Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 105
اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىكَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاۙ
اِنَّآ
: بیشک ہم
اَنْزَلْنَآ
: ہم نے نازل کیا
اِلَيْكَ
: آپ کی طرف
الْكِتٰبَ
: کتاب
بِالْحَقِّ
: حق کے ساتھ (سچی)
لِتَحْكُمَ
: تاکہ آپ فیصلہ کریں
بَيْنَ
: درمیان
النَّاسِ
: لوگ
بِمَآ اَرٰىكَ
: جو دکھائے آپ کو
اللّٰهُ
: اللہ
وَلَا
: اور نہ
تَكُنْ
: ہوں
لِّلْخَآئِنِيْنَ
: خیانت کرنیولے (دغا باز) کے لیے
خَصِيْمًا
: جھگڑنے ولا (طرفدار)
بیشک ہم نے اتاری تیری طرف کتاب سچی کہ تو انصاف کرے لوگوں میں جو کچھ سمجھادے تجھ کو اللہ اور تو مت ہو دغا بازوں کی طرف سے جھگڑنے والا
خلاصہ تفسیر
بیشک ہم نے آپ کے پاس یہ کتاب بھیجی (جس سے) واقع کے موافق (حال معلوم ہوگا) تاکہ آپ (اس واقعہ میں) ان لوگوں کے درمیان اس کے موافق فیصلہ کریں جو کہ اللہ تعالیٰ نے (وحی کے ذریعہ سے) آپ کو (اصل حال) بتلا دیا ہے (وہ وحی یہ ہے کہ واقع میں بشیر چور ہے اور قبیلہ بنو ابیرق جو اس کے حامی ہیں کاذب ہیں) اور (جب اصل حال معلوم ہوگیا تو) آپ ان خائنوں کی طرف داری کی بات نہ کیجئے (جیسا بنو ابیرق کی اصل خواہش یہی تھی چناچہ دوسرے رکوع میں آتا ہےلھمت طآئفة منھم ان یضلوک مگر آپ نے ایسا کیا نہ تھا، خود اسی جملہ سے آپ کا اس پر عمل نہ کرنا بھی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس کا حاصل یہ ہے کہ فضل الہی نے غلطی سے بچا لیا جس میں ہر غلطی کی نفی ہوگئی اور منع فرمانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فعل ماضی میں واقع ہوچکا ہو، بلکہ اصل فائدہ منع کا یہ ہے کہ آئندہ کے لئے حقیقت حال سے آگاہ کر کے اس کے کرنے سے روکتے ہیں، پس آپ کی حالت اور نہی کے مجموعہ کا حاصل یہ ہوگا کہ کہ جیسے اب تک طرفداری نہیں کی آئندہ بھی نہ کیجئے اور یہ انتظامات بھی مکمل نبی کو معصم رکھنے کے لئے ہیں اور آیت میں سب کو خائن کہا حالانکہ خائن سب نہ تھے، اس لئے کہ جو لوگ خائن نہ تھے وہ بھی خائن کی اعانت کر رہے تھے اس لئے وہ خائن ٹھہرے) اور (لوگوں کے کہنے سے حسن ظن کے طور پر آپ نے جو بنا بیرق کو دیندار سمجھ لیا ہے، گو ایسا سمجھنا گناہ تو نہیں، لیکن چونکہ اس میں یہ احتمال تھا کہ آپ کے اتنا فرما دینے سے اہل حق اپنا حق چھوڑ دیں گے، چناچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت رفاعہ خاموش ہو کر بیٹھ رہے، لہذا یہ کام نامناسب ہوا، اس لئے اس سے) آپ استغفار فرمایئے (کہ آپ کی شان عظیم ہے اتنا امر بھی آپ کے لئے قابل استغفار ہے) بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے مغفرت کرنے والے بڑے رحمت والے ہیں اور آپ ان لوگوں کی طرف سے کوئی جواب دہی کی بات نہ کیجئے (جیسا وہ لوگ آپ سے چاہتے تھے) جو کہ (لوگوں کی خیانت اور نقصان کر کے باعتبار وبال و ضرر کے درحقیقت) اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو نہیں چاہتے (بلکہ اس کو مبغوض رکھتے