Tafseer-e-Usmani - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
بیشک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھاوے تجھ کو اللہ اور تو مت ہو دغابازوں کی طرف سے جھگڑنے والاف 3
3  منافق اور ضعیف الاسلام لوگوں میں جب کوئی کسی گناہ اور خرابی کا مرتکب ہوتا تو سزا اور بدنامی سے بچنے کے لئے حیلہ گھڑتے اور آپ کی خدمت میں ایسے انداز سے اس کا اظہار کرتے کہ آپ ان کو بری سمجھ جائیں بلکہ کسی بری الذمہ کے ذمہ تہمت لگا کر اس کے مجرم بنانے میں سعی کرتے اور رل مل کر باہم مشورہ کرتے۔ چناچہ ایک دفعہ یہ ہوا کہ ایک ایسے ہی مسلمان نے دوسرے مسلمان کے گھر میں نقب دیا ایک تھیلا آٹے کا اور اس کے ساتھ کچھ ہتھیار چرا کرلے گیا۔ اس تھیلے میں اتفاقاً سوراخ تھا چور کے گھر تک راستہ میں آٹا گرتا گیا۔ چور نے یہ تدبیر کی کہ مال اپنے گھر میں نہ رکھا بلکہ رات ہی میں وہ مال لے جا کر ایک یہودی کے پاس امانت رکھ آیا جو اس کا واقف تھا۔ صبح کو مالک نے آٹے کے سراغ پر چور کو جا پکڑا مگر تلاشی پر اس کے گھر میں کچھ نہ نکلا۔ ادھر چور نے قسم کھالی کہ مجھ کو کچھ خبر نہیں آٹے کا سراغ آگے کو چلتا نظر آیا تو مالک نے اسی سراغ پر یہودی کو جا پکڑا، اس نے مال کا اقرار کرلیا کہ میرے گھر میں موجود ہے مگر میرے پاس تو رات فلاں شخص امانت رکھ گیا ہے میں چور نہیں ہوں۔ مالک نے یہ قضیہ حضرت فخر عالم محمد ﷺ کی خدمت میں پہنچایا۔ چور کی قوم اور اس کی جماعت نے اتفاق کیا کہ جس طرح ہو سکے اس پر چوری ثابت نہ ہونے دو یہودی کو چور بناؤ۔ چناچہ یہودی سے جھگڑے اور آپ کی خدمت میں چور کی برات پر قسمیں کھائیں گواہی دی۔ قریب تھا کہ یہودی چور سمجھا جائے اور مجرم قرار دیا جائے اس پر حق سبحانہ، نے متعدد آیتیں نازل فرمائیں اور حضرت محمد رسول مقبول ﷺ کو اور سب کو متنبہ فرما دیا کہ چور یہی مسلمان ہے۔ یہودی اس میں سچا اور بےقصور ہے اور ہمیشہ کے لئے ایسے لوگوں کی قلعی کھول کر سب کو متنبہ کردیا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے رسول ﷺ ہم نے اپنی سچی کتاب تجھ پر اس لئے اتاری کہ ہمارے سمجھانے اور بتلانے کے موافق تمام لوگوں میں نیک ہوں یا بد، مومن ہوں یا کافر حکم اور انصاف کیا جائے اور جو دغا باز ہیں ان کی بات کا اعتبار اور ان کی طرف داری ہرگز مت کرو اور ان کی قسم اور ان کی گواہی پر کسی بےقصور کو مجرم مت بناؤ یعنی ان دغا بازوں کی طرف ہو کر یہودی سے مت جھگڑو۔
Top