Ruh-ul-Quran - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو، ہم نے اس کو بچپن ہی میں قوت فیصلہ عطا فرمائی تھی۔
یٰـیَحْیٰی خُذِالْکِتٰبَ بِقُـوَّۃٍ ط وَاٰ تَیْنٰـہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَزَکٰوۃً ط وَکَانَ تَقِیًّا۔ وَّبَرًّا م بِوَالِدَیْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا۔ (مریم : 12، 13، 14) (اے یحییٰ ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو، ہم نے اس کو بچپن ہی میں قوت فیصلہ عطا فرمائی تھی۔ اور سوز و گداز اور پاکیزگی بخشی تھی اپنی جناب سے اور وہ نہایت پرہیزگار تھا۔ اور وہ والدین کا فرمانبردار تھا اور وہ سرکش اور نافرمان نہ تھا۔ ) کتاب تھامنے کا حکم حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جب سنِ رُشد کو پہنچے تو آپ ( علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ آپ ( علیہ السلام) مضبوطی سے کتاب کو