Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
سو (اے پیغمبر) جیسا تم کو حکم ہوتا ہے (اس پر) تم اور جو لوگ تمہارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہو۔ وہ تمہارے (سب) اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
112۔ 113۔ اگرچہ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب ٹھہرایا ہے لیکن اس حکم میں آپ کی کل امت اول سے آخر تک سب شامل ہے حکم یہ ہے کہ جو کچھ اللہ کا حکم ہوا ہے اس پر قائم رہو یہ آیت جب اتری تو حضرت ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ مستعد ہوجاؤ مستعد ہوجاؤ اور پھر آپ کو کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا یہی وہ آیت ہے جس سے شرح کے کل احکام نکلتے ہیں کیونکہ حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح پر حکم ہوا ہے اس پر جمے رہو کسی طرح کی کمی بیشی نہ ہونے پائے اور جن باتوں سے منع کیا گیا ہے ان سے بچتے رہو اور جن کاموں کا حکم کیا گیا ہے ان پر مستعدی سے عمل کرتے رہو ذرا بھی فرق نہ ہونے پائے یہی وہ حکم ہے جس سے کوئی حکم الٰہی سخت نہیں ہے کیوں کہ بالکل حکم کے مطابق کرنا سوائے معصوم دل انبیاء کے دوسرے سے دشوار ہے اسی بنا پر رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سورت ہود نے بوڑھا کردیا۔ اس حکم کے بعد اللہ جل شانہ نے حد سے بڑھنے کو منع فرمایا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جس امر کا حکم ہوا ہے اس کو بڑھا کرنا جیسے روزہ رکھنے کا حکم سارے دن کا ہے اس میں یوں حد سے بڑھا جاوے کہ رات کو بھی روزہ رکھا جائے یا افطار کے وقت سے دیر کر کے روزہ افطار کیا جائے تو یہ طغیان ہوجائے گا پھر طغیان کرنے والوں کے لئے یہ حکم ہوا ہے کہ اللہ تمہارے عملوں کو دیکھ رہا ہے وہ اس کا ویسا ہی بدلہ دے گا۔ پھر یہ حکم ہوا کہ ظالم اور مشرکوں سے میل جول نہ رکھو اگر ایسا کرو گے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلائے گی ظلموا کی تفسیر میں بھی اختلاف ہے بعضے کہتے ہیں کہ حضرت کے زمانہ کے جو مشرک تھے انہیں کے ساتھ میل جول نہ رکھنے کا حکم ہوا ہے اور بعضے کہتے ہیں کہ ہر ظالم اس میں داخل ہے خواہ مسلمان ہو خواہ کافر و مشرک کسی سے بھی میل نہ کرو اگر تم ظالموں کا ساتھ دو گے تو اللہ کی مدد تم میں سے اٹھ جاوے گی کیوں کہ اللہ ظلم کو دوست نہیں رکھتا اور جب اللہ کی مدد اٹھ گئی تو پھر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر مشرکوں اور یہود کا ذکر فرمایا کہ ان آیتوں میں مسلمانوں کو شریعت الٰہی کے سیدھے راستہ پر قائم اور ثابت قدم رہنے اور مشرکوں اور یہود کی عادتوں سے بچنے کا حکم فرمایا ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ ہر مسلمان وحدانیت کا اقرار کر کے پھر اس پر ثابت قدم رہے کوئی بات ظاہری شرک یا ریاکاری کی ایسی نہ کرے جس سے اس اقرار میں فرق آجاوے اور اس اقرار کو سچا کرنے کے لئے نیک عملوں میں حتیٰ المقدور لگا رہے کیوں کہ شریعت میں نیک عمل آدمی کے نیک ہونے کی نشانی قرار دی گئی ہیں چناچہ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے حضرت علی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ علم الٰہی میں جو شخص نیک ٹھہر چکا ہے وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسا ہی کام بھی کرتا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری ؓ کی بڑی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا جن لوگوں کو خالص دل سے وحدانیت الٰہی کا اقرار ہے اور اس اقرار کو سچا کرنے کے لئے ان لوگوں نے کچھ نیک عمل نہیں کئے تو ایسے لوگ دوزخ سے یوں نکلیں گے کہ سب شفاعتوں کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کرے گا 1 ؎۔ ہر ایمان دار شخص کو دوزخ سے بچنے کے لئے نیک عمل میں لگے رہنے کی جس قدر ضرورت ہے وہ اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے صحیح مسلم میں سفیان بن عبد اللہ ثقفی سے روایت ہے جس میں سفیان ؓ کہتے ہیں میں نے آنحضرت ﷺ سے کہا حضرت مجھ کو دین میں کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر مجھ کو کچھ پوچھنے کی ضرورت باقی نہ رہے آپ نے فرمایا دین میں خالص دل سے جن باتوں کے ماننے کا حکم ہے ان باتوں کو مان کر پھر اس پر قائم اور ثابت قدم رہو 2 ؎ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قول ہے کہ دین پر ثابت قدم رہنے کا یہ مطلب ہے کہ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے وقت آدمی نے جن باتوں کا عہد کیا مرتے دم تک آدمی اس پر قائم 3 ؎ رہے یہ حدیث اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا قول ان دونوں آیتوں کی تفسیر ہے جس سے دینداری کی باتوں پر چلنے اور بےدینی کی باتوں سے بچنے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے کہ دین اور دین پر قائم رہنا کیا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 1107 ج 2 باب وجوہ یومئذ ناصزۃ الی ربہا ناظرۃ ومشکوٰۃ ص 49 باب الحوض و الشفاعۃ۔ 2 ؎ مشکوٰۃ ص 12 کتاب الایمان۔ 3 ؎ مستدرک ص 440 ج تفسیر سورة حم السجدہ۔
Top