Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ
: بیشک ہم
اَنْزَلْنَآ
: ہم نے نازل کیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
الْكِتٰبَ
: کتاب
بِالْحَقِّ
: حق کے ساتھ (سچی)
لِتَحْكُمَ
: تاکہ آپ فیصلہ کریں
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
بِمَآ اَرٰىكَ
: جو دکھائے آپ کو
اللّٰهُ
: اللہ
وَلَا
: اور نہ
تَكُنْ
: ہوں
لِّلْخَآئِنِيْنَ
: خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے
خَصِيْمًا
: جھگڑنے ولا (طرفدار)
(اے پیغمبر ﷺ ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے تاکہ خدا کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا۔
آیت 105 اللہ تبارک و تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس نے اپنے بندے اور رسول پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یعنی بوقت نزول اس کتاب کو شیاطین کے باطل وسوسوں سے محفوظ و مامون رکھا، بلکہ یہ کتاب عظیم حق کے ساتھ نازل ہوئی اور حق پر ہی مشتمل ہے۔ اس کی خبریں سچی اور اس کے اوامرو نواہی عدل پر مبنی ہیں۔ (وتمت کلمت ربک صدقاً وعدلاً ) (الانعام :110/6) ” اور تیرے رب کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہوئیں۔ “ اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے اس کتاب کو اس لئے نازل فرمایا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم) (النحل :33/16) ” ہم نے آپ ﷺ کی طرف قرآن نازل کیا تاکہ جو کچھ ان کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ لوگوں پر واضح کردیں۔ “ اس امر کا بھی احتمال ہے کہ یہ آیت کریمہ لوگوں کے آپس کے اختلافات اور نزاعی مسائل کے فیصلے کے بارے میں نازل ہوئی ہو اور سورة النحل کی آیت کریمہ تمام دین، اس کے اصول و فروع کی تبین کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔ نیز یہ احتمال بھی ہے کہ دونوں آیات کے معنی ایک ہی ہوں۔ تب اس صورت میں لوگوں کے درمیان یہ فیصلہ کرنا، ان کے خون، اموال، عزت و آبرو، حقوق، عقائد اور تمام مسائل و احکام کے فیصلوں کو شامل ہے۔ فرمایا : (بما ارئک اللہ) ” اللہ کی ہدایات کے مطابق “ یعنی آپ اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ نہ کریں بلکہ اس الہام اور علم کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ اس کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (وما ینطق عن الھوی، ان ھوالا وحی یوحی) (النحم :4-3/53) ” ہمارا رسول اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ یہ تو وحی ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ “ یہ آیت کریمہ اس امر کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان تمام احکام میں معصوم اور محفوظ ہیں جو آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو پہنچائے، نیز اس امر کی دلیل ہے کہ فیصلہ کرنے کے لئے علم اور عدل شرط ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (بما ارئک اللہ) ” اللہ کی ہدایات کے مطابق “ اور یہ نہیں فرمایا : (بما رایت) ” جو آپ نے دیکھا یا جو آپ کی اپنی رائے ہے “ اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کو کتاب اللہ کی معرفت پر مترتب فرمایا ہے۔ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کے مابین ایسے فیصلے کا حکم دیا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو اس لئے ظلم و جور سے منع کیا ہے جو عدل و انصاف کی عین ضد ہے۔ پس فرمایا : (ولا تکن للخآئنین خصیماً ) ” اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو “ یعنی جس کی خیانت کے بارے میں آپ ﷺ کو علم ہے کہ اس کا دعویٰ ناحق ہے یا وہ کسی کے حق کا انکار کر رہا ہے، اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کریں۔ خواہ وہ علم رکھتے ہوئے اس خیانت کا ارتکاب کر رہا ہو یا محض ظن و گمان کی بنا پر۔ آیت کریمہ کے اس حصے میں کسی باطل معاملے میں جھگڑنے اور دینی خصوصیات اور دنیاوی حقوق میں کسی باطل پسند کی نیابت کی تحریم کی دلیل ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ کسی ایسے شخص کے جھگڑے کی نیابت کرنا جائز ہے جو کسی ظلم میں معروف نہ ہو۔ (واستغفر اللہ) ” اور اللہ سے مغفرت طلب کریں۔ “ اگر آپ سے کوئی کوتاہی صادر ہوئی ہے تو اس کی بخشش طلب کیجیے۔ (ان اللہ کان غفوراً رحیماً ” بیشک اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے “ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہے اور توبہ کر کے اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کے بعد اس کو عمل صالح کی توفیق سے نوازتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ثواب کے حصول اور اس کے عقاب کے زوال کا موجب بنتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : (ولا تجادل عن الذین یختانون انفسھم) ” اور آپ ان لوگوں کی طرف سے مت جھگڑیں جو اپنے نفسوں سے خیانت کرتے ہیں “ (الاختیان) اور (الخیانۃ) جرم، ظلم اور گناہ کے معنی میں استعملا ہوتے ہیں اور اس میں اس شخص کی طرف سے جھگڑنا بھی شامل ہے جو کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہے جس میں کوئی حد یا تعزیر لازم آتی ہو۔ اس شخص سے جو خیانت وغیرہ صادر ہوئی ہے اس کی مدافعت میں یا اس کو شرعی عقوبت سے بچانے کے لئے اس کی حمایت میں جھگڑا نہ کیا جائے۔ (ان اللہ لایحب من کان خواناً اثیماً ) ” کیونکہ اللہ خائن اور مرتکب جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو نہایت کثرت سے خیانت اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ جب محبت کی نفی ہوجائے تو اس کی ضد کا اثبات ہوتا ہے اور محبت کی ضد بغض ہے۔ آیت کریمہ کی ابتدا میں مذکور ممانعت کے لئے یہ چیز تعلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ پھر ان خائن لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا : (یستخفون من الناس ولایستخفون من اللہ وھو معھم اذیبیتون مالا یرضی من القول) ” وہ لوگوں سے تو چھپ جاتے ہیں (لیکن) اللے سے نہیں چھپ سکتے اور وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے جب کہ راتوں کے وقت وہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں “ یہ ایمان کی کمزوری اور یقین کی کمی ہے کہ ان کے نزدیک مخلوق کا خوف اللہ تعالیٰ کے خوف سے بڑھ کر ہے۔ وہ مباح اور حرام ہر طریقے سے چاہتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کی فضیحت نہ ہو۔۔۔ بایں ہمہ۔۔۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس بات کی ذرہ بھر پرواہ نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے، حالانکہ وہ اپنے علم کے ذریعے سے ان کے تمام احوال میں ان کے ساتھ ہے خاص طور پر جب وہ رات کے وقت مجرم کی برأت اور بےگناہ پر جرم کے الزام کے بارے میں باتیں اور سازشیں کرتے ہیں، پھر رسول اللہ ﷺ سے اپنی ان سازشوں پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے متعدد جرائم کا ارتکاب کیا مگر انہیں اللہ کا خوف نہ آیا جو زمین و آسمان کا رب ہے، جو ان کے بھیدوں اور سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : (وکان اللہ بما یعملون محیطاً ) ” اور اللہ ان کے تمام کاموں پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے ذریعے سے ان کا احاطہ کر رکھا ہے۔ بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سزا دینے میں جلدی نہیں کی بلکہ ان کو مہلت دی ان کو توبہ کا موقع دیا اور ان کو ان گناہوں پر اصرار کرنے پر ڈرایا جو بہت بڑی سزا کے موجب ہیں۔ (ھانتم ھولآء جدلتم عنھم فی الحیوۃ الدنیا فمن یجادل اللہ عنھم یوم القیمۃ ام من یکون علیھم وکیلاً ) ” ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا اور کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہوسکے گا “ یعنی فرض کیا اس دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑ لیا، تمہاری اس حمایت نے مخلوق کے سامنے ان کو عار اور فضیحت سے بچا لیا۔ تب قیامت کے روز کون سی چیز انہیں بچائے گی اور وہ اسے کیا فائدہ دے گی ؟ اور قیامت کے روز جب حجت ان کے خلاف ہوگی، ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں پر گواہی دیں گے، کون ان کی حمایت میں بولے گا ؟ (یومئذ یوفیھم اللہ دینھم الحق ویعلمون ان اللہ ھو الحق المبین) (النور :25/23) ” اس روز اللہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی برحق اور حق کو ظاہر کرنے والا ہے۔ “ پس ان کی حمایت میں اس ہستی سے کون جھگڑے گا جو مخفی رازوں کو جانتی ہے جو ان کے خلاف ایسے گواہوں کو کھڑا کرے گی جن کے ہوتے ہوئے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوگی ؟ اس آیت کریمہ میں اس امر کے مقابلہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جو ان موہوم دنیاوی مصالح کے مابین، جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی منہیات کے ارتکاب پر مترتب ہوتے ہیں اور اس اخروی ثواب کے مابین ہوتا ہے جس سے انسان محروم یا وہاں کے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ پس جس شخص کو اس کے نفس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنے آپ سے پوچھتے ” تو نے سستی اور کوتاہی کے وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کردیا تو اس کے عوض تو نے کون سا منافع کمایا ؟ اور کتنا اخروی ثواب ہے جو تجھے حاصل ہونے سے رہ گیا ؟ اور اللہ کے حکم کو ترک کرن کے نتیجے میں کتنی بدبختی، محرومی، ناکامی اور خسارے کا سامنا کرنا پڑا ؟ اسی طرح جب اس کا نفس شہوات محرمہ کی طرف بلائے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہے ” فرض کیا جس چیز کی تو نے خواہش کی میں نے پوری کردی، اس کی لذت تو ختم ہوجائے گی مگر یہ لذت اپنے پیچھے اتنے غم و ہموم، حسرتیں، ثواب سے محرومیاں اور عذاب چھوڑ جائے گی کہ ان کا کچھ حصہ بھی عقلمند شخص کو ان لذتوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ “ یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس میں تدبر بندے کے لئے فائدہ مند ہے۔ یہی حقیقی عقل مندی کی خصوصیت ہے، اس شخص کے برعکس جو عقل مندی کا دعویٰ کرتا ہے مگر وہ عقلمند ہوتا نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے دنیا کی لذت و راحتکو ترجیح دیتا ہے خواہ اس پر کیسے ہی نتائج مرتب کیوں نہ ہوں۔۔۔ واللہ المسعان پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (ومن یعمل سوآء ویظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفوراً رحیماً ) ” اور جو شخص کوئی برا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کرلے، پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ یعنی جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت کرتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ سے ایسی مغفرت طلب کرتا ہے جو گناہ کے اقرار، اس پر یشیمانی، اس گناہ سے رک جانے اور اس گناہ کو دوبارہ نہ کرنے کے عزم کو مستلزم ہے تو ایسے ہی شخص کے ساتھ اس ہستی نے مغفرت اور رحمت کا وعدہ کیا ہے جو وعدہ خلافی نہیں کرتی۔ پس اس سے جو گناہ صادر ہوچکا ہوتا ہے وہ اس کو معاف کردیتا ہے نیز اس عیب اور نقص کو اس سے زائل کردیتا ہے جو اس گناہ پر مترتب ہوتا ہے اور اس کے سابقہ اعمال صالحہ اس کو لوٹا دیتا ہے اور مستقبل میں اسے مزید اعمال صالحہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اس کے اور اپنی توفیق کے درمیان اس کے گزشتہ گناہ کو حائل نہیں ہونے دیتا۔ کیونکہ اس نے اس گناہ کو بخش دیا ہے اور جب وہ گناہ کو بخش دیتا ہے تو وہ ہر اس چیز کو بخش دیتا ہے جو اس گناہ کے نتیجے میں مرتب ہوتی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ” براعمل “ علی الاطلاق تمام گناہوں کو، خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ہں، شامل ہے اور (سوء) ” برائی “ اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ برے عمل کے مرتکب کو اس پر مترتب ہونے والا عذاب برا لگتا ہے۔ نیز برا عمل فی نفسہ برا ہے، اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح نفس کا ظلم علی الاطلاق شرک اور اس سے کم تر ظلم وغیرہ سب کو شامل ہے، مگر ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ مقرون کیا جائے تو ہر ایک کی اس کے مناسب حال تفسیر کی جائے گی۔ یہاں برے عمل کی تفسیر ” ظلم ‘ کی جائے گی جو لوگوں کو برا لگتا ہے اور وہ ہے خون مال اور عزت و ناموس میں ان کا ایک دوسرے پر ظلم اور نفس کے ظلم کی تفسیر ” ظلم اور گناہ “ بیان کی جائے گی جس کا تعلق اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہے۔ نفس کے ظلم کو ظلم اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ انسان اپنے نفس کا مالک نہیں کہ وہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے۔ انسان کے نفس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے، اس نے یہ نفس اپنے بندے کو امانت کے طور پر عطا کر کے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اسے انصاف وعدل کی راہ پر گامزن کرے اور علم و عمل کے اعتبار سے اس سے صراط مستقیم کا التزام کروائے۔ جس چیز کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اسے سکھائے اور جو اس پر واجب ہے اس سے اس پر عمل کروائے۔ اس کے علاوہ کسی اور راستے میں اس کی سعی اور کوشش اپنے نفس پر ظلم، خیانت اس عدل کے راستے سے انحراف ہے جس کی ضد ظلم و جور ہے۔ پھر فرمایا : (ومن یکسب اثماً فانما یکسبہ علی نفسہ) ” اور جو شخص گناہ کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے “ اس میں ہر قسم کا چھوٹا بڑا گناہ شامل ہے۔ جو کوئی کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی دنیاوی اور اخروی سزا صرف اسی کے لئے ہے یہ سزا کسی اور کی طرف منتقل نہ ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ولاتزروازرۃ وزراخری) (الانعام : 163/6) ” کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ “ مگر جب برائیاں غالب آجائیں اور ان پر نکیر نہ کی جائے تو ان کا عذاب عام ہوجاتا ہے اور ان کے گناہ میں سب شامل ہوجاتے ہیں اور کوئی شخص اس آیت کے حکم سے خارج نہیں کیونکہ جو کوئی برائیوں پر نکیر نہیں کرتا جبکہ ایسا کرنا واجب ہے، تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے عدل و حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو کسی دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں دیتا اور نہ کسی کو اس کے جرم سے بڑھ کر سزا دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وکان اللہ علیماً حکیماً ) ” اور اللہ بخوبی جاننے والا، بہت حکمت والا ہے “ یعنی وہ علم کامل اور حکمت تامہ کا مالک ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا علم و حکمت ہے کہ اسے گناہ کا علم ہے اسے یہ بھی علم ہے کہ گناہ کس سے صادر ہوا۔ اس گناہ کا داعیہ کیا تھا اور اس گناہ پر کیا سزا مترتب ہوگی۔ وہ گناہ کے مرتکب کے احوال کو بھی خوب جانتا ہے کہ اگر اس سے یہ گناہ نفس امارہ کے داعیہ کے غلبہ سے صادر ہوا اور وہ اپنے اکثر اوقات میں توبہ وانابت کے ذریعے سے اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ اسے بخش دے گا اور اسے توبہ کی توفیق عطا کرے گا اور اگر اس نے اللہ تعالیٰ کی نظر کا استخفاف اور اس کے عذاب کی تحقیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی ہے تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور توبہ کی توفیق سے بہت دور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ومن یکسب خطیءۃ) ” جو شخص کبیرہ یا صغیرہ گناہ تو خود کرے “ (ثم یرم بہ) ’ د پھر اس سے کسی (بےگناہ) کو مہتمم کرے۔ “ یعنی اپنے گناہ کو کسی اور کے سر تھوپ دے (بریاء) ” جو اس گناہ سے بری ہے۔ “ خواہ اس نے کسی اور گناہ کا ارتکاب کیوں نہ کیا ہو (فقد احتمل بھتاناً واثما مبیناً ) ” تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا اور کھلا گناہ کیا “ یعنی اس نے بےگناہ پر لگائے گئے بہتان کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھا لیا اور اس ظاہری گناہ کا بوجھ بھی جس کا اس نے ارتکاب کیا۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ بہتان ہلاک کرنے والے کبائر میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ اس میں متعدد مفاسد جمع ہیں : (1) گناہ کبیرہ کا ارتکاب (2) پھر اس گناہ کا بہتان اس شخص پر لگا دینا جو بےگناہ ہے۔ (3) پھر اپنے آپ کو بےگناہ اور بےگناہ کو گناہ گار ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولنا (4) پھر اس گناہ پر جو دنیاوی عقوبت مترتب ہوتی ہے وہ عقوبت ایک بےگناہ پر نافذ کرا دینا اور خود کو سزا سے بچا لینا حالانکہ وہ حقیقی مجرم ہے۔ (5) پھر بےگناہ شخص کے بارے میں لوگوں کی باتیں اور یدگر مفاسد۔ ان تمام مفاسد اور ہر ایک شر سے ہم اللہ تعالیٰ کی عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول پر اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے آپ کو ان لوگوں کے ارادوں سے محفوظ رکھا جو آپ کو گمراہ کرنا چاہتے تھے۔ (ولولا فضل اللہ علیک و رحمتہ لھمت طآئفۃ منھم ان یضلوک) ” اگر اللہ کا فضل و رحم آپ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے آپ کو بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا “ ان آیات کریمہ کے بارے میں اصحاب تفسیر ذکر کرتے ہیں کہ ان کا سبب نزول یہ ہے کہ ایک گھران نے مدینہ میں چوری اکا ارتکاب کیا۔ جب چوری کی اطلاع لوگوں کو ہوئی تو انہوں نے نضیحت اور رسوائی سے ڈرتے ہوئے چوری کا سامان کسی بےگناہ شخص کے گھر پھینک دیا۔ پھر چور نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے مدد طلب کی کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر لوگوں کے سامنے اسے بری کروائیں۔ اس کے قبیلہ والوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے آدمی نے چوری نہیں کی۔ چوری تو اس شخص نے کی ہے جس کے گھر سے مسروقہ سامان برآمد ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے آدمی کو بری قرار دینے کا ارادہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے حقیقت حال بیان کرنے اور رسول اللہ ﷺ کو خیانت کا روں کی حمایت کرنے سے بچانے کے لئے یہ آیات نازل فرمائیں کیونکہ باطل پسندوں کی حمایت کرنا گمراہی ہے۔ گمراہی کی دو اقسام ہیں۔ (1) علم میں گمراہی، یہ حق سے لاعلمی اور جہالت کا نام ہے۔ (2) عمل میں گمراہی، عمل واجب کے خلاف عمل کرنا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس نوع کی گمراہی سے اسی طرح محفوظ رکھا جس طرح اس نے آپ ﷺ کو عمل کی گمراہی سے محفوظ و مصون رکھا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ ان کا مکر و فریب انہی کی طرف لوٹے گا جیسا کہ ہر فریبی کے ساتھ ہوتا ہے۔ چناچہ فرمایا : (وما یضلون الا انفسھم) ” وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں “ کیونکہ اس فریب اور حیلہ سازی سے انہیں اپنا مقصد حاصل نہ ہوسکا اور انہیں سوائے ناکامی، محرومی، گناہ اور خسارے کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول ﷺ پر بہت بڑی نعمت ہے جو نعمت عمل کو متضمن ہے اور یہ اس فعل کی توفیق ہے جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے اور ہر قسم کے محرمات سے آپ ﷺ کی حفاظت ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر اپنی نعمت علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ) ” اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نالز فرمائی ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر قرآن عظیم اور ذکر حکیم نازل فرمایا جس میں ہر چیز کا بیان اور اولین و آخرین کا علم ہے۔ حکمت سے مراد یا تو سنت ہے جس کے بارے میں سلف میں سے کسی کا قول ہے کہ سنت بھی رسول اللہ ﷺ پر وحی کے ذریعے سے نازل ہوتی ہے جیسے قرآن نازل ہوتا ہے یا اس سے مراد اسرار شریعت کی معرفت ہے جو احکام شریعت کی معرفت سے زائد چیز ہے، نیز اس سے مراد تمام اشیاء کو ان کے اپنے اپنے مقام پر رکھنا اور ہر شے کو اس کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ فرمایا : (وعلمک مالم تکن تعلم) ” اور آپ کو وہ (کچھ) سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے “ یہ ان تمام امور کو شامل ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطا فرمایا۔ ورنہ نبوت سے قبل آپ ﷺ کے جو احوال تھے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ما کنت تدری ما الکتب ولا الایمان) (الشوری :52/72) ” آپ نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ “ اور فرمایا : (ووجدک ضآلاً فھدی) (الضحی :8/93) ” اور اس نے آپ کو رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا راستہ دکھایا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی طرف وحی بھیجتا رہا، آپ کو علم سکھاتا رہا اور آپ کے علم کی تکمیل کرتا رہا یہاں تک کہ آپ ﷺ علم کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اولین و آخرین وہاں تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ علی الطلاق مخلوق میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے، صفات کمال کے سب سے زیادہ جامع اور ان صفات میں سب سے زیادہ کامل تھے بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وکان فضل اللہ علیک عظیماً ) ” اللہ کا آپ پر بڑا بھاری فضل ہے “ اللہ تعالیٰ کا فضل مخلوق میں سب سے زیادہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کی ہرجنس سے آپ ﷺ کو نوازا ہے جن کی تہہ تک پہنچنانا ممکن اور ان کو شمار کرنا آسان نہیں۔
Top