Dure-Mansoor - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
بلاشبہ ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب اتاری تاکہ آپ لوگوں کے درمیان فیصلہ دیں جو اللہ نے آپ کو سمجھایا، اور نہ ہوجائیے خیانت کرنے والوں کے طرف دار
(1) ترمذی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ وحاکم (نے اس کو صحیح کہا) قتادہ بن نعمان ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے خاندان کے لوگ تھے جن کو بنو ابیرق کہا جاتا تھا (یہ تین بھائی تھے) بشر بشیر، مبشر، بشیر منافق تھا اشعار کہتا تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی ہجو کرتا اور شعروں کی نسبت کسی عرب کی طرف کردیتا تھا اور کہتا تھا کہ فلاں نے ایسا اور ایسا کہا اور جب رسول اللہ ﷺ کے اصحاب یہ شعر سنتے تھے تو کہتے اللہ کی قسم ! کہ یہ شعر اسی خبیث نے کہے ہیں اس نے کہا جب بھی لوگ قصیدہ کہیں تو کہہ دین کہ ابن ابیرق نے کہا یہ لوگ جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں تنگ دست تھے ( اس زمانہ میں) اہل مدینہ کی غذا چھوہارے اور جو تھے جب کوئی آدمی خوشحال ہوتا اور شام کے ملک سے ہو کو علاقہ کا کوئی تجارتی قافلہ آتا تو اس سے سامان خرید کر اپنے لئے خاص کرلیتا تھا لیکن اہل و عیال کا کھانا جو ہی ہوتا تھا شام سے ایک قافلہ آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زر نے ایک پورے اونٹ کا سامان زرفک سے خرید لیا اور اپنے کمرہ میں رکھ لیا اسی کمرہ میں اس کی دو تلواریں اور دو زرہیں اور متعلقہ سامان بھی تھا رات کے وقت کوئی اس کمرہ میں نقب لگا کر آیا اور ہتھیار لے لئے صبح کو میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا بھتیجے ! آج رات ہم پر بڑی زیادتی ہوئی ہمارے کمرے میں نقب لگائی گئی اور ہمارا آٹا اور ہتھیار چوری ہوگئے جب ہم نے احاطہ کے اندر تلاش کی اور پوچھ گچھ کی تو ہم کو اطلاع ملی کہ آج رات بنی ابیرق کے ہاں چولہا جلا تھا۔ خیال یہ ہے کہ تمہارا آٹا ہی پکایا گیا ہم احاطہ کے اندر پوچھ گچھ کر ہی رہے تھے کہ بنی ابیرق نے کہا اللہ کی قسم ہمارے خیال میں تو یہ حرکت لبید بن سہل کی ہے اور لبید بن سہیل بڑا نیک مسلمان تھا جب لبید کو انہوں نے متہم کیا تو اس نے تلوار سونت لی اور کہا میں چوری کروں گا خدا کی قسم یا تم چوروں کا مال سامنے لے آؤ ورنہ یہ تلوار تمہارے اندر داخل کردوں گا بنی ابیرق نے کہا ارے تو چوری کرنے والا نہیں ہے۔ ہم سے الگ رہ غرض ہم نے احاطہ میں تفتیش کی تو ہم کو یقین ہوگیا کہ بنی ابیرق ہی چور ہیں مجھ کو میرے چچا نے کہا اے میرے بھتیجے ! تم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کرو۔ قتادہ ؓ کہا میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے احاطہ والوں میں سے کچھ لوگوں نے ہم پر ظلم کیا کمرے پر نقب لگا کر ہتھیار اور آٹا لے لیا ہمارے ہتھیار تو ہم کو واپس کردیں آٹے کی ہمیں ضرورت نہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں اس بارے میں غوروفکر کروں گا ادھر بنو ابیرق نے جب یہ بات سنی تو اپنے ایک آدمی کے پاس آئے جس کو اسیر بن عروہ کہا جاتا تھا اور اس سے اس سلسلہ میں بات کی اور وہاں بہت سے احاطہ والے جمع ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر کہنے لگے یا رسول اللہ ! قتادہ بن لقمان اور اس کے چچا نے ہمارے کنبہ کے کچھ نیک مسلمانوں پر بغیر گواہ اور ثبوت کے چوری کی تہمت لگائی ہے قتادہ نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے بات کی آپ نے فرمایا تم ایسے لوگوں پر چوری کی تہمت لگا رہے ہو بغیر گواہ اور ثبوت کے جن کی نیکی اور اسلام کا ذکر میرے سامنے کیا گیا قتادہ نے کہا میں لوٹ آیا اور میں نے یہ خواہش کی کہ میں نے اپنا کچھ مال نکالوں (اور چچا کو دے دوں) مگر رسول ﷺ کو اس بارے میں بات نہ کہی میں اپنے چچا رفاعہ کے پاس آیا اس نے پوچھا اے بھتیجے ! تو نے کیا کہا میں نے ان کو وہ بات بتائی جو مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے کی تھی۔ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے ہم زیادہ دیر نہیں ٹھہرے کہ قرآن نازل ہوا لفظ آیت ” ان انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما “ خائنین سے مراد بنی ابیرق ہیں ” واستغفر اللہ “ استغفار کرو آپ ﷺ نے قتادہ سے جو فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں لفظ آیت ” ان اللہ کان غفورا رحیما (106) ولا تجادل عن الذین یختانون انفسہم “ سے لے کر ” ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “ تک یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دیں گے (اور) ” ومن یکسب اثما “ سے لے کر ” فقد احتمل بھتانا و اثما مبینا “ تک ان کا قول ہے لبید کے لئے (اور) ” ولو لا فضل اللہ علیک ورحمتہ لھمت طائفۃ منہم ان یضلوک “ یعنی اسیر بن عروہ اور اس کے ساتھی اور ” فسیؤتیہ اجرا عظیما “ تک۔ جب قرآن نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس ہتھیار لائے گئے تو آپ نے رفاعہ کو واپس کر دئیے قتادہ نے کہا جب میں اپنے چچا کے پاس ہتھیار لے کر آیا اور وہ بوڑھے تھے اور دور جاہلیت قریب میں گزرا تھا میری رائے تھی کہ ابھی اس کا اسلام وہ مغلوب ہوگا جب میں نے ان کو ہتھیار دئیے تو انہوں نے کہا اے بھتیجے یہ اللہ کے راستہ میں ہدیہ ہے میں پہچان گیا کہ ان کا اسلام راسخ ہے جب قرآن نازل ہوا تو بشیر مشرکین سے مل گیا اور سلامہ بنت سعد کے پاس آکر ٹھہرا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی “ سے لے کر ” ضللا بعیدا “ جب یہ سلامہ کے پاس آکر ٹھہرا تو حسان بن ثابت سے پھر نکلا اور اس کو ابطح میں پھینک دیا پھر کہا تو نے مجھے حسان کے شعر ہدیہ دئیے ہیں تو میں تجھ یہی بھلائی دے سکتا تھا۔ (2) ابن سعد نے محمود بن لبید (رح) سے روایت کیا کہ بشیر بن حارث نے قتادہ بن نعمان ظفری کے چچا رفاعہ بن زید کی کٹیا میں پیچھے کی طرف نقب لگا کر کچھ آٹا اور دو زرہیں مع ان کے سازوسامان کے لے لیں قتادہ نے جا کر رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی آپ نے بشیر کو طلب کر کے سوال کیا تو اس نے انکار کردیا اور ایک شخص لبید بن سہیل کو جو احاطہ کا بڑا حسب ونسب والا آدمی تھا متہم کیا تو اس پر بشیر کی تکذیب اور لبید کی برات میں قرآن نازل ہوا۔ ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ سے لے کر ” ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحمیا “ تک یعنی بشیر بن ابیرق (اور) ” ومن یکسب خطیءۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا “ یعنی لبید بن سہل جب بنو ابیرق نے اس پر (چوری کی) تہمت لگائی تو بشیر کے بارے میں قرآن نازل ہوا اور اس پر مطلع ہوا تو مرتد کافر ہو کر مکہ بھاگ گیا اور سلامہ بنت سعد بن کے ہاں ٹھہرا اور رسول اللہ ﷺ اور دوسرے مسلمان کی ہجو کرنے لگا تو اس بارے میں بھی قرآن نازل ہوا اور حسان بن ثابت نے اس کی ہجو کی یہاں تک کہ وہ لوٹ آیا یہ واقعہ ماہ ربیع الثانی 4 ھ ؁ کا ہے۔ (3) ابن سعد نے وجہ آخر سے محمد بن لبید (رح) سے روایت کیا کہ اسیر بن عروہ بڑی فصیح وبلیغ گفتگو کرنے والا باتونی آدمی تھا اس نے وہ بات سنی جو قتادہ بن نعمان نے بنو ابیرق میں نبی ﷺ سے کہی جب قتادہ نے اپنے چچا لے بالا خانے میں نقب لگانے اور آٹا اور دو زرہیں اٹھا لینے کے بارے میں ذکر کیا اسیر اپنی قوم میں سے ایک جماعت کو لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا کہ قتادہ اور اس کے چچا نے ہمارے کنبہ میں کچھ نیک مسلمانوں پر تہمت لگائی ہے اور ان کے بارے میں غلط