Ruh-ul-Quran - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
پس ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہیں) جنھوں نے آپ کے ساتھ توبہ کی ہے اور سرکشی نہ کرو۔ بیشک جو کچھ تم کررہے ہو وہ اسے خوب دیکھ رہا ہے
فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْا ط اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْر۔ وَلاَ تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ لا وَمَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 112، 113) (پس ثابت قدم رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ بھی (ثابت قدم رہیں) جنھوں نے آپ کے ساتھ توبہ کی ہے اور سرکشی نہ کرو۔ بیشک جو کچھ تم کررہے ہو وہ اسے خوب دیکھ رہا ہے اور ان لوگوں کی طرف نہ جھکو جنھوں نے ظلم کیا ہے کہ تمہیں بھی دوزخ کی آگ آپکڑے اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حامی نہیں، پھر تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی۔ ) جادہ مستقیم پر استقامت کی ہدایت اس آیت کریمہ میں بنی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے۔ مخالفین کی اذیت رسانیوں کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے منہ زور اور خونخوار دشمنوں کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ نہ ان کی زبانوں پر کوئی روک ہے، نہ ان کی آنکھوں میں حیا ہے، نہ ان کے دلوں میں کوئی لحاظ و مروت ہے۔ وہ تمام رشتوں کو بھول کر دشمنی پر کمرہمت باندھ چکے ہیں۔ غریب صحابہ کو بطورخاص نشانہ بنایا جارہا ہے اور تپتی ہوئی ریت پر انھیں گھسیٹا جاتا ہے اور کبھی دہکتے انگاروں پر لٹایا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جبکہ مقابلے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو اور برداشت کرنا بھی آسان نہ ہو۔ ایسے حالات میں استقامت کا حکم دینا بجائے خود بہت بڑا امتحان ہے۔ اللہ کے آخری نبی جو اللہ کے حبیب بھی ہیں اور بےانتہا رفعتوں کے مالک بھی۔ سب سے پہلے انھیں حکم دیا جارہا ہے اور اس میں اتنی کمی بھی نہیں چھوڑی جارہی کہ آپ حالات کو دیکھ کر اپنا رویہ متعین کریں بلکہ صاف فرمایا جارہا ہے کہ جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسی راستے پر چلتے رہنا، انھیں مقامات پر کھڑے رہنا اور اپنے عقائد میں کوئی اضمحلال پیدا نہ ہونے دینا اور کسی طرح کا کوئی سمجھوتہ کرنے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ سب باتیں استقامت کے برعکس ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب ( رض) نے مختصر الفاظ میں نہایت خوبصورتی سے اس کا مفہوم واضح فرمایا ہے۔ آپ نے کہا ! الَاِسْتِقَامَۃَ اَنْ تَسْتَقِیْمَ عَلٰی الْاَمْرُوالْنَہِیْ وَلاَ تَرُوْغُ رُوْغَانَ الثَّعْلَبِ کہ استقامت یہ ہے کہ تو اللہ کے اوامرو نواہی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا رہے اور لومڑی کی طرح پینترے نہ بدلے۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ( رض) استقامت کا نمونہ ہیں۔ آپ نے مکی زندگی میں 13 سال اور مدنی زندگی میں 10 سال کفر کے مقابلے میں جس طرح استقامت دکھائی ہے وہ تاریخ کا نہایت قابل فخر کارنامہ ہے۔ آپ کو ایک اکھڑ اور اجڈ قوم سے واسطہ پڑا جو اپنے معتقدات کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ کرتی تھی۔ آپ نے نہ صرف ان کی گمراہیوں پر تنقید کی بلکہ ان کی ایک ایک غلط بات اور غلط عقیدے کو ہدف تنقید بنایا۔ ان کی ہر طرح کی مخالفت کو برداشت کیا۔ حتیٰ کہ معاملہ قتل کی منصوبہ بندی تک پہنچ گیا لیکن آپ کے ارادوں میں کبھی ضعف پیدا نہ ہوا۔ صحابہ کرام نے بھی اسی طرح اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرتے ہوئے مشکل سے مشکل مرحلوں کو طے کیا۔ کلمہ حق کہنے میں انھوں نے کبھی کسی مخالفت یا اذیت کی پرواہ نہ کی۔ انھوں نے زندگی کا ہر دکھ اٹھایا لیکن اعلائے کلمۃ الحق پر کبھی آنچ نہ آنے دی۔ آنحضرت ﷺ کو تو صرف استقامت کا حکم دیا لیکن صحابہ کرام کو اس کے ساتھ ساتھ سرکشی اختیار نہ کرنے کا حکم دیا۔ اس لیے استقامت کا حکم واحد مذکر حاضر کی صورت میں آیا اور صحابہ کو اس حکم میں عطف کے ذریعے شامل کیا گیا لیکن سرکشی اختیار نہ کرنے کا حکم جمع کی صورت میں دیا تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ اس میں آنحضرت ﷺ شریک نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کو سرکشی کی اجازت ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے آپ کو معصوم پیدا فرمایا۔ اس لیے سرکشی کا آپ سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن نئے نئے ایمان لانے والے لوگ جو صحابہ کرام ہی کہلاتے ہیں ان سے اس بات کا اندیشہ ہوسکتا تھا کہ ان میں کبھی کوئی کمزوری پیدا ہوجاتی اور وہ جب حالات کو ناموافق دیکھتے اور اذیتوں کو ناقابل برداشت سمجھتے تو ممکن تھا ان کے اندر نفسانیت سر اٹھا لیتی اور کبھی نہ کبھی سرکشی کی نوبت آجاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تربیت نے صحابہ میں وہ کردار پیدا فرما دیا تھا اور ان کے دلوں میں انقیاد اور اطاعت کا وہ جذبہ پیدا ہوگیا تھا جس کے بعد سرکشی تو کیا نافرمانی کو بھی جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ لیکن تربیتی مراحل میں چونکہ ہر بات کا اندیشہ ہوتا ہے اور پھر آئندہ بھی انھیں احکام کو قیامت تک امت کے لیے مشعل راہ بننا تھا۔ اس لیے یہ حکم قرین تربیت تھا بلکہ تربیت کا تقاضا تھا اور ساتھ ہی یہ فرمایا کہ اس بات کو کبھی نہ بھولنا کہ جو کچھ تم کررہے ہو اللہ برابر اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کی نگاہ کبھی چوکتی نہیں اور نہ اسے کبھی اونگھ آتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے کہ جب دل و دماغ میں اتر کر عقیدے کی مضبوط بن جاتا ہے تو پھر وہ تقویٰ کی قوت پیدا ہوتی ہے جو انسان کو ہمیشہ راہ راست پر رہنے کی ضمانت دیتی ہے۔ دوسری آیت کریمہ میں مزید ایک بات کا حکم دیا گیا ہے اور اس حکم کے مخاطب بھی آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے لوگ ہیں۔ جس طرح اللہ سے سرکشی ایک بہت بڑا جرم ہے اسی طرح دشمن کی طرف جھک جانا اور اس کی طرف مائل ہوجانا بھی مشکل حالات میں اسلامی قوت کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ یہ سورت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں اسلام کے پاس خطرناک حد تک افرادی قوت کی کمی تھی۔ دشمن ہر قیمت پر ایمان کا راستہ روکنے کی کوشش کررہا تھا۔ ایسے حالات میں چھوٹی سے کمزوری بھی برے نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ ایسی کمزوریوں کا آغاز ہمیشہ ایسی ہی باتوں سے ہوتا ہے۔ مشکل حالات میں کھڑے رہنے کے لیے ایک مضبوط جذبے کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں آدمی کا جھکائو دشمن کی طرف ہوجائے وہاں مقابلہ تو دور کی بات ہے، عہد وفا کے شکست ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اور سمجھدار دشمن ہمیشہ ایسے موقعوں کی تلاش میں ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ہمیں نہایت رواداری کا حکم دیا گیا ہے لیکن فرعونِ وقت کے ساتھ جب تصادم شدت اختیار کرجائے تو پھر لب و لہجہ میں وہی کاٹ ہونی چاہیے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لب و لہجہ میں تھی۔ اس لیے قرآن کریم نے شدید رویہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تمہارا جھکائو اعدائے دین کی طرف ہوگیا تو اندیشہ ہے کہ تمہیں آگ نہ آپکڑے، یعنی تمہارا انجام بھی وہی ہو۔ ایسی صورت میں پھر کوئی تمہارا حامی و مددگار نہیں ہوگا اور نہ تم مدد کیے جاؤ گے۔
Top