Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے پیغمبر ﷺ ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔
(105 ۔ 109) ۔ ترمذی، مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور قتادہ بن نعمان ؓ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایک صحابی قتادہ بن نعمان ؓ کی زرہ چوری جاتی رہی اور دریافت سے معلوم ہوا کہ قبیلہ بنی ظفر کے ایک شخص طعمہ بن ابیرق نے وہ ذرہ چرائی ہے طعمہ نے یہ چالاکی کی کہ وہ ذرہ ایک شخص یہودی زید بن سمین کے پاس رکھوا دی۔ اور طعمہ کی خانہ تلاشی کے وقت جب وہ ذرہ طعمہ کے گھر سے برآمد نہیں ہوئی تو طعمہ نے اسی یہودی کو چور ٹھہرا کر ذرہ کا پتہ اسی یہودی کے گھر میں ہونے کا دے دیا اور ادھر طعمہ کی قوم نے رات کو یہ مشور کیا کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جا کر طعمہ کی برأت کی گواہی ادا کی جائے چناچہ ان لوگوں نے جب گواہی ادا کردی تو ان کی گواہی کے بھروسہ پر آنحضرت ﷺ نے طعمہ کو بری اور یہودی کو چور ٹھہرا کر اس پر اصلی حال ظاہر ہوجانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں حاکم نے اس شان نزول کی روایت کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے 1 یہ آیتیں نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو خبردار کردیا کہ اگرچہ طعمہ کی چالاکی اور اس کی قوم کی جھوٹی گواہی کے سبب سے ظاہر میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ طعمہ بری ہے۔ اور یہودی چور لیکن حقیقت میں معاملہ برعکس ہے پھر فرمایا کہ ظاہری روداد کی بنا پر اے رسول اللہ کے تم نے جو طعمہ کی برأت کی بابت یہودیوں سے جھگڑا کیا وہ استغفار کے قابل ہے کیونکہ کہ چوروں کی حمایت اللہ کو پسند نہیں اس کے بعد جھوٹی گواہی پر طعمہ کی قوم کے لوگوں کو یہ تنبیہ فرمائی کہ تم لوگوں نے جھوٹی گواہی کا مشورہ تو کیا مگر اتنا نہ سوچھا کہ اللہ غیب دان ہے ظاہر و باطن اس کو سب کچھ معلوم ہے اس سے یہ جھوٹی گواہی کا مشورہ کیونکر چھپارہ سکتا ہے۔ اور جب وہ عالم الغیب اس جھوٹی گواہی کے حال سے اپنے رسول کو خبردار کردے گا تو جھوٹے گواہوں کی کس قدر رسوائی ہوگی۔ پھر یہ تو دنیا کی رسوائی ہوئی۔ دنیا میں اگر اس رسوائی سے کوئی بچ جاوے اور کسی چالاکی یا جھوٹی گواہی سے اپنے مقابل پر غالب آجائے تو قیامت کے دن اس غیب دان کے روبرو ایسے چالاکوں۔ اور جھوٹے گواہوں کا وکیل کون ہوگا جو ان کو عقبیٰ کے عذاب سے چھوڑائے گا۔
Top