باتیں کر رہے ہیں اور ان کے لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں جو ان کے لائق نہیں تھی بغیر ثبوت کے اور گواہ کے اور رسول ﷺ کے سامنے ان کے بارے میں جو اس نے چاہا کہا پھر وہ چلا گیا اس کے بعد قتادہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تاکہ ان سے بات کریں تو رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور آپ نے فرمایا تو نے بری حرکت کی اور برے کام میں چلا قتادہ ؓ یہ کہتے ہوئے کھڑے ہوگئے اور کہا میں نے اس بات کو پسند کیا کہ میں اپنے اہل و عیال اور اپنے مال کو چھوڑ دوں اور میں رسول اللہ ﷺ کو ان کے بارے میں کچھ نہ بات کروں اور میں اس معاملہ میں کسی چیز کے بارے میں رجوع کرنے والا نہ تھا تو اللہ تعالیٰ اپنی نبی ﷺ پر ان کی حالت کے بارے میں نازل فرمایا کہ لفظ آیت ” ان انزلنا الیک الکتب “ سے لے کر ” ولا تجادل عن الذین یختانون انفسہم “ یعنی اسیر بن عروہ اور ان کے ساتھی ” ان اللہ لا یحب من کان خوانا اثیما “۔ چوری کر کے دوسرے پر الزام دھرنا (4) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ سے لے کر ” ومن یفعل ذلک ابتغاء مرضات اللہ “ کہ یہ طعمہ بن ابیرق کے بارے میں نازل ہوئی جو اس نے لوہے کی ایک زرہ چرالی تھی تو مومنین میں سے اس کے ساتھیوں نے نبی ﷺ سے کہا اپنی زبان سے لوگوں کے درمیان اس کی صفائی دے دیں اور اس کے ساتھیوں نے اس زرہ کی تہمت یہود میں سے ایک آدمی پر لگا دی جو اس معاملہ میں بری تھا۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیات طعمہ بن ابیرق کے حق میں نازل ہوئی اور ان لوگوں کے بارے میں کہ نبی ﷺ نے ان کو صفائی دینے کا ارادہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے طعمہ بن ابیرق کی حالت کو بیان کردیا اور اپنے نبی کو نصیحت فرمائی اور اس امر سے ڈرایا کہ آپ ان خیانت کرنے والوں حمایتی نہ بن جائیے اور طعمہ بن ابیرق انصار میں سے ایک آدمی تھا اور بنو ظفر سے تعلق رکھتا تھا اس نے اپنے چچا کی ایک زرہ چوری کرلی جو ان کے پاس بطور امانت کے تھی پھر اسے ایک یہودی کے پاس لے آیا جس کے پاس آتے جاتے رہتے تھے جس کو زید بن السمین کہا جاتا تھا وہ یہودی نبی ﷺ کے پاس خبر دینے کے لئے آیا جب اس کو قوم بنو ظفر نے اسے دیکھا تو وہ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے تاکہ وہ اپنے ساتھی کی صفائی دیں اور نبی ﷺ نے ان کے عذر کو قبول کرنے کا ارادہ فرمایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حکم نازل فرمایا جو نازل فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” ولا تجادل عن الذین یختانون انفسہم “ سے لے کر ” یرم بہ یریئا “ تک جب اللہ تعالیٰ نے طعمہ کی حالت کو بیان فرمایا تو وہ منافق ہوگیا اور مشرکین کے ساتھ مل گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں پھر آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین “۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انصار کی ایک جماعت نے نبی ﷺ کے ساتھ بعض غزوات میں حصہ لیا اس میں سے کسی کی زرہ چوری ہوگئی اس نے کہا کہ میں انصار میں سے ایک آدمی کے بارے میں گمان کرتا ہوں (کہ اس نے زرہ چرائی ہے) زرہ کا مالک نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا طعمہ بن ابیرق نے میری زرہ چرائی ہے جب چور نے دیکھا کہ اس کی طرف چوری کا الزام لگا ہے تو اس نے اس زرہ کو ایک آدمی کے گھر میں پھینک دیا جو بری الذمہ تھا اور اپنے کنبہ میں سے ایک آدمی کو کہا کہ میں نے زرہ چھپائی تھی اور اس کو فلاں کے گھر میں پھینک دیا ہے تم اس کے پاس پاؤ گے وہ لوگ نبی ﷺ کے پاس گئے اور کہا اے اللہ کے نبی ہمارا ساتھ بری ہے اور زرہ کو چوری کرنے والا فلاں آدمی ہے اور ہم نے اس بارے میں تحقیق کرلی تمام