ہیں) جو بڑا خیانت کرنیوالا بڑا گناہ کرنیوالا ہو (جیسا کہ تھوڑے خیانت کرنے والے کا بھی محبوب نہیں رکھتے، لیکن چونکہ بشیر کا بڑا خائن ہونا بتلانا مقصود ہے، اس لئے یہ صیغہ مبالغہ کا لایا گیا) جن لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ (اپنی خیانت کو) آدمیوں سے تو (شرما کر) چھپاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے نہیں شرماتے، حالانکہ وہ (مثل ہر وقت کے) اس وقت (بھی) ان کے پاس ہے جب کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف گفتگو کے متعلق تدبیریں کیا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے سب اعمال کو اپنے (علمی) احاطہ میں لئے ہوئے ہیں ہاں (جو بشیر وغیرہ کی حمایت میں بعض اہل محلہ جمع ہو کر آئے تھے وہ سن لیں کہ) تم ایسے ہو کہ تم نے دنیوی زندگی میں تو ان کی طرف سے جواب دہی کی باتیں کرلیں سو (یہ بتلاؤ کہ) اللہ تعالیٰ کے روبرو قیامت کے دن ان کی طرف سے کون جوابدہی کرے گا یا وہ کون شخص ہوگا جو ان کا کام بنانے والا ہوگا (یعنی نہ کوئی زبانی جواب دہی کرسکے گا نہ کوئی عملی درستگی مقدمہ کی کرسکے گا) اور (یہ خائنین اگر اب بھی توبہ موافق قاعدہ شرعیہ کے کرلیتے تو معافی ہوجاتی کیونکہ ہمارا قانون یہ ہے کہ) جو شخص کوئی (متعد) برائی کرے یا (صرف) اپنی جان کا ضرر کرے (یعنی) ایسا گناہ نہ کرے جس کا اثر دوسروں تک پہنچتا ہے اور) پھر اللہ تعالیٰ سے (حسب قاعدہ شرعیہ) معانی چاہے (جس میں بندوں کے حقوق کو ادا کرنا یا ان سے معاف کرانا بھی داخل ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا پائے گا اور (ضرور گنہگاروں کو اس کی کوشش کرنا چاہئے کیونکہ) جو شخص کچھ گناہ کا کام کرتا ہے تو وہ فقط اپنی ذات ہی کے لئے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے علم والے ہیں (سب کے گناہوں کی ان کو خبر ہے) بڑے حکمت والے ہیں (مناسب سزا تجویز فرماتے ہیں) اور (یہ تو خود گناہ کرنے کا انجام ہوا اور جو کہ دوسروں پر تہمت لگا دے اس کا حال سنو کہ) جو شخص کوئی چھوٹا گناہ کرے یا بڑا گناہ پھر (بجائے اس کے کہ خود ہی توبہ کرلینا چاہئے تھی اس نے یہ کام کیا کہ) اس (گناہ) کی تہمت کسی بےگناہ پر لگا دی اس نے تو بڑا بھاری بہتان اور صریح گناہ اپنے (سر کے) اوپر لاد لیا (جیسا بشیر نے کیا کہ خود تو چوری کی اور ایک نیک بخت بزرگ آدمی لبید کے ذمہ چوری کی تہمت رکھ دی) اور اگر (اس مقدمہ میں) آپ پر (اے محمد ﷺ اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہو (جو کہ ہمیشہ آپ پر رہتا ہے) تو ان چالاک) لوگوں میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی ہی میں ڈال دینے کا ارادہ کرلیا تھا (لیکن خدا کے فضل سے ان کی رنگ آمیز باتوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہ ہوگا، چناچہ فرماتے ہیں) اور وہ (کبھی آپ کو) غلطی میں نہیں ڈال سکتے، لیکن (ارادہ سے) اپنی جانوں کو (مبتلائے گناہ اور عذاب کے اہل بنا رہے ہیں) اور آپ کو ذرہ برابر (اس قسم کا) ضرر نہیں پہنچا سکتے اور (آپ کو غلطی سے ضرر پہنچانا کب ممکن ہے جب کہ) اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور علم کی باتیں نازل فرمائیں (جس کے ایک حصہ میں اس قصہ کی اطلاع بھی دیدی) اور آپ کو وہ (مفید اور عالی) باتیں بتلائی ہیں جو آپ (پہلے سے) نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔
معارف و مسائل
ربط آیات
۔ اوپر ظاہری کفار کے معاملات کے ضمن میں چند جگہ منافقین کا ذکر آیا ہے کہ کفر دونوں میں یکساں ہے، آگے بھی بعض منافقین کے ایک خاص قصہ کے متعلق مضمون مذکور ہوتا ہے (بیان القرآن)
آیات کا شان نزول۔
مذکورہ سات آیات ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں، لیکن عام قرآنی اسلوب کے مطابق جو ہدایات اس سلسلہ میں دی گئی وہ مخصوص اس واقعہ کے ساتھ نہیں بلکہ تمام موجودہ اور آئندہ آنے والے مسلمانوں کے لئے عام اور بہت اصولی اور فروعی مسائل پر مشتمل ہیں۔
پہلے واقعہ معلوم کیجئے پھر اس سے متعلقہ ہدایات اور ان سے نکلنے والے مسائل پر غور کیجئے، واقعہ یہ ہوا کہ مدینہ میں ایک خاندان بنو ابیرق کے نام سے معروف تھا، ان میں سے ایک شخص جس کا نام ترمذی اور حاکم کی روایت میں بشیر ذکر کیا گیا ہے اور بغوی اور ابن جریر کی روایت میں طعمہ نام بتلایا گیا ہے اس نے حضرت قتادہ بن نعمان کے چچا رفاعہ ؓ کے گھر میں نقب لگا کر چوری کرلی۔
ترمذی کی روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ شخص درحقیقت منافق تھا، مدینہ میں رہتے ہوئے بھی صحابہ کرام کی توہین میں اشعار لکھ کر دوسروں کے ناموں سے ان کی اشاعت کیا کرتا تھا۔
اور چوری کی صورت یہ ہوئی کہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں تمام مسلمان فقر و فاقہ کے ساتھ تنگی سے بسر اوقات کرتے تھے اور ان کی عام خوراک جو کا آٹا تھا یا کھجوریں یا گیہوں کا آٹا جو بہت کم میسر تھا اور مدینہ میں ملتا بھی نہ تھا، ملک شام سے جب آتا تو کچھ لگ مہمانوں کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے لئے خرید لیا کرتے تھے، حضرت رفاعہ نے اسی طرح کچھ گیہوں کا آٹا خرید کر ایک بوری میں اپنے لئے رکھ لیا، اسی میں کچھ اسلحہ وغیرہ بھی رکھ کر ایک چھوٹی کوٹھڑی میں محفوظ کردیا، ابن ابیرق، بشیر، یا طعمہ نے اس کو بھانپ لیا، تو نقب لگا کر یہ بوری نکال لی، حضرت رفاعہ نے جب صبح کو یہ ماجرا دیکھا تو اپنے بھتیجے قتادہ کے پاس آئے اور واقعہ چوری کا ذکر کیا، سب نے مل کر محلہ میں تفتیش شروع کی، بعض لوگوں نے بتایا کہا آج رات ہم نے دیکھا کہ بنو ابیرق کے گھر میں آگ روشن تھی، ہمارا خیال ہے کہ وہی کھانا پکایا گیا ہے، بنو ابیرق کو جب راز فاش ہونے کی خبر ملی تو خود آئے اور کہا کہ یہ کام لبید بن سہل کا ہے، حضرت لبید کو سب جانتے تھے کہ مخلص مسلمان اور نیک بزرگ ہیں ان کو جب یہ خبر ہوئی تو وہ تلوار کھینچ کر آئے اور کہا کہ چوری میرے سر لگاتے ہو اب میں تلوار اس وقت تک میان میں نہ رکھوں گا جب تک چوری کی حقیقت واضح نہ ہوجائے۔
