Al-Quran-al-Kareem - Hud : 112
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْا١ؕ اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
فَاسْتَقِمْ : سو تم قائم رہو كَمَآ : جیسے اُمِرْتَ : تمہیں حکم دیا گیا وَمَنْ : اور جو تَابَ : توبہ کی مَعَكَ : تمہارے ساتھ وَلَا تَطْغَوْا : اور سرکشی نہ کرو اِنَّهٗ : بیشک وہ بِمَا : اس سے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
پس تو ثابت قدم رہ، جیسے تجھے حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جنھوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے اور حد سے نہ بڑھو، بیشک وہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب دیکھنے والا ہے۔
فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكًَ : ”فَاسْتَقِمْ“ میں سین اور تاء کا اضافہ یا تو طلب کے لیے ہے، معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح سیدھا اور قائم رہنے کی درخواست کرتا رہ جس طرح تجھے حکم دیا گیا ہے اور یہ اضافہ مبالغے اور تاکید کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ قرطبی نے فرمایا، استقامت دائیں یا بائیں طرف جائے بغیر ایک طرف کو سیدھے چلتے چلے جانا ہے۔ یہ معنی یہاں زیادہ مناسب ہے۔ پہلا معنی بھی درست ہے اور اس پر عمل کرتے ہوئے ہی ہم ہر رکعت میں صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ استقامت کا معنی باطل کے دونوں کناروں افراط اور تفریط (زیادتی اور کمی) سے بچ کر ان کے عین درمیان سیدھا رہنا ہے۔ یہ نہایت مشکل کام ہے۔ پہلے تو ہر وقت اس کا خیال رکھنا ہی مشکل ہے کہ عین صحیح راستہ کیا ہے ؟ پھر اس پر قائم رہنا اس سے بھی مشکل ہے۔ رازی نے اسے ایک مثال سے سمجھایا ہے کہ دھوپ اور چھاؤں کے درمیان ایک جگہ ہے۔ اس کا معلوم کرنا اور ہر وقت اس کا خیال رکھنا کس قدر مشکل ہوگا۔ اس لیے اہل علم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جو فرمایا تھا : (شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ) [ ترمذی : 3297] ”مجھے سورة ہود نے بوڑھا کردیا۔“ اس کا سبب انبیاء ؑ کی قوموں پر عذاب کے واقعات کے بجائے یہ حکم ہے : (فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ) ”فَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ“ سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ جس پر خوب ثابت رہنے کا حکم ہے، صرف وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی طرف وحی فرمایا۔ یہاں استقامت کا حکم نبی ﷺ اور ان تمام لوگوں کو ہے جو کفر سے توبہ کر کے آپ کے ساتھ اہل ایمان میں داخل ہوئے، مگر سب کو کس چیز پر استقامت کا حکم ہے، صرف اس پر جسے ”فاستقم“ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ یعنی صرف اس پر جس کا حکم نبی ﷺ کو دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ کی طرف سے امر صرف نبی ﷺ کو ہوا ہے، آپ کے سوا ابوبکر ؓ سے لے کر امت کے آخری شخص تک ایک بھی شخص ایسا نہیں جو مامور من اللہ ہو اور جسے وحی کے ذریعے سے حکم ملتا ہو۔ آپ ﷺ کے سوا ایک شخص بھی ایسا نہیں جس کی رائے اللہ کا حکم یا دین ہو، جس پر امت کو قائم رہنے کا حکم ہو۔ اس سے تمام تقلیدی گروہوں کا استقامت سے ہٹ جانا ثابت ہوا۔ نجات چاہتے ہیں تو تمام لوگوں کی رائے، قیاس اور تقلیدی گروہ بندی چھوڑ کر صرف کتاب و سنت کو لازم پکڑنا ہوگا۔ استقامت (اللہ کے حکم پر پوری طرح قائم رہنا) ایک نہایت جامع لفظ ہے، جس میں پوری شریعت آجاتی ہے۔ عقائد میں اللہ کی صفات پر اس طرح ایمان جس طرح اس نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نہ کسی صفت کا انکار کرنا (تعطیل) ، نہ اسے مخلوق کی صفات جیسا سمجھنا (تشبیہ) بلکہ جیسا اللہ کی شان کے لائق ہے۔ اعمال میں نہ کسی حکم پر عمل چھوڑنا (نافرمانی) اور نہ آپ ﷺ سے آگے بڑھنا یا آپ سے الگ راستہ نکالنا (رہبانیت اور بدعت)۔ اخلاق میں، مثلاً نہ بخل کرنا نہ بےجا خرچ کرنا۔ غرض ہر چیز میں عین نبی ﷺ کا صحیح راستہ معلوم کرکے اس پر قدم بہ قدم چلنا استقامت ہے۔ سفیان بن عبداللہ ثقفی ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ مجھے اسلام میں کوئی ایسی بات بتلائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے ؟ فرمایا : (قُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) ”کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر خوب ثابت قدم رہ۔“ [ مسلم، الإیمان، باب جامع أوصاف الإسلام : 38 ] استقامت کے اجر اور فضیلت کے لیے دیکھیے سورة حٰم السجدہ (30) اور احقاف (13)۔ وَلَا تَطْغَوْا : ”طَغٰی یَطْغَی طُغْیَانًا“ حد سے بڑھنا، یعنی شریعت کی اطاعت کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جو حدیں مقرر کردی ہیں اپنے آپ کو انھی کے اندر رکھو، ان سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرو۔ زندگی کے کسی معاملے میں بھی ان سے تجاوز حرام ہے۔ انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ تین آدمی نبی ﷺ کی بیویوں کے گھروں کی طرف آئے۔ وہ نبی ﷺ کی عبادت کے بارے میں پوچھ رہے تھے، جب انھیں بتایا گیا تو گویا انھوں نے اسے کم سمجھا اور کہنے لگے : (وَأَیْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ قَدْ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ وَمَا تَأَخَّرَ ، قَالَ أَحَدُھُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّيْ أُصَلِّي اللَّیْلَ أَبَدًا، وَ قَالَ آخَرُ أَنَا أَصُوْمُ الدَّھْرَ وَلاَ أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلاَ أَتَزَوَّجُ أَبَدًا، فَجَاءَ إِلَیْھِمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَ کَذَا ؟ أَمَا وَاللّٰہِ ! إِنِّيْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ لٰکِنِّيْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ ، وَ أُصَلِّيْ وَأَرْقُدُ ، وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ) [ بخاری، النکاح، باب الترغیب في النکاح : 5063 ] ”ہماری رسول اللہ ﷺ سے کیا نسبت ؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے پہلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔“ ان میں سے ایک نے کہا : ”میں تو ہمیشہ رات بھر نماز پڑھوں گا۔“ دوسرے نے کہا : ”میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا۔“ تیسرے نے کہا : ”میں عورتوں سے نکاح نہیں کروں گا۔“ جب رسول اللہ ﷺ آئے تو آپ نے فرمایا : ”تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے ؟ یاد رکھو، اللہ کی قسم ! میں تم سب سے زیادہ اللہ کی خشیت رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں، لیکن میں تو روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا اور نماز پڑھتا ہوں اور سو بھی جاتا ہوں اور میں عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، تو جو شخص میری سنت (میرے طریقے) سے بےرغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں۔“ رہے روزانہ ایک ہزار رکعتیں پڑھنے والے، چالیس سال تک عشاء اور فجر ایک وضو سے پڑھنے والے، بارہ سال بھوکے جنگل میں عبادت کرنے والے حضرات، تو یا تو صاف ان پر جھوٹ باندھا گیا ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں، یا پھر وہ اسی طغیانی کا شکار تھے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ (نعوذ باللہ) اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ : یعنی استقامت اختیار کرو یا طغیانی، اللہ تعالیٰ تمہارا عمل سب دیکھ رہا ہے۔
Top