Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے پیغمبر ﷺ ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔
آیت نمبر 105 تا 112 ترجمہ : طعمہ بن اُبَْرق نے ایک زرہ چرالی تھی اور ایک یہودی کے یہاں اسے چھپا دیا تھا، وہ زرہ یہودی کے یہاں سے برآمد ہوگئی طعمہ نے زرہ کا الزام یہودی پر ڈال دیا اور قسم کھا گیا کہ میں نے زرہ نہیں چرائی ہے، طعمہ کے خاندان والوں نے آپ ﷺ سے درخواست کی کہ طعمہ کا دفاع فرمائیں اور اس کو بری قراردیدیں تو (آئندہ) آیت نازل ہوئی، یقینا ہم نے آپ پر کتاب قرآن حق کے ساتھ نازل کی ہے، بالحق، اَنزلنا کے متعلق ہے کہ اس معاملہ میں اللہ نے جو آپ کو بتادیا ہے اس کے مطابق لوگوں کا فیصلہ کریں، اور خائنوں مثلاً طعمہ کا دفاع نہ کریں اور آپ نے جو قصد کیا اس سے استغفار کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی مغفرت کرنے والا بڑا ہی رحم کرنے والا ہے، اور ان لوگوں کی وکالت نہ کریں جو اپنے حق میں خیانت کرتے ہیں (یعنی) معاصی کے ذریعہ اپنے نفسوں کے ساتھ خیانت کرتے ہیں، اسلئے کہ ان کی خیانت کا وبال خود ان کے اوپر پڑتا ہے، اللہ کسی بھی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو خائن اور گنہگار ہو، یعنی اس کو سزا دے گا، طعمہ اور اس کی قوم شرم کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے ہیں مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتے اسلئے کہ وہ ان کے ساتھ ہے، ان کے راز کو جانتا ہے، جبکہ وہ رات کو ناپسندیدہ بات کا کہ یعنی جو چوری کے انکار اور زرہ کی چوری کا الزام یہودی پر ڈالنے کا مشورہ کرتے ہیں، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا عملی احاطہ کئے ہوئے ہے تم وہ لوگ ہو یہ طعمہ کی قوم کو خطاب ہے کہ دنیا میں تو تم نے ان کی طرف سے دفاع کرلیا اور ' عنھم ' کی بجائے عنہ، بھی پڑھا گیا ہے، لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کا دفاع کون کرے گا ؟ جب ان کو عذاب دے گا، اور کون ہے جو اس کا وکیل بن کر کھڑا ہوسکے گا ؟ (یعنی) ان کے معاملہ کی کفالت کرے گا، اور ان کا دفاع کریگا، یعنی کوئی یہ کام نہ کرے گا، جو شخص کوئی برائی کرے کہ اس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے جیسا کہ طعمہ کا یہودی پر الزام لگانا، اس سے ظلم کرے کہ اسی تک محدود ہے پھر وہ اس سے استغفار کرے یعنی توبہ کرے تو وہ اللہ کو اپنے لئے بخشش کرنے والا اور اپنے اوپر رحم کرنے والا پائیگا، اور جو گناہ کرتا ہے تو وہ اپنے ہی لئے کرتا ہے اس لئے کہ اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور دوسرے کو نقصان نہیں دیتام اور اللہ بخوبی جاننے والا اور اپنی صنعت میں با حکمت ہے اور جس نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا اور پھر وہ گناہ کسی بےگناہ پر تھوپ دیا تو وہ بہت بڑے بہتان کا متحمل ہوا، اور اپنے عمل سے کھلا گناہ کیا۔ تحقیق و ترکیب تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : طُِعْمَة، بتثلیث الطاء، والکسر اشھر . قولہ : ابن اُبَیْرِق، ہمزہ مضمومہ اور باء موحدہ مفتوحہ اور راء مک سورة کے ساتھ، یہ غیر منصرف ہے۔ قولہ : وخَبَاھَا، ای الدِرْعَ درع جو کہ لوہے کی ہوتی ہے مؤنث ہے اور درع بمعنی خمار (اوڑھنی) مذکر ہے۔ قولہ : عَلَّمَکَ ، اس میں اشارہ ہے کہ رویت بمعنی علم ہے اور علم بمعنی معرفت ہے ورنہ تو متعدی بہ سہ مفعول ہونا ضروری ہے جو کہ موجود نہیں ہیں۔ قولہ : فیہِ ، کی ضمیر مَا، کی طرف راجع ہے۔ قولہ : مِمّا ھَمَمْتَ ای بقطع یدالیھودی . قولہ : بِالْمَعَاصِی، خیانت سے مراد معصیت ہے کہ اس میں طعمہ کے طرف دار شامل ہوجائیں اسلئے کہ جرم خیانت تو صرف طعمہ سے صادر ہوا تھا۔ قولہ : حَیَائً ، اس میں اشارہ ہے کہ استخفاء بمعنی حَیَاء ہے تاکہ مشاکلت ہوجائے اس لئے کہ لا یستخفون من اللہ میں استخفاء بمعنی حیاء ہے اسلئے کہ استخفاء، اللہ سے محال ہے لہٰذا اس کی نفی سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ قولہ : قُرِئَ عنہ یعنی عنھم کے بجائے عنہ بھی ایک قراءت میں پڑھا گیا ہے، ای عن طُعْمَة . قولہ : تَحَمَّلَ ، احتمل کی تفسیر تَحمَّلَ سے کی ہے اس لئے کہ تَفَعُّلْ اخذ فی الا ثم میں زیادہ مشہور ہے۔ قولہ : بَیِّناً ، اس میں اشارہ ہے کہ متعدی بمعنی لازم ہے۔ تفسیر و تشریح اِنّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الکتابَ بالحق، (الآیة) اَرَاکَ ، یہاں بتادیا، سمجھا دیا کے معنی میں ہے، کہ مذکورہ آیت اس باب میں صریح ہے کہ حیلے جو کچھ بھی کئے جائیں قرآنی قانون ہی کے مطابق کئے جائیں نہ کہ اپنی ہوائے نفس کے مطابق یا کسی انسانی دماغ کے گھڑے ہوئے آئین و دستور کے مطابق۔ نزول آیات کا پس منظر : مذکورہ سات آیات ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں، لیکن عام قرآنی اسلوب کے مطابق جو ہدایات اس سلسلہ میں دی گئی ہیں وہ اس واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے عام ہدایات ہیں جو کہ بہت سے اصول و فروع پر مشتمل ہیں۔ واقعہ کی تفصیل : انصار کے قبیلہ بنو اُبَْرِق کے ایک گھرانے میں چار بھائی تھے، بشیر، ولثر، مبشر، اور بُشَیْر، یہ چوتھا بھائی منافق تھا، بغوی اور ابن جریر کی ردایت میں اس کا نام طعمہ بتلایا گیا ہے اس نے حضرت قتادہ بن نعمان کے چچا رفاعہ ؓ کے گھر میں نقب لگا کر آٹے کی ایک بوری اور اس میں رکھی ہوئی ایک زرہ چرالی، صبح کو جب حضرت رفاعہ نے ماجرا دیکھا تو اپنے بھتیجے قتادہ کے پاس آئے اور چوری کے واقعہ کا ذکر کیا، سب نے مل کر محلہ میں جستجو شروع کی، بعض لوگوں نے بتایا کہ آج رات ہم نے دیکھا تھا کہ بنو ابیرق کے گھر میں آگ روشن تھی، ہمارا خیال ہے کہ وہی کھانا پکایا گیا ہے بنو ابیرق کو راز فاش ہونے کی خبر ملی تو خود ہی کہنے لگے کہ یہ کام لبیدبن سہل کا ہے لبید ایک مخلص اور نیک مسلمان تھے جب ان کو اس الزام کی خبر ہوئی تو وہ تلوار لے کر آئے اور کہا چوری میرے سر لگاتے ہو اب میں تلوار اس وقت تک میان میں نہ رکھونگا جب تک کہ چوری کی حقیقت معلوم نہ ہوجائے۔ بنو ابَْیرق نے آہستہ سے لبید سے کہا آپ بےفکر رہیں آپ کا نام کوئی نہیں لیتا اور نہ یہ کام آپ کا ہوسکتا ہے بغوی اور ابن جریر کی روایت میں یہ بھی ہے کہ بنو ابیرق نے چوری ایک یہودی کے نام لگادی، اور ہوشیاری یہ کی کہ آٹے کی بوری کو تھوڑا سا پھاڑ دیا جس کی وجہ سے رعافہ کے مکان سے یہودی کے گھر تک آٹا گرتا چلا گیا، ابیرق نے زرہ اور دیگر چوری کا سامان اس یہودی کے پاس رکھوا دیا، چناچہ تحقیق کے وقت مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا یہودی نے قسم کھا کر کہا کہ زرہ وغیرہ مجھے ابن ابیرق نے دی ہیں ادھر حضرت قتادہ اور رفاعہ کو مختلف قرائن سے غالب گمان ہوگیا تھا کہ یہ کاروائی بنو اُبَْیرق کی ہے، حضرت قتادہ نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر چوری کے واقعہ کی تفصیل اور بنو ابیرق کے بارے میں گمان غالب کا ذکر کردیا۔ بنو ابیرق کو جب خبر ملی آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت قتادہ اور رفاعہ کی شکایت کی کہ بلا ثبوت شرعی ہمارے اوپر چوری کا الزام لگاتے ہیں، حالانکہ مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا ہے آپ ان کو منع کریں ہمارے نام چوری نہ لگائیں، یہودی پر دعوی کریں، ظاہری حالات و آثار سے آنحضرت ﷺ کا بھی اسی طرف رجحان ہوگیا کہ یہ کام یہودی کا ہے، بغوی کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ کا ارادہ ہوگیا کہ یہودی پر چوری کی سزا جاری کریں اور اس کا ہاتھ کاٹ دیں۔ ادھر یہ ہوا کہ حضرت قتادہ جب آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ بغیر دلیل اور ثبوت کے ایک مسلمان گھرانے پر چوری کا الزام لگا رہے ہو، حضرت قتادہ اس معاملہ سے بہت رنجیدہ ہوئے اور افسوس کرنے لگے کہ کاش میں اس معاملہ میں آنحضرت ﷺ کے سامنے کوئی بات نہ کرتا اور حضرت رفاعہ کو جب آپ ﷺ کی گفتگو کا علم ہوا تو ان کو بھی تکلیف ہوئی مگر صبر کیا اور فرمایا '' وَاللہ المُسْتَعَانُ ''. اس واقعہ پر ابھی کچھ وقت نہ گذرا تھا کہ قرآن کریم کا پورا ایک رکوع اس بارے میں نازل ہوگیا جس کے ذریعہ آپ پر واقعہ کی حقیقت منکشف کر سی گئی، اور ایسے معاملات کے متعلق عام ہدایات دی گئیں۔ قرآن کریم نے بنو ابیرق کی چوری کھول دی اور یہودی کو بری کردیا تو بنو ابیرق مجبور ہوئے اور مسروقہ مال آنحضرت کی خدمت میں پیش کردیا، آپ ﷺ نے رفاعہ ؓ کو واپس دلوادیا انہوں نے یہ سب اسلحہ جہاد کے لئے وقف کردیا ادھرجب بنو ابیرق کی چوری کھل گئی تو بشیر بن ابیرق مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا، اور مشرکین سے جا کر مل گیا پہلے منافق تھا اب کھلا کافر ہوگیا، اس نے مکہ میں جا کر ایک مکان میں نقب لگایا اور دیور اس کے اوپر گرگئی اور وہیں دب کر مرگیا۔ مذکورہ واقعہ میں قرآنی اشارات : اس واقعہ سے ایک بات تو معلوم ہوئی کہ نبی کو بھی بحیثیت انسان غلط فہمی ہوسکتی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ پر صورت حال فوراً واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی خطاء اجتہادی ہوجائے تو فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔
Top