لوگوں کے سامنے ہمارے ساتھ کی صفائی دیں اور اس کی طرف سے دوسرے فریق سے باتیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو آپ کے ذریعہ سے نہ بچایا تو وہ ہلاک ہوجائے گا رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور اس کی برات فرمائی اور اس کا عذر قبول فرمایا لوگوں کے سامنے (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ سے لے کر ” خوانا اثیما “ تک پھر ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جو رسول اللہ ﷺ کے پاس رات کو آئے کہ لفظ آیت ” یستخفون من الناس “ سے لے کر ” وکیلا “ تک یعنی وہ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کے پاس چھپ کر آئے اور خیانت کرنے والوں کے بارے میں جھگڑا کر رہے تھے پھر فرمایا لفظ آیت ” ومن یکسب خطیءۃ “ یعنی چوری کرنے والا اور جن لوگوں نے چوری کرنے والے کی طرف سے جھگڑا کیا۔ (7) ابن جریر نے ابن زیدہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی نے لوہے کی ایک زرہ چوری کی اور ایک یہودی کے گھر میں پھینک دیا یہودی نے کہا اللہ کی قسم ! اے ابو القاسم (رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے) میں نے اسے چوری نہیں کیا بلکہ میرے گھر میں پھینکی گئی ہے۔ اور وہ آدمی جس نے چوری کی تھی اس کا ایک پڑوسی تھا جس نے ایک برات ظاہر کی اور اس کو ایک یہودی پر ڈال دیا اور وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! یہ یہودی خبیث ہے اس نے اللہ تعالیٰ اور جو آپ لے کر آئے اس کا انکار کیا یہاں تک کہ نبی ﷺ ان کی بعض باتوں پر مائل ہوگئے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” ان انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ ولا تکن للخائنین خصیما (105) واستغفر اللہ “ جو کچھ آپ نے یہودی کے بارے میں کہا اس پر بخشش طلب کیجئے ” ان اللہ کان غفورا رحیما “ پھر اس کے پڑوسی کے بارے میں فرمایا لفظ آیت ” ھانتم ھؤلاء جدلتم عنہم “ سے لے کر ” وکیلا “ تک پھر توبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحمیا (110) ومن یکسب اثما فانما یکسبہ علی نفسہ “ یعنی جو کچھ اے لوگ تم نے داخل کیا اس گناہ پر اور جو تم اس کے علاوہ بات کر رہے تھے (یعنی جھوٹی بات) ” ومن یکسب خطیءۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا “ (اور) جو تم اس کے علاوہ بات کر رہے تھے (یعنی جھوٹی بات) فرمایا ” ومن یکسب خطیءۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا “ اگرچہ وہ مشرک تھا ” فقد احتمل بھتانا “ سے لے کر ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی “ یعنی اس نے توبہ کو قبول کرنے سے انکار کیا جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے پیش فرمائی اور مشرکین کی طرف مکہ چلا گیا اور وہیں ایک گھر میں نقب لگائی تاکہ اس کی چوری کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر دیوار گرا دی۔ اس کو قتل کردیا۔ (8) ابن المنذر نے حسن بصری (رح) سے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک آدمی نے لو ہے کی زرہ چوری کی جب وہ ڈرا کہ اس کے پاس سے پائی جائے گی تو اس نے اس کو ایک ہمسایہ یہودی کے گھر میں ڈال دیا اور کہا کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں نے زرہ چرائی ہے اللہ کی قسم میں تم کو بتاتا ہوں کہ وہ یہودی کے پاس ہے یہ معاملہ نبی ﷺ کے پاس لے جایا گیا اور نبی ﷺ نے اس پر گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی برات قبول کرنے والے ہی تھے جبکہ لوگوں نے زرہ کو بھی یہودی کے گھر سے پایا اور اللہ تعالیٰ تو انصاف کو پسند فرماتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر نازل فرمایا لفظ آیت ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق “ سے لے کر ” ام من یکون علیہم وکیلا “ تک اور اللہ تعالیٰ نے مجرم پر توبہ کو پیش فرمایا اگر وہ اس کو قبول کرتے (پھر فرمایا) ” ثم یرم بہ بریئا “ سے مراد یہودی ہے اور وہ بری کردیا گیا پھر اپنے نبی ﷺ کے لئے فرمایا ” ولو لا فضل اللہ علیک ورحمتہ “ سے لے کر ” وکان فضل اللہ علیک عظیما “ تک اور (اس طرح) یہودی کو بری فرمادیا اور زرہ والے کو خبر دے دی (پھر فرمایا) اب وہ (چور) مسلمانوں میں بدنام ہوا۔ اور اس نے کہا کہ اب میرے لئے اس شہر میں ٹھہرنا (مناسب نہیں) وہ وہاں سے نکل پڑا اور مشرکین سے مل گیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی “ سے لے کر ” ضللا بعیدا “ تک۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی فرمائی (یہ آیت) طعمہ بن البیرق کے بارے میں نازل ہوئی یہودی میں سے ایک آدمی نے اس کے پاس ایک زرہ امانت رکھی وہ اس کو لے کر اپنے گھر کی طرف چلا یہودی نے اس کے لئے ایک گڑھا کھودا پھر اس کو دفن کردیا طعمہ نے اس کی طرف مخالفت کی اس گھڑے کو کھود کر اس نے زرہ کو لے لیا جب یہودی آیا تاکہ اپنی زرہ دیکھے تو اس کو زرہ نہ ملی پھر وہ اپنے قبیلہ کے یہودیوں کے پاس گیا اور کہا میرے ساتھ چلو کیونکہ جہاں زرہ ہے میں اس کو جانتا ہوں جب طعمہ نے اس بات کو جان لیا کہ زرہ کو لے لیا جائے گا تو اس نے اس کو ابو ملیک انصاری کے گھر میں ڈال دیا جب یہودی آئے اور انہوں نے زرہ طلب کی تو وہ اس پر قادر نہ ہوئے (یعنی زرہ نہ لے سکے) طعمہ اور اس کی قوم کے کچھ لوگوں نے اس پر برا بھلا کہا تو اس نے کہا کیا ہم کو ڈراتے ہو تم جاؤ اور اس کے گھر میں تلاش کرو وہ ابو ملیک کے گھر پر چڑھ گئے اور انہوں نے زرہ کو پالیا طعمہ نے کہا ابو ملیک نے اس کو اٹھا لیا اور انصار نے طعمہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے جھگڑا کیا اور ان سے کہا میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلو اور آپ نے عرض کرو کہ مجھ سے ایسی شرمندگی کو دور کریں اور یہودی کو جھٹلائیں میں جھٹلایا گیا تو یہودی تمام اہل مدینہ کو جھٹلائیں گے کچھ لوگ انصار میں سے آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ طعمہ کی حمایت کریں اور یہودی کو جھٹلائیں اور (یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ نے ایسا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر نازل فرمایا ” ولا تکن للخائنین خصیما “ سے لے کر ” اثیما “ پھر انصار کا ذکر فرمایا اور اس کی طرف سے ان کے جھگڑے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” ولا یستخفون من اللہ “ سے لے کر ” وکیلا “ تک پھر ان کو توبہ کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ “ سے لے کر ” رحیما “ تک پھر اس قول کا ذکر فرمایا جب اس نے کہا کہ اس کو ابو ملیک نے لے لیا فرمایا ” ومن یکسب خطیءۃ او اثما “ سے لے کر ” مبینا “ تک پھر انصار اور ان کے آنے کا ذکر فرمایا تاکہ وہ اپنے ساتھی کی طرف سے برات کو ظاہر کریں اور اس کی طرف سے جھگڑا کریں تو فرمایا ” لھمت طائفۃ منہم ان یضلوک “ پھر ان کی مناجات کا ذکر فرمایا جس میں انہوں نے طعمہ کی طرف سے جھوٹ بولنے کا ارادہ کیا۔ تو فرمایا لفظ آیت ” لا خیر فی کثیر من نجوہم “ جب اللہ تعالیٰ نے طمعہ کو قرآن کے ذریعہ بدنام کیا تو مدینہ منورہ میں تو بھاگ کر مکہ آگیا اور اپنے اسلام کے بعد کافر ہوگیا پھر وہ حجاج بن علاط سلمہ کا مہمان بنا اور حجاج کے گھر کی نقب لگائی اور اس کی چوری کرنے کا ارادہ کیا تو حجاج نے اپنے گھر میں کھٹ کھٹ اور چمڑوں کے ٹکرانے کی آواز سنی جو چمڑے اس کے پاس تھے حجاج نے اچانک دیکھا تو وہ طعمہ تھا اور اس نے کہا میرا مہمان اور میرے چچا کا بیٹا تو ارادہ کرتا ہے کہ تو میری چوری کرے اس کا نکال دیا تو وہ بحرہ بنو سلیم میں کافر ہو کر مرگیا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ” ومن یشاقق الرسول “ سے ” وساءت مصیرا “ تک۔ مجرم کی حمایت کرنا بھی جرم ہے (10) سعید وابن جبیر وابن المنذر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ انصار کے ایک آدمی نے طعمہ بن ابیرق کو بیٹھک حوالہ کی اس میں ایک زرہ تھی وہ غائب ہوگئی جب انصاری آیا اور اس نے اپنی بیٹھک کو کھولا تو اس میں زرہ کو نہ پایا اس نے طعمہ بن ابیرق سے اس کے بارے میں پوچھا تو اس نے ایک یہودی کو تہمت لگا دی جس کو زید بن السمین کہا جاتا تھا زرہ کے مالک نے اپنی زرہ کے بدلہ میں طعمہ کو پکڑ لیا جب اس کی قوم نے دیکھا تو وہ لوگ نبی ﷺ کے پاس آئے اور ان سے بات کی تاکہ طعمہ سے (الزام کو) دور کردیں آپ نے اس کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس “ سے لے کر ” ولا تجاول عن الذین یختانون انفسہم “ خیانت کرنے والوں سے مراد طعمہ بن ابیرق اور اس کی قوم ہے (پھر فرمایا) ” ھانتم ھؤلاء جدلتم “ سے لے کر ” یکون علیہم وکیلا “ وکیل سے مراد محمد ﷺ اور ان کی قوم ہے ” ثم یرم بہ بریئا “ یعنی زید بن السمین ” فقد احتمل بھتانا “ طعمہ بن ابیرق بہتان لگانے والا ” ولو لا فضل اللہ علیک ورحمتہ “ محمد ﷺ کے لئے ” لھمت طائفۃ “ طعمہ کی قوم ” لا خیر فی کثیر “ عام لوگوں کے لئے ” ومن یشاقق الرسول “ یعنی جب طعمہ بن ابیرق کے بارے میں یہ قرآن نازل ہوا تو وہ قریش سے مل گیا اور اپنے دین سے لوٹ گیا۔ پھر اس نے حجاج بن علاط بہری کی بیٹھک میں چوری کا ارادہ کیا اس میں نقب لگائی ایک پتھر اس پر گرپڑا جس سے وہ پھنس گیا جب صبح ہوئی تو انہوں نے اس کو مکہ سے نکال دیا وہاں سے نکلا تو قضاعہ کے ایک قافلہ کو ملا اس سے کہا کہ میں مسافر ہوں اور ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں اس نے اس کو سوار کرلیا جب رات چھا گئی تو اس کی چوری کر کے بھاگ گیا وہ لوگ اس کی طلب میں نکلے تو اس کو پالیا اس کو پتھروں سے اس قدر مارا یہاں تک کہ وہ مرگیا یہ ساری آیات اس کے بارے میں نازل ہوئی لفظ آیت ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ “ تک۔ ہر فیصلہ قرآن کے مطابق ہو (11) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت انصار کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی اس نے ایک زرہ کسی کے پاس امانت رکھی تو اس نے اس کے مالک کو دینے سے انکار کردیا نبی ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ اس کے پیچھے ہو لئے تو اس سے اس کی قوم غضب ناک ہوئی اور قوم والے نبی ﷺ کے پاس آکر کہنے لگے ان لوگوں نے ہمارے ساتھ کو خائن قرار دیا حالانکہ وہ امانتدار مسلمان ہے آپ اس کی طرف سے صفائی بیان کریں اور اس سے الزام کو رفو فرمائیں نبی ﷺ کھڑے ہوئے اس کی صفائی بیان فرمائی اور اس کو جھوٹ سے بری فرمایا آپ ﷺ یہ خیال فرما رہے تھے کہ وہ بری ہے اور اس پر جھوٹا الزام ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کو صحیح بیان فرماتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ سے لے کر ” ام من یکون علیہم وکیلا “ تک جب اس کی خیانت کو بیان فرمایا تو وہ مکہ کے مشرکین سے مل گیا اور اسلام سے مرتد ہوگیا تو اس کے بارے میں نازل ہوا لفظ آیت ” ومن یشاقق الرسول “ سے لے کر ” وساءت مصیرا “ تک۔ (12) ابن ابی حاتم نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جس کو طعمہ بن ابیرق کہا جاتا تھا اس نے نبی ﷺ کے زمانہ میں ایک زرہ چوری کی یہ بات نبی ﷺ کو پہنچائی گئی تو اس نے ایک دوسرے آدمی کے گھر میں ڈال دی پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو اور نبی ﷺ کے پاس میری معذرت کرو کیونکہ فلاں کے گھر سے یہ زرہ پائی گئی یہ لوگ معذرت کرنے کے لئے نبی ﷺ کے پاس گئے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” ومن یکسب خطیءۃ او اثما ثم یرم بہ بریئا فقد احتمل بھتانا “ یعنی دوسرے آدمی کو اس کا بہتان لگانا۔ (13) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے ” ولا تجادل عن الذین یختانون انفسہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ انصار میں سے ایک آدمی نے اپنے چچا کی زرہ چوری کرلی اور ایک یہودی پر اس کی تہمت لگا دی جو ان کے پاس آتا جاتا رہتا تھا یہ اس کی قوم نے اس کی حمایت کی کہ گویا نبی ﷺ نے اس کی برات کی پھر وہ مشرکوں کے علاقوں میں چلا گیا (یعنی مکہ چلا گیا) تو اس بارے میں نازل ہوئی ” ومن یشاقق الرسول “۔ (14) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اپنی رائے سے کوئی بات کہنے سے بچو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا لفظ آیت ” لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ یہ نہیں فرمایا۔ (15) ابن المنذر نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے حضرت عمر سے فرمایا لفظ آیت ” بما ارک اللہ “ آپ نے فرمایا رک جا یہ الفاظ نبی ﷺ کے لئے خاص ہیں۔ (16) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطیہ عوفی (رح) سے روایت کیا کہ ” لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو اپنی کتاب میں دکھایا ہے۔ (17) ابن ابی حاتم نے مالک بن انس کے طریق سے ربیعہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل فرمایا اور اس میں سنت کے لئے جگہ رکھی اور رسول اللہ ﷺ نے سنت قائم فرمائی اور رائے کے لئے ایک جگہ اس میں چھوڑ دی۔ (18) ابن ابی حاتم نے ابن مصیب (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو امام مالک (رح) نے فرمایا جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں جو قرآن وسنت کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے وہ واجب اور صحیح ہے۔ اور وہ فیصلہ جسے ظالم اپنے اجتہاد سے کرتا ہے جس کی پہلی مثال نہیں ہوتی امید ہے وہ درست ہو۔ تیسرا فیصلہ وہ ہے جو جاہل کی طرف سے تکلف ہے اس کے غلط ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ (19) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بیان فرمایا۔ (20) ابن ابی حاتم نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ ” لتحکم بین الناس بما ارک اللہ “ یعنی بینات اور شہود کے ذریعہ ہے۔ (21) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے موقوف اور مرفوع روایت نقل کی ہے کہ جس شخص نے لوگوں کے سامنے ایسی نماز پڑھتا ہے کہ اس جیسی اکیلے نہیں پڑھتا تو یہ استہانت ہے کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے رب کی توہین کرتا ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت کی کہ لفظ آیت ” یستخفون من الناس ولا یستخفون من اللہ وھو معہم “۔ (22) عبد بن حمید نے حذیفہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا کہ مگر یہ الفاظ زائد ہیں کہ وہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ لوگ اس کے نزدیک اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر زیادہ مرتبہ والے ہیں۔ (23) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو زرین (رح) سے روایت کیا کہ ” اذ یبیتون “ سے مراد ہے ” اذ یولفون “ یعنی وہ ناپسندیدہ مشورے کرتے ہیں۔ (24) ابن جریر ابن المنذر نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے حلم کی اپنے عفو کی اور اپنے کرم کی اور اپنی رحمت اور اپنی مغفرت کے وسیع ہونے کی خبر دی ہے جو شخص چھوٹا گناہ کرے یا بڑا اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم پائے گا اگرچہ اس کے گناہ آسمان زمین اور پہاڑوں سے بھی بڑے ہوں۔ (25) ابن جریر وعبد بن حمید و طبرانی و بیہقی نے شعب الایمان میں ایمان مسعود ؓ سے روایت کیا کہ بنو اسرائیل میں سے جب کوئی گناہ کرلیتا تھا تو صبح کو اس کے دروازے پر اس کا کفارہ لکھا ہوتا تھا۔ اور جب اس کو پیشاب میں سے کچھ لگ جاتا تھا تو اس کو قینچی سے کاٹتے تھے ایک آدمی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بڑی بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ابن مسعود ؓ نے فرمایا جو کچھ تم کو دیا گیا وہ بہتر ہے جو ان کو دیا گیا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے پانی کو پاک بنایا اور فرمایا ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “۔ (26) عبد بن حمید نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص سورت نساء میں ان دو آیتوں کو پڑھے پھر استغفار کرے تو اس کو بخش دیا جاتا ہے وہ دو آیات ہیں ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “ اور فرمایا ” ولو انہم اذ ظلموا انفسہم جاءوک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول “۔ (27) ابن جریر نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت عبد اللہ بن مغفل کے پاس آئی اور ایک ایسی عورت کے بارے میں پوچھا جس نے بدکاری کی اور حمل والی ہوگئی جب اس نے بچہ جنا تو اس کو قتل کردیا انہوں نے فرمایا اس کے لئے آگ ہے وہ لوٹی اور رونے لگی انہوں نے اس کو بلایا اور فرمایا میں تیرے معاملے کو دو صورتوں میں سے ایک میں دیکھتا ہوں پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “ اس نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں اور چلی گئی۔ (28) ابن ابی حاتم وابن السنی نے عمل الیوم والیلۃ میں وابن مردویہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابوبکر کو یہ فرماتے ہوئے سنا جو آدمی کوئی گناہ کرے پھر وہ کھڑا ہوجائے اور اچھی طرح وضو کر کے نماز پڑھ لے اور اپنے گناہ سے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو معاف کر دے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “۔ (29) ابو یعلی والطبرانی وابن مردویہ نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب بیٹھتے اور آپ کے اردگرد ہم بیٹھ جاتے اور آپ کو کوئی حاجت ہوتی تو آپ اس کے لئے کھڑے ہوجاتے اور جب آپ واپس آنے کا ارادہ فرماتے تو اپنی جوتیاں اپنی مجلس میں چھوڑ جاتے یا بعض ان لوگوں کے پاس جو اس پر مقرر ہوتے۔ ایک دفعہ آپ کھڑے ہوئے اور اپنی جوتیاں مبارک چھوڑ گئے اور آپ نے اپنی پانی کی چھاگل اٹھائی تو میں آپ کے پیچھے ہو لیا کچھ دیر کے بعد آپ واپس لوٹے مگر اپنی حاجت پوری نہیں فرمائی اور آپ نے فرمایا میرے رب سے ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا ” ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما “ میں نے ارادہ کیا کہ اپنے صحابہ کو بشارت دوں ابو درداء نے عرض کیا اور لوگوں پر وہ بہت بھاری ہوا جو اس سے پہلے ہے یعنی ” ومن یعمل سوء ا “ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ زنا کرے چوری کرے پھر اپنے رب سے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیں گے فرمایا ہاں میں نے دو مرتبہ کیا آپ نے فرمایا ہاں میں نے تیسری مرتبہ عرض کیا فرمایا ہاں عویمر کی ناک مٹی میں ملے۔ (30) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ” ثم یرم بریئا “ یعنی یہودی پر (تہمت لگا دی جو بری تھا) ۔ (31) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وعلمک ما لم تکن تعلم “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت کا بیان سکھا دیا حلال اور حرام کو بیان فرمایا تاکہ حجت قائم کردیں اس کے ذریعہ اپنی مخلوق پر۔ (32) ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر اور شر کا علم عطا فرمایا واللہ اعلم۔
Top