بنو ابیرق نے آہستہ سے کہا کہ آپ بےفکر رہیں آپ کا نام کوئی نہیں لیتا، نہ آپ کا یہ کام ہوسکتا ہے، لغوی اور ابن جریر کی روایت میں اس جگہ یہ ہے کہ بنو ابیرق نے چوری ایک یہودی کے نام لگائی اور ہوشیاری یہ کی کہ آٹے کی بوری کو تھوڑا سا پھاڑ دیا تھا جس سے آٹا گرتا رہا اور رفاعہ کے مکان سے یہودی مذکور کے مکان تک اس آٹے کے آثار پائے گئے شہرت ہونے کے بعد چوری کیا ہوا اسلحہ اور زر ہیں بھی اس یہودی کے پاس رکھوا دیں اور تحقیق کے وقت اسی کے گھر سے برآمد ہوئیں، یہودی نے قسم کھائی کہ زرہیں مجھے ابن ابیرق نے دی ہیں۔
ترمذی کی روایت اور بغوی کی روایت میں تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ بنو ابیرق نے اولا چوری کو لبید بن سہل کے نام لگایا ہو، پھر جب بات بنتی نظر نہ آئی تو اس یہودی کے سر ڈالا ہو، بہرحال اب معاملہ یہودی اور بنو ابیرق کا بن گیا۔
ادھر حضرت قتادہ اور رفاعہ کو مختلف صورتوں سے یہ گمان غالب ہوگیا تھا کہ یہ کارروائی بنو ابیرق کی ہے، حضرت قتادہ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر چوری کا واقعہ اور بسلسلہ تفتیش بنو ابیرق پر گمان غالب کا ذکر کردیا،
بنو ابیرق کو خبر ملی تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت رفاعہ اور قتادہ کی شکایت کی کہ بلا ثبوت شرعی چوری ہمارے نام لگا رہے ہیں حالانکہ مسروقہ مال یہودی کے گھر سے برآمد ہوا ہے، آپ ان کو روکئے کہ ہمارے نام نہ لگائیں، یہودی پر دعویٰ کریں۔
ظاہری حالات و آثار سے آنحضرت ﷺ کا بھی اسی طرف رجحان ہوگیا کہ یہ کام یہودی کا ہے، بنو ابیرق پر الزام صحیح نہیں، یہاں تک کہ بغوی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارادہ ہوگیا کہ یہودی پر چوری کی سزا جاری کردی جائے اور اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔
ادھر جب حضرت قتادہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آپ بغیر دلیل اور ثبوت کے ایک مسلمان گھرانے پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں، حضرت قتادہ اس معاملہ سے بہت رنجیدہ ہوئے، اور افسوس کیا کہ کاش میں اس معاملہ میں آنحضرت ﷺ کے سامنے کوئی بات نہ کرتا، اگرچہ میرا مال بھی جاتا رہتا اسی طرح حضرت رفاعہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا ارشاد فرمایا تو انہوں نے بھی صبر کیا اور کہاواللہ المستعان
اس معاملہ پر کچھ وقت نہ گزرا تھا کہ قرآن کریم کا ایک پورا رکوع اس بارے میں نازل ہوگیا جس کے ذریعہ رسول کریم ﷺ پر واقعہ کی حقیقت منکشف کردی گی اور ایسے معاملات کے متعلق عام ہدایات دی گئیں۔
قرآن کریم نے بنوا بیرق کی چوری کھول دی اور یہودی کو بری کردیا تو بنو ابیرق مجبور ہوئے اور مال مسروقہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا، آپ نے رفاعہ ؓ کو واپس دلایا اور انہوں نے اب سب اسلحہ کہ جہاد کے لئے وقف کردیا، ادھر بنو ابیرق کی چوری کھل گئی تو بشیر بن ابیرق مدینہ سے بھاگ کر مکہ چلا گیا اور مشرکین کے ساتھ مل گیا، اگر وہ پہلے سے منافق تھا تو اب کھلا کافر ہوگیا اور اگر پہلے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا۔
