں سے تھیں اس کے بعد حضرت فاطمہ سیدۃ النساء اہل الجنۃ ہیں۔ اور پھر حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے ، جیسے ثرید کھانے کی دوسرے تمام کھانوں پر بعض روایات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ کا بھی ذکر آتا ہے۔ یہ سب عورتیں کاملین میں شامل تھیں۔ حضرت مریم کو نصیحت : بشارت سنانے کے بعد فرشتوں نے حضرت مریم کو بعض نصیحتیں بھی کیں۔ جس سے مراد اس رب العلمین کا شکر ادا کرنا ہے۔ جس نے انہیں اس قدر برتری عطا فرمائی۔ چناچہ فرمایا یمریم اقنتی لربک۔ اے مریم ! اپنے رب کی عبادت کرو۔ قرآن پاک میں قنوت کا لفظ جہاں بھی مذکور ہے ، اس سے مراد اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ اللہ نے اپنے پیارے بندوں کی صٖفات بیان فرماتے ہوئے فرمایا والقنتین والقنتت۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں۔ دوسری جگہ فرمایا ، وقوموا للہ قانتین۔ اللہ کے سامنے اطاعت کے جذبے کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔ اسی سورة میں پیچھے گزر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقین کی فہرست میں جن لوگوں کو شامل کیا ہے۔ ان میں صابرین۔ صادقین کے بعد قنتین یعنی اطاعت گزار بھی شامل ہیں۔ الغرض ! فرشتوں نے حضرت مریم کو اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ کے لیے اطاعت و فرمانبرداری کی وصیت کی۔ اس کے بعد فرمایا ، واسجدی وارکعی مع الراکعین۔ اور سجدہ کا ذکر پہلے ہے اور رکوع کا بعد میں ہے اس کی توجیہہ مفسرین کرام خصوصا امام بیضاوی یوں فرماتے ہیں کہ جن دو چیزوں کو حرف و کے ساتھ اکٹھا بیان کردیا جاتا ہے ان میں ترتیب ملحوظ نہیں رکھی جاتی ہے۔ اس لیے سجدے اور رکوع کے آگے پیچھے آجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تاہم نماز پڑھتے وقت پہلے رکوع ہی کیا جائے گا۔ اور اسی طریقے پر عمل کیا جائے گا۔ جو حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ امام بیضاوی یہ بھی فرماتے ہیں کہ واسجدی سے مراد مکمل نماز پڑھنا ہے۔ چونکہ سجدہ نماز کا ایک اہم رکن ہے۔ اس لیے صرف اس کا ذکر کرکے مراد نماز لیا گیا ہے۔ بعض اوقات صرف تسبیح کہہ کر مراد پوری نماز لی جاتی ہے۔ بہرحال امام صاحب فرماتے ہیں۔ کہ سجدہ سے مراد یہاں پر نماز ہے۔ اور رکوع سے مراد خشوع و خضوع ہے۔ گویا عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ آپ کے مطابق پورے جملے کا مفہوم یہ ہوگا۔ کہ نماز نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی کے ساتھ ادا کرو۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہودیوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ سجدہ پہلے کرتے تھے اور رکوع بعد میں ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہی ترتیب ملحوظ رکھی۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ یہودی سجدہ تو اہتمام کے ساتھ کرتے تھے۔ مگر رکوع کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ہدایت کی کہ رکوع کرو۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ اس میں کوتاہی نہ کرو۔ آج کے دور میں بعض لوگ رکوع کا خیال نہیں کرتے۔ سجدہ کے لیے پیشان تو زمین پر رکھ دیتے ہیں۔ مگر رکوع پوری طرح ادا نہیں کرتے ، نہ پیٹھ کو پوری طرح ہموار کرتے ہیں۔ اور نہ رکوع سے سیدھا کھڑا ہوتے ہیں۔ بلکہ جلدی ہی سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس لیے رکوع کی خاص طور پر تلقین کی گئی ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز باجماعت ادا کرو۔ نماز میں سجدہ اعلی درجے کی تعظیم ہے اور رکوع ادنی ، درجے کی ہے۔ سجدہ کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ اقرب ما یکون العبد من ربہ وھو ساجد بندہ سجدے کی حالت میں اپنے رب سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس لیے سجدہ کی فضیلت کے پیش نظر اس کا ذکر پہلے کیا گیا ہے۔ غیب کی خبریں حضرت مریم کے تذکرہ کے بعد اب حضور خاتم المرسلین کی نبوت کی صداقت کا بیان ہے۔ اس کے بعد اگلے درس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری کا بیان ہوگا۔ تاہم درمیان میں حضور ﷺ کے تزکرہ کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ ٓپ کی نبوت سے متعلق بعض شکوک و شبہات میں مبتلا تھے۔ جن کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ٓیت نازل فرمائی۔ ذلک من انباٗ الغیب یہ واقعہ جو ہم نے بیان کیا ہے ، غیب کی خبروں میں سے ہے۔ نوحیہ الیک۔ جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ یعنی آپ کو اس واقعہ کا نہ علم تھا۔ اور نہ آپ جانتے تھے۔ اور آپ غیب دان بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔ اور جب حضرت مریم کا یہ واقعہ پیش آیا۔ وما کنت لدیھم آپ ان کے پاس بھی نہیں تھے۔ جو اس واقعہ کو ذاتی طور پر مانتے ہوں۔ اور یہ اس وقت کی بات ہے۔ اذ یلقون اقلامھم جب کہ وہ لوگ اپنی قلمیں ڈال رہے تھے۔ یعنی اس بات میں قرعہ اندازی کر رہے تھے کہ ایھم یکفل مریم ، حضرت مریم کی کفالت کون کرے۔ یہ اس وقت ہوا جب ان کی والدہ نے بتایا کہ انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ بچہ عطا کرے گا۔ تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت اور اللہ کی عبادت کے لیے وقف کردیں گی۔ چونکہ عمران فوت ہوچکے ہیں۔ اس لیے بیت المقدس کے سارے زعما نے حضرت مریم کی کفالت اپنے ذمے لینے کی خواہش ظاہر کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ بڑی بابرکت بچی ہے۔ جسے اس کی ماں نے خدمت دین کے لیے وقف کر رکھا ہے ، جب ان لوگوں کے درمیان کفالت کے مسئلہ پر جھگڑا پیدا ہوا۔ تو انہوں نے اس کا فیصلہ بذریعہ قرعہ اندازی کرنے پر اتفاق کرلیا۔ قرعہ اندازی کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ کہ ہر خواہش مند نے اپنی اپنی وہ قلمیں نہر میں ڈال دیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے۔ حضرت مریم کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) بھی قرعہ ڈالنے والوں میں شامل تھے۔ چناچہ جب قلمیں پانی کے بہاؤ کی طرف ڈالی گئیں ، تو سب کے قلم بہاؤ کی طرف بہ نکلے۔ سوائے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے قلم کے ، جو بہاؤ کی الٹی طرف چل پڑا۔ چناچہ قرعہ کا فیصلہ آپ کے حق میں ہوگیا۔ اور اس طرح حضرت مریم ان کی کفالت میں چلی گئیں۔ قرعہ کی شرعی حیثیت : ہماری شریعت میں بھی قرعہ اندازی ایسے حقوق کے سلسلے میں جائز ہے۔ جو دو فریقوں کی اپنی رائے کے سپرد ہوں۔ اگر شریعت نے خود حقوق متعین کردیے ہیں۔ تو پھر قرعہ اندازی درست نہ ہوگی۔ مثلاً کوئی جائداد بعض آدمیوں کے درمیان مشترک ہے۔ وہ اس بات پر قرعہ اندازی نہیں کرسکتے۔ کہ جس کے نام کا قرعہ ہوگا۔ وہ ساری جائداد لے لے گا۔ یہ تو قمار یا سود کی قسم ہے۔ اس طرح ایک دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ہاں ایسے معاملات میں قرعہ اندازی اس طور پر جائز ہے کہ کوئی جائداد برابر برابر تقسیم کے بعد شمالی جنوبی یا شرقی غربی حصے کا معاملہ ہو کہ دونوں حصوں میں سے کون سا حصہ ایک حصہ دار لے گا۔ اور کونسا دوسرا حصہ دار وصول کرے گا۔ اس میں راہنما اصول یہ ہے کہ قرعہ اندازی اور امور میں جائز ہے ہے جن میں بغیر قرعہ اندازی کے بھی معاملہ کا فیصلہ ہوسکے۔ جیسے کوئی معتبر آدمی یا حاکم وقت متنازعہ حصص کو تقسیم کردے۔ قرعہ اندازی کی بعض مثالیں حضور ﷺ کے زمانہ پاک میں بھی ملتی ہیں فتح خیبر کے بعد یہودی اناج جمع کرتے تھے۔ تو حضرت عبداللہ بن رواحہ اس کو دو برابر ڈھیروں میں تقسیم کرکے ان کو اختیار دیتے تھے کہ جونسا چاہو اٹھا لو ، خود حضور ﷺ سفر پر جاتے وقت اپنی ازواج مطہرات میں قرعہ ڈال لیتے تھے۔ کہ کسے ساتھ لے جائیں۔ اگرچہ حضور ﷺ کو عام اجازت تھی کہ جس زوجہ مطہرہ کو چاہیں اپنی رفاقت میں ساتھ لے جائیں۔ مگر آپ ان کی تالیف قلوب کے لیے قرعہ ڈال لیتے تھے۔ چناچہ بعض اوقات آپ کے ساتھ حضرت عائشہ ہوتی تھیں ، بعض دفعہ حفصہ رفیقہ سفر ہوتیں اور بعض اوقات کوئی دوسری بیوی۔ تو بہرحال ایسے جائز امور میں قرعہ اندازی روا ہے جن میں اس کے بغیر بھی فیصلہ ہوسکے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر نسب میں کوئی تنازعہ پیش آجائے تو قرعہ اندازی نہیں ہوسکتی۔ مثلاً نومولود کے متعلق فیصلہ مطلوب ہو کہ یہ کس کا بچہ ہے تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی سے نہیں ہوسکتا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) بھی جب کشتی میں سفر کر رہے تھے۔ تو وہاں بھی قرعہ ڈالا گیا۔ اگرچہ انہوں نے خود ہی اقرار کیا کہ غلطی واقعی مجھ ہی سے ہوئی ہے۔ اس کے باوجود قرعہ ڈالا گیا۔ تو پھسلنے والوں میں وہی ثابت ہوئے۔ پیغمبر اور علم غیب : وما کنت لدیھم۔ اور آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اذ یختصمون۔ جب وہ جھگڑا کر رہے تھے۔ ہر ایک شخص مریم کی کفالت اپنے ذمے لینا چاہتا تھا۔ جب جھگڑا بڑھنے لگا تو فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے ہوا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ آپ کو یہ باتیں وحی کے ذریعے بتائی جا رہی ہیں ۔ آپ بنفسہ وہاں موجود نہ تھے۔ اور نہ آپ عالم الغیب ہیں۔ علم غیب تو خاصہ خداوندی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ماکنت بجانب الطور۔ اے نبی کریم ! آپ اس وقت کوہ طور کے کنارے پر نہیں کھڑے تھے۔ جب وہ واقعہ پیش آیا۔ بلکہ یہ باتیں ہم نے آپ کو وحی کے ذریعے بتائی ہیں۔ آپ نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی۔ نہ آپ نے کتابیں پڑھی ، نہ آپ خود وہاں موجود تھے ، نہ عالم الغیب ہیں۔ اس کے باوجود بیشمار جزیات کا علم آپ کو وحی کے ذریعے دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے اور جتنا چاہے علم عطا کرتا ہے اور پھر انبیاٗ (علیہم السلام) کو زیادہ علم عطا کرتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے امت تک پہنچانا ہوتا ہے۔ آخر میں حضور نبی کریم ﷺ کو سب نبیوں سے زیادہ علم عطا کیا۔ مگر یہ علم غیب نہیں بلکہ غیب کی خبریں ہیں جو بذریعہ وحی معلوم ہوئیں۔
Top