Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ (ہماری) کتاب کو زور سے پکڑو رہو اور ہم نے ان کو لڑکپن میں دانائی عطا فرمائی تھی
12۔ 14۔ مطلب کو مختصر کرنے کے لیے یہاں اتنی عبادت کو حذف کردیا گیا ہے کہ زکریا ( علیہ السلام) کو یحییٰ (علیہ السلام) کے پیدا ہونے کی خوشخبری جو دی گئی تھی اس کے موافق یحییٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور حضرت عبداللہ بن ؓ عباس کے قول کے موافق جب سات برس کی عمر کو پہنچ گئے تو ان کو یہ حکم ہوا کہ اے یحییٰ توریت کے احکام کے موافق تم خود بھی مستعدی سے عمل کرو اور بنی اسرائیل کو بھی ان احکام کا پابند رکھو اگرچہ اس میں اختلاف ہے کہ کتنی عمر میں یحییٰ (علیہ السلام) کو احکام توریت کے موافق عمل کرنے کا حکم ہوا لیکن ترمذی میں سبرہ بن معبد جہینی کی صحیح حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جب لڑکا سات برس کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو نماز کی تاکید کرو 1 ؎ اس صحیح حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سات برس کی عمر میں لڑکا اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کو احکام شرع کا پابند کیا جاسکتا ہے۔ حنانا کے معنے اکثر سلف نے رحمتہ کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے زکریا (علیہ السلام) کو صاحب اولاد کیا اور پھر یحییٰ (علیہ السلام) کو چھوٹی عمر میں نبوت دی بعضے سلف نے حنانا کے معنے شوق کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کو نیک کام کا شوق دیا تھا ترجمہ میں بھی یہی قول لیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کے معنے یہاں پاکیزگی کے ہیں قتادہ کے قول کے موافق جس کا مطلب یہ ہے کہ یحییٰ (علیہ السلام) عمر بھر ہر طرح کے گناہوں سے پاک رہے آگے اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کی یہ تعریف فرمائی کہ وہ پرہیزگار اور ماں باپ کے فرمانبردار تھے کسی طرح کی جبرو زیادتی یا بےحکمی ان کی عادت میں نہ تھی سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ پیدا ہونے والے دن عالم ارواح سے دنیا میں آنے اور مرنے والے دن قبر کی تنہائی کی اور حشر کے دن اس دن کی سختیوں کی انسان کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے فرمایا کہ یحییٰ (علیہ السلام) ان تینوں دن کی پریشانی سے امن میں ہیں نبی بن کر پیدا ہوئے شہید ہو کر مرے اور اسی حال میں حشر کے دن اٹھیں گے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنی فرما نبرداری کے ساتھ کئی جگ ماں باپ سے اچھی طرح پیش آنے کا ذکر فرمایا ہے جس سے ماں باپ کا رتبہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے اسی واسطے صحیح مسلم کو ابوہریرہ ؓ کی روایت میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ یا ان دونوں میں سے ایک کو زندہ پاوے اور پھر ان کی خدمت کر کے اس کے اجر میں جنت نہ حاصل کرے تو ایسا شخص بڑا بدنصیب ہے 2 ؎۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ ؓ سے دوسری رویت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کا برتاؤ کرے گا اس کی نیکیاں چھین کر قیامت کے دن مظلوموں کو دے دی جائیں گی 3 ؎۔ ان آیتوں میں تعریف کے طور پر اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ یحییٰ (علیہ السلام) کی کسی پر ظلم و زیادتی کرنے کی عادت نہ تھی اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا میں جو لوگوں اس عادت کے پابند نہیں وہ قیامت کے دن اپنی نیکیاں ہاتھ سے کھو بیٹھیں گے۔ 1 ؎ جامع ترمذی ص 54 ج اباب ماجاء متی یومر الصبی بالصلوٰۃ۔ 2 ؎ صحیح مسلم ص 314 ج 2 باب تقدیم برالو الدین الخ۔ 3 ؎ مشکوٰۃ ص 435 باب الظلم۔
Top