Asrar-ut-Tanzil - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ : بیشک ہم اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ (سچی) لِتَحْكُمَ : تاکہ آپ فیصلہ کریں بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ بِمَآ اَرٰىكَ : جو دکھائے آپ کو اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ تَكُنْ : ہوں لِّلْخَآئِنِيْنَ : خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے خَصِيْمًا : جھگڑنے ولا (طرفدار)
یقینا ہم نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ اللہ نے جو آپ کو بتا دیا ہے آپ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں اور آپ خیانت کرنے والوں کی طرف سے بحث نہیں کیجئے گا
رکوع نمبر 16 ۔ آیات 105 تا 112 ۔ اسرار و معارف : انا انزلنا۔۔۔ اثما مبینا۔ ہم نے آپ پر سچی کتاب نازل فرمائی ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان انصاف کریں اور اس کے مطابق کریں جو اللہ نے آپ کو بتا دیا ہے یا دکھا دیا ہے۔ سب سے پہلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ نزول قرآن ہے ہی نافذ کرنے کے لیے اور جہاں تک جس کا اختیار ہے وہاں تک اسے قرآن (اسلام) نافذ کرنا چاہئے۔ جیسے کسی کو اپنے وجود پر ہی اختیار ہے تو اپنے وجود پر تو نافذ کرے۔ اسی طرح پیر صاحبان کو مریدین پر مولوی صاحبان کو اپنے ماننے والوں پر ، کسی کو گھر پر تو کسی کو محلہ پر اور کسی کو ملک پر اختیار حاصل ہوتا ہے۔ اپنے اپنے اختیار کے مطابق ہم سب اس بات کے مکلف ہیں کہ اللہ کا قانون نافذ کریں بلکہ اس کے نزول کی ایک بہت بڑی وجہ یہی نفاذ ہے۔ اور لوگوں کے درمیان انصاف اس رائے اور معنی کے مطابق جو اللہ نے نبی رحمت ﷺ کو بتلا دئیے تھے۔ بما اراک اللہ یہ صرف نبی کا منصب ہے۔ اس لیے بعد والوں کو انہیں کے دامانِ ارشادات سے خوشہ چینی کرنا ہوگی اور آپ کبھی بھی خیانت کرنے والوں کی طرفداری مت کریں بلکہ اللہ کریم سے توبہ کریں اور معافی چاہیں۔ ہوا یہ کہ ایک قبیلہ میں جسے بنو ابیرق کہتے تھے ایک آدمی سخت منافق تھا مگر بظاہر تو مسلمان ہی بنا ہوا تھا۔ کبھی کبھی مسلمانوں کے خلاف شعر کہہ کر فرضی ناموں سے یا کسی دوسرے کے نام سے شائع کردیتا تھا۔ ایک بار ایک صحابی کے گھر سے نقب لگا کر کچھ ہتھیار اور آٹا چوری کرلیا کہ گندم کا آٹا بھی وہاں تو شام سے آتا تھا۔ اور لوگ مہمان نوازی کے لیے رکھ چھوڑتے تھے۔ جب کچھ شور ہوا تو ایک صحابی کا نام لگانے کی کوشش کی وہ بڑے خفا ہوئے اور تلوار لے کر آگئے کہ جب تک چور سامنے نہ آئے گا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ اس نے بات بگڑتی دیکھی تو ایک یہودی کا نام لگا دیا اور پہلے وہ چوری کا اسلحہ وغیرہ اسے دے دیا۔ پھر اس کے گھر سے بر آمد کروا دیا کچھ اور آثار ایسے بنائے کہ ابتداءً آپ ﷺ کو بھی اس پر شبہ ہوا مگر اللہ نے حقیقت حال واضح فرما دی۔ آپ نے یہودی کو چھوڑ دیا۔ بنو ابیرق نے مال پیش کردیا جو آپ ﷺ نے مالک کو لوٹا دیا۔ انہوں نے وہ اسلحہ راہ خدا میں دے دیا اور وہ آدمی مکہ مکرمہ بھاگ گیا مگر وہاں بھی ذلت کی موت مرا ، اور اللہ کی گرفت سے ، نہ تو دنیا میں بھاگ سکا نہ آخرت میں وہاں بھی کسی کو نقب لگائی تو وہ دیوار اوپر گر گئی اور اور دب کر ہلاک ہوا۔ تو اب ارشاد باری ملاحظہ فرمائیے کہ قرآن تو نازل ہی اس لیے ہوا ہے کہ نافذ کیا جائے اور یہ حق ہے سچی کتاب ہے پھر آپ ﷺ کا منصب عالی یہ ہے کہ قرآن کے معانی آپ پر اللہ نے بیان فرما دئیے۔ آپ کو حق حاصل ہے کہ جس معاملہ میں ابھی حکم نازل نہ ہوا ہو آپ اپنی رائے یا اجتہاد سے فیصلہ صادر فرما دیں۔ مگر حفاظتِ الہیہ اس قدر حاصل ہے کہ غلط نہیں ہوسکتا کہ فوراً آپ کو متعلقہ امور سے مطلع فرما دیا جاتا تھا۔ حدیث رسول بھی وحی الہی ہے اگرچہ غیر متلو ہے یعنی جس کے الفاظ نبی کے ہیں معافی اللہ ہی کی طرف سے اور قرآن وحی متلو ہے کہ الفاظ و معافی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ سو آپ ﷺ کو بھی حکم ہے کہ اللہ سے بخشش طلب فرمایا کیجیے۔ کہ آپ اس کے بندے تھے رسول تھے۔ اور بد دیانت لوگوں کے ساتھ نرمی کا یا طرفداری کا برتاؤ کبھی نہ کریں۔ اللہ خیانت کرنے والے بدکاروں کو کبھی پسند نہیں فرماتا۔ اگرچہ یہ سب لوگ اس طرح منافق نہ تھے مگر قبیلے کا آدمی تھا۔ اس کی طرفداری میں کوشش تو ضرور کرتے رہے جس پر اللہ نے سب کو ہی خوانا اثیما فرمایا ۔ دغا باز اور بدکار کہ جس کی حمایت کی جائے آدمی اس کا شریک جرم قرار پاتا ہے۔ فرمایا یہ برادری کا بھرم رکھنے کو لوگوں سے تو شرماتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ چور ثابت نہ ہو ورنہ خاندان کی نکٹی ہوگی۔ مگر اللہ سے کیوں نہیں شرماتے کیا اللہ اس بات کا زیادہ حقدار نہیں کہ اس سے شرم کی جائے جو تب بھی ان کے پاس موجود ہوتا ہے جب راتوں کو بیٹھ کر یہ لوگ یہ ناپسندیدہ مشورے کرتے ہیں اور ان کا کوئی عمل اللہ کی گرفت یا اس کی رسائی سے باہر تو نہیں ہے۔ چلو آج دنیا میں اگر کسی نے غلط حمایت کر بھی لی یہ تو رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی تھی ہر حاکم پر تو نزول وحی نہ ہوگا۔ اور ممکن ہے کچھ لوگ چرب زبانی سے کام لے کر حاکم کو دھوکا دے سکیں۔ مگر کل قیامت کو اللہ کے حضور کیا بنے گا وہاں کون کسی کی ناجائز طرداری کرسکے گا یا غلط وکالت کرسکے گا۔ یعنی وکالت ایک جائز پیشہ ہے مگر اس حد تک کہ کوئی شخص اپنا قانونی حق بھی بیان کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تو اجرت پر کسی کو وکیل بنا لیتا ہے جو عدالت میں یا حاکم کے سامنے اس کی طرف سے بات کرتا ہے مگر یہ بھی تب جائز ہے جب وکیل اس کے قانونی حق کے لیے لڑے اگر جھوٹ بول کر یا جھوٹ پڑھا سکھا کر عدالت کو دھوکا دیا جائے تو یہ نہ صرف حرام ہوگا بلکہ کل ایک بہت بڑی عدالت میں جوابدہی کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ کہ وہاں تو جھوٹ کی وکالت بھی نہ چل سکے گی۔ اب جو لوگ یہاں جرم میں ملوث ہوچکے ہیں یا رشتہ داری کی وجہ سے اس کی حمایت کے لیے کوشاں رہے تو گناہگار تو ہوگئے۔ ان کے لیے کیا کوئی صورت کوئی راستہ ہے فرمایا ہاں کسی نے کتنا بڑا گناہ کیا ہو یا اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ڈھایا ہو پھر بھی اللہ سے توبہ کرے تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور بخشنے والا پائے گا۔ توبہ کیا ہے گناہ پر ندامت ، گناہ کو اسی وقت چھوڑ دینے کا فیصلہ اور آئندہ کبھی اس میں ملوث نہ ہونے کا پختہ عزم۔ اب توبہ کی قبولیت یہ ہے کہ اللہ کریم نہ صرف گذشتہ گناہ معاف فرما دیتے ہیں آئندہ بچنے کی توفیق بھی ارزاں کردیتے ہیں۔ اور اگر کوئی برائی کا راستہ نہیں چھوڑ سکتا تو نہ چھوڑے اس لیے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اپنی ہی جان پر غضب ڈھا رہا ہے اور اللہ کریم سب کچھ جانتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی حکمت ہے۔ کہ کون سی بات کب ظاہر ہوگی یا کس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ بہرحال جو کوئی بھی برائی کرکے کسی دوسرے بیگناہ کے سر منڈھنا چاہے تو ایک بہت بڑا بہتان بھی ہے اور سخت ترین گناہ بھی ایسے لوگوں کی نہ حمایت کی جائے نہ وکالت جائز ہے۔
Top