Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے پیغمبر) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایت کے مطابق لوگوں کے مقدمات میں فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغابازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا
انا انزلنا الیک۔۔ بیشک ہم نے تمہارے پاس یہ کتاب بھیجی ہے واقع کے مطابق تاکہ لوگوں کا فیصلہ تم اس کے موافق کرو جو اللہ نے تم کو بتادیا ہے۔ ترمذی اور حاکم وغیرہ نے حضرت قتادہ بن نعمان کی روایت سے بیان کیا ہے کہ ایک کنبہ والے تھے جن کو بنو ابیرق کہا جاتا تھا (یہ تین بھائی تھے) بشر ‘ بشیر ‘ مبشر ‘ بشیر منافق شخص تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ؓ کی ہجاء میں شعر خود کہتا تھا اور شعروں کی نسبت کسی عرب کی طرف کردیتا تھا اور کہتا تھا یہ قول فلاں شخص کا ہے۔ یہ لوگ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں محتاج فاقہ زدہ تھے (اس زمانہ میں) اہل مدینہ کی (عمومی) غذا چھوارے اور جَو تھی۔ میرے چچا رفاعہ ؓ بن زید نے بھی ایک بوری آٹا خرید کر ایک کٹیا میں رکھ دیا۔ کٹیا میں ان کے ہتھیار تلوار اور زرہ بھی رکھی تھی۔ کٹیا میں نیچے سے نقب لگا کر کسی نے آٹا اور ہتھیار چرا لئے۔ صبح کو چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا بھتیجے آج رات ہم پر بڑی زیادتی ہوئی کٹیا میں نقب لگ گیا اور آٹا اور ہتھیار چوری ہوگئے جب ہم نے احاطہ کے اندر تلاش اور پوچھ تاچھ کی تو ہم کو اطلاع ملی کہ آج رات بنی ابیرق کے ہاں چولہا جلا تھا۔ خیال یہ ہے کہ تمہارا آٹا ہی پکایا گیا ہے۔ ہم احاطہ کے اندر پوچھ تاچھ کر ہی رہے تھے کہ بنی ابیرق نے کہا خدا کی قسم ہمارے خیال میں تو یہ حرکت لبید ؓ بن سہیل کی ہے اور لبید ؓ بن سہیل بڑا نیک مسلمان ہے۔ جب لبید ؓ : کو انہوں نے متہم کیا تو اس نے تلوار سونت لی اور کہا میں چوری کروں گا۔ خدا کی قسم یا تو چوری کا مال سامنے لے آؤ ‘ ورنہ یہ تلوار تمہارے اندر داخل کر دوں گا۔ بنی ابیرق نے کہا ‘ ارے تو چوری کرنے والا نہیں ہے۔ ہم سے الگ رہ (یعنی ہم نے تجھے چور نہیں کہا ‘ پھر ہم سے کیوں الجھتا ہے) ۔ غرض ہم نے احاطہ میں تفتیش کی تو ہم کو یقین ہوگیا کہ بنی ابیرق ہی چور ہیں۔ بھتیجے تم رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کرو۔ چچا کے کہنے کے موافق میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے حاطہ والوں میں سے کچھ لوگوں نے میرے چچا پر ظلم کیا ہے اس کی کٹیا میں نقب لگا کر ہتھیار اور آٹا لے لیا۔ ہمارے ہتھیار تو واپس ملنے چاہئیں آٹے کی ضرورت نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں دیکھوں گا ادھر بنی ابیرق نے جب یہ بات سنی تو اپنے ایک آدمی کے پاس جس کا نام اسیر بن عروہ تھا گئے اور اس سے اس سلسلہ میں بات کی اور (وہاں) بہت سے احاطہ والے جمع ہوگئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ قتادہ ؓ بن نعمان اور اس کے چچا نے ہمارے کنبہ کے کچھ نیک مسلمانوں پر بغیر گواہ اور ثبوت کے چوری کی تہمت لگائی ہے۔ حضرت قتادہ ؓ کا بیان ہے جب میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور ﷺ نے فرمایا تم ایسے لوگوں پر چوری کی تہمت لگا رہے ہو جن کی نیکی اور اسلام کا ذکرے میرے سامنے کیا گیا ہے اس پر زیادہ وقفہ نہیں گزرا تھا کہ آیت انا انزلنا الیک الکتاب۔۔ عظیماتک نازل ہوئی۔ ان آیات کے نزول کے بعد اسلحہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر کردیئے گئے اور حضور ﷺ نے رفاعہ کو واپس دے دیئے اور بشیر بھاگ کر مشرکوں سے جا ملا اور سلافہ بنت سعد کے پاس جا کر فروکش ہوا اس پر اللہ نے آیت وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْہُدٰی۔۔ ضَلاَلاً بَعِیْدًاتک نازل فرمائی حاکم نے کہا یہ روایت برشرط مسلم صحیح ہے۔ ابن سعد ؓ نے طبقات میں اپنی سند سے محمود ؓ بن لبید کی روایت سے لکھا ہے کہ بشیر بن حارث نے قتادہ ؓ بن نعمان کے چچا رفاعہ بن زید کی کٹیا میں پیچھے کی طرف سے سیندھ لگا کر کچھ آٹا اور دو زرہیں مع ان کے ساز و سامان کے لے لیں۔ قتادہ ؓ نے جا کر رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی۔ حضور ﷺ نے بشیر کو طلب کر کے سوال کیا۔ بشیر نے انکار کردیا اور ایک شخص لبید بن سہیل کو جو احاطہ میں بڑا شریف اور اصیل آدمی تھا متہم کیا ‘ اس پر بشیر کی تکذیب اور لبید ؓ کی براءت کے سلسلے میں آیات اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ الخنازل ہوئیں۔ بشیر کو جب نزول آیات کی اطلاع ملی تو وہ مرتد ہو کر بھاگ کر مکہ کو چلا گیا اور سلافہ بنت سعد کے پاس جا کر ٹھہرا اور رسول اللہ ﷺ اور دوسرے مسلمانوں کی ہجا کرنے لگا۔ اس کے باریہ میں آیات کا نزول ہوا اور حضرت حسان ؓ بن ثابت نے اس کی ہجاء کی وہ آخر وہ لوٹ آیا۔ یہ واقعہ ماہ ربیع الثانی 4 ہجری کا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ کلبی (رح) نے ابو صالح کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ : کا بیان نقل کیا اور ابن جریر نے یہ روایت لکھی ہے کہ اس آیت کا نزول ایک انصاری کے متعلق ہوا اس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا اور خاندان بنی ظفر بن حارث میں سے تھا۔ اس نے اپنے ہمسائے قتادہ ؓ بن نعمان کی زرہ چرائی تھی۔ زرہ ایک تھیلے میں تھی جس کے اندر آٹا بھرا ہوا تھا۔ تھیلے میں شگاف تھا۔ شگاف سے آٹا بکھرتا ہوا چلا گیا اور چور کے مکان تک یونہی چلا گیا۔ طعمہ نے زرہ لے جا کر ایک یہودی کے پاس جس کا نام زید السمین تھا۔ چھپا دی۔ زرہ کی تلاش طعمہ کے پاس ہوئی۔ طعمہ نے قسم کھالی کہ میں نے نہ زرہ لی ہے نہ مجھے اس کا علم ہے۔ زرہ والوں نے کہا ہم نے آٹے کا نشان اس کے گھر تک دیکھا ہے لیکن طعمہ نے قسم کھالی تو زرہ والوں نے اس کو چھوڑ دیا اور یہودی کے گھر تک آٹے کے نشان کا پیچھا کیا اور یہودی کو جا پکڑا۔ یہودی نے کہا مجھے طعمہ بن ابیرق نے یہ زرہ دی تھی۔ طعمہ کی قوم والے یعنی بنی ظفر رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہمارے آدمی کی وکالت کریں۔ اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو ہمارا آدمی رسوا ہوجائے گا اس پر رسول اللہ ﷺ نے یہودی کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ حضرت ابن عباس کا ایک اور بیان بھی دوسری روایت میں آیا ہے وہ یہ کہ طعمہ نے زرہ اس تھیلے سمیت چرائی جس کے اندر بھوسی رکھی ہوئی تھی اور سارے راستے بھوسی بکھرتی چلی گئی۔ طعمہ نے زید السمین کے گھر تک لے جا کر اس کے دروازہ پر تھیلہ رکھ دیا اور زرہ اپنے گھر لے گیا۔ زرہ کا مالک بھوسی کے نشان پر زید السمین کے گھر پر پہنچا اور اس کو رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہودی کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا۔ بغوی نے مقاتل کا قول نقل کیا کہ زید السمین نے طعمہ کے پاس زرہ بطور امانت رکھی تھی جس کا طعمہ نے انکار کردیا تھا ‘ اس پر آیت : انا انزلنا الیک الکتبنازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حکم۔ ممانعت اور دوسرے سچے علوم کی حامل کتاب ہم نے تم پر اتاری تاکہ تم اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق لوگوں کے باہمی فیصلے کرو۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ آیت میں رویت کا معنی علم نہیں ہے کیونکہ (رویت بمعنی علم کے لئے دو مفعول ضروری ہیں اور اس جگہ باب افعال کے اراءت مصدر سے اراء کا ستعمال کیا گیا ہے اس لئے) اس وقت تین مفعولوں کی ضرورت ہوگی (جن میں سے صرف ایک مذکور ہے دو موجود نہیں ہیں) اور رویت کا معنی آنکھوں سے دیکھنا تو بہرحال اس جگہ مراد نہیں ہے۔ لامحالہ رویت سے مراد معرفت ہے یعنی اللہ نے جو تم کو بتایا اور وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ بعض علماء کا قول ہے کہ آیت میں رویت بمعنی علم ہی مراد ہوسکتی ہے۔ (پہلا مفعول موجود ہے اور) دوسرا تیسرا مفعول محذوف ہے یعنی جو چیز اللہ نے تم کو سکھائی ہے اس کے مطابق فیصلہ کرو اس صورت میں اگرچہ حذف کی زیادتی ضرور ہوگی مگر مجازی معنی (یعنی رویت بمعنی معرفت) مراد لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں کہتا ہوں ظاہر یہی ہے کہ رویت سے مراد علم ہو اور ماموصولہ سے مراد ہو وہ پورا مضمون جس سے علم کا تعلق ہورہا ہے اور موصول کی طرف لوٹنے والی ضمیر محذوف ہو لیکن محذوف مذکور کے حکم میں ہو اس وقت چونکہ جملہ کا مضمون (جس پر موصول کی طرف راجع ہونے والی محذوف ضمیر دلالت کر رہی ہے) دو مفعولوں کے قائم مقام ہے اس لئے مزید مفعولوں کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ حاصل مطلب یوں ہوگا کہ طعمہ کے چور ہونے یا لبید یا یزید کے بری ہونے کا تم فیصلہ کرو۔ اس غرض سے ہم نے کتاب (کی یہ آیت) نازل کی۔ آیت سے یہ امر تو ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ محض ظن پر عمل نہیں کرتے تھے لیکن یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ اجتہاد نہیں کرتے تھے کیونکہ جب اجتہاد کے ذریعہ سے حضور ﷺ کو کسی امر کا ظن پیدا ہوگیا اور اللہ نے اس کی تائید کردی اور ظن رسول کے غلط ہونے کی اطلاع نہیں دی تو اس وقت آپ کو یقین ہوگیا کہ میرا ظن اجتہادی حق ہے البتہ دوسرے مجتہدوں کی حالت اس سے الگ ہے (ان کے اجتہاد کی تائید قرآن سے نہیں ہوتی اس لئے ان کا اجتہاد مفید ظن ہی رہتا ہے کبھی یقین تک نہیں پہنچ سکتا) اس کی تائید عمرو بن دینار کی روایت سے ہوتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر ؓ سے عرض کیا ‘ آپ اسی کے مطابق فیصلہ کیجئے جو اللہ نے آپ کو سکھا دیا ہو حضرت عمر ؓ نے فرمایا چپ۔ یہ شان تو صرف رسول اللہ ﷺ کی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ آیت کا حکم عام ہو ( رسول اللہ ﷺ کی تخصیص نہ ہو) اور یوں کہا جائے کہ جب خبر آحاد یا قیاس غرض کسی ظنی دلیل سے مجتہد کو کوئی حکم معلوم ہوگیا تو پھر از روئے قرآن و حدیث و اجماع اس حکم پر عمل واجب ہے (واقع میں وہ ظنی حکم صحیح ہو یا غلط مگر اجتہاد پر عمل کرنا بہرحال قرآن اور حدیث اور اجماع کی رو سے واجب ہے) پس اگر اجتہادی ظن کے خلاف کوئی راحج دلیل مجتہد کے سامنے نہ آئے اور انتہائی کوشش اور فکری کاوش کرنے کے بعد ایک حکم معلوم ہوجائے تو اگرچہ مجتہد کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ واقع میں بھی اللہ کے نزدیک حکم میرے ظن کے مطابق ہے مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اس اجتہاد پر عمل کرنا میرے لئے واجب ہے۔ (1) [ ابن وہب کا بیان ہے مجھ سے مالک نے فرمایا کہ لوگوں کے درمیان جس فیصلہ کا حکم دیا گیا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو وہ جو قرآن اور حدیث میں موجود ہو یہ حکم تو یقیناً واجب اور صحیح ہوتا ہے دوسرا وہ جس کا کوئی ذکر قرآن و حدیث میں نہیں آیا (نہ مثبت نہ منفی) اور عالم اپنے اجتہاد سے اس کو معلوم کرتا ہے اس حکم کے صحیح اور واقع کے مطابق ہونے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن ایک تیسرا حکم اور ہے (جس کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جاسکتا) وہ یہ ہے کہ نامعلوم حکم میں بناوٹ اور تکلف سے کام لے ایسے حکم کو غیر صحیح کہنا زیادہ مناسب ہے۔] شیخ ابو منصور (رح) نے فرمایا آیت کا معنی یہ ہے کہ نازل شدہ اصول کے زیر نظر جو حکم اللہ تمہارے دل میں ڈال دے اس کے مطابق فیصلہ کرو۔ اس صورت میں بقول شیخ رسول اللہ ﷺ کے لئے اجتہاد کرنے کے جواز کی دلیل اس آیت میں موجود ہے۔ ولا تکن للخآئنین خصیما . اور نہ ہو خیانت کرنے والوں کے طرافدار (اور حمایتی) لاتکنکا عطف انزلنا پر اگر مانا جائے تو لفظ قلنامحذوف قرار دیا جائے گا (تاکہ خبر پر انشاء کا عطف ہونا لازم نہ آئے) یعنی ہم نے کہہ دیا کہ خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو اور اگر الکتب پر معطوف قرار دیا جائے تو انزلنا محذوف ہوگا یعنی ہم نے کتاب نازل کی اور یہ بھی نازل کیا کہ خائنون کے حمایتی نہ بنو۔ الخائنین سے مراد ہیں بنی ابیرق اور خصیم سے مراد ہے بےگناہوں کے حریف یعنی لبید بن سہیل یا زید السمین یہودی کے مخالف۔
Top