تفسیر بحر محیط میں ہے کہ اللہ اور رسول کی مخالفت کے وبال نے بشیربن ابیرق کو مکہ میں بھی چین سے نہ رہنے دیا، اسی طرح پھرتے پھرتے آخر اس نے ایک اور شخص کے مکان میں نقب لگائی، تو دیوار اس کے اوپر گر گئی، اور وہیں دب کر مر گیا۔
یہاں تک تو واقعہ کی پوری تفصیل تھی، اب اس کے متعلق قرآنی ارشادت پر غور کیجئے۔:
پہلی آیت میں آنحضرت ﷺ کو چوری کے واقعہ کی اصل حقیقت بتلا کر ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن اور وحی اسی لئے نازل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو علم و معرفت آپ کو عطا فرمایا ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں اور خائنوں کی یعنی بنوا بیرق کی طرف داری نہ کریں اور اگرچہ ظاہری حالات اور قرائن کی بناء پر چوری کے معاملہ میں یہودی کی طرف آپ کا رجحان کوئی گناہ نہ تھا مگر تھا تو واقعہ کے خلاف،
آنحضرت ﷺ کو اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا۔ انا انزلنا الیک الکتب بالحق الخ اس آیت سے پانچ مسائل ثابت ہوئے، ایک تو یہ کہ آنحضرت ﷺ کو ایسے مسائل میں جن میں قرآن کریم کی کوئی نص صریح وارد نہ ہو اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا حق حاصل تھا، اور مہمات کے فیصلوں میں آپ بہت سے فیصلے اپنے اجتہاد سے بھی فرماتے تھے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اجتہاد رائے وہی معتبر ہے جو قرآنی اصول اور نصوص سے ماخوذ ہو، خالص رائے اور خیال معتبر نہیں اور نہ اس کو شریعت میں اجتہاد کہا جاسکتا ہے۔
تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کا اجتہاد دوسرے ائمہ، مجتہدین کی طرح نہ تھا، جس میں غلطی اور خطاء کا احتمال ہمیشہ باقی رہتا ہے، بلکہ جب آپ کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے فرماتے تو اگر اس میں کوئی غلطی ہوجاتی تو حق تعالیٰ اس پر آپ کو متنبہ فرما کر آپ کے فیصلہ کو صحیح اور حق کے مطابق کرا دیتے تھے اور جب آپ نے کوئی فیصلہ اپنے اجتہاد سے کیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے خلاف کوئی چیز نہ آئی تو یہ علامت اس کی تھی کہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کو پسند اور اس کے نزدیک صحیح ہے۔
چوتھی بات یہ معلم ہوئی کہ نبی کریم ﷺ جو کچھ قرآن سے سمجھتے تھے وہ اللہ تعالیٰ ہی کا سمجھایا ہوا ہوتا تھا، اس میں غلط فہمی کا امکان نہ تھا، بخلاف دوسرے علماء و مجتہدین کے کہ ان کا سمجھا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بتلایا ہے، جیسا کہ اس آیت میں حضور ﷺ کے متعلق بما آرئک اللہ وارد ہے، اسی وجہ سے جب ایک شخص نے فاروق اعظم ؓ سے یہ کہا فاحکم بما اراک اللہ تو آپ نے اس کو ڈانٹا کہ یہ خصوصیت آنحضرت ﷺ کی ہے۔
پانچواں مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ جھوٹے مقدمہ اور جھوٹے دعویٰ کی پیروی یا وکالت کرنا یا اس کی تائید و حمایت کرنا سب حرام ہے۔
Top