Bayan-ul-Quran - Az-Zumar : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے نبی ﷺ یقیناہم نے آپ ﷺ پر کتاب نازل کی ہے حق کے ساتھ تاکہ آپ ﷺ لوگوں کے مابین فیصلہ کریں اس کے مطابق جو اللہ نے آپ کو دکھایا ہے اور آپ ﷺ خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنیں
آیت 105 اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰٹک اللّٰہُ ط یعنی ایک تو اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو کتاب دی ہے ‘ قانون دیا ہے ‘ اس کے ساتھ آپ ﷺ کو بصیرت خاص دی ہے۔ مثلاً عدالت میں ایک جج بیٹھا ہے ‘ اس کے سامنے قانون کی کتاب ہے ‘ مقدمے سے متعلق متعلقہ ریکارڈ ہے ‘ شہادتیں ہیں ‘ اب ایک اس کی اپنی عقل چھٹی حِس اور قوت فیصلہ بھی ہوتی ہے ‘ جس کو بروئے کار لا کر وہ فیصلہ کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جیسا ہم آپ ﷺ کو دکھاتے ہیں اس کے مطابق آپ ﷺ فیصلہ کریں۔ وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآءِنِیْنَ خَصِیْمًا یعنی آپ ﷺ ان کی طرف سے وکالت نہ فرمائیں۔ ایک شخص جو کہنے کو تو مسلمان ہے لیکن ہے خائن ‘ آپ ﷺ کو اس کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے پس منظر میں در اصل ایک واقعہ ہے۔ ایک منافق نے کسی مسلمان کے گھر میں چوری کے لیے نقب لگائی اور وہاں سے آٹے کا ایک تھیلا اور کچھ اسلحہ چرا لیا۔ آٹے کے تھیلے میں سوراخ تھا ‘ جب وہاں سے وہ اپنے گھر کی طرف چلا تو سوراخ میں سے آٹا تھوڑا تھوڑا گرتا گیا۔ اس طرح اس کے راستے اور گھر کی نشاندہی ہوتی گئی ‘ مگر اسے خبر نہیں تھی کہ آٹے کی لکیر اس کا راز فاش کر رہی ہے۔ گھر پہنچ کر اسے خیال آیا کہ ممکن ہے مجھ پر شک ہوجائے ‘ چناچہ اس نے اسی وقت جا کر وہ سامان ایک یہودی کے ہاں امانتاً رکھوا دیا ‘ لیکن آٹے کا نشان وہاں بھی پہنچ گیا۔ اگلے روز جب تلاش شروع ہوئی تو آٹے کی لکیر کے ذریعے لوگ کھوج لگاتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچ گئے ‘ لیکن پوچھ گچھ پر اس نے صاف انکار کردیا۔ تلاشی لی گئی ‘ مگر کوئی چیز برآمد نہ ہوئی۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ آٹے کے نشانات مزید آگے جا رہے ہیں تو وہ کھوج لگاتے ہوئے یہودی کے گھر پہنچے ‘ اس کے ہاں سے سامان بھی بر آمد ہوگیا۔ یہودی نے حقیقت بیان کردی کہ یہ سامان رات کو فلاں شخص نے اس کے پاس امانتاً رکھوایا تھا۔ منافق کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ یہودی جھوٹ بولتا ہے ‘ وہی چور ہے۔ جب کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو یہ جھگڑا حضور ﷺ کے سامنے لایا گیا۔ منافق کے قبیلے والوں نے قسمیں کھا کھا کر خوب وکالت کی کہ ہمارا یہ آدمی تو بہت نیک ہے ‘ اس پر خواہ مخواہ کا جھوٹا الزام لگ رہا ہے۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ کا دل بھی اس شخص کے بارے میں کچھ پسیجنے لگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ خیانت کرنے والے کے حمایتی نہ بنیں ‘ اس کی طرف سے وکالت نہ کریں ‘ اس کا سہارا نہ بنیں ‘ اس کو مدد نہ پہنچائیں۔ یہاں خَصِیْمًا کے معنی ہیں جھگڑا کرنے والا ‘ بحث کرنے والا۔ لِلخَاءِنِیْنَ کا مطلب ہے خائن لوگوں کے حق میں۔ لیکن اگر عَلَی الخَاءِنِین ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا خائن لوگوں کے خلاف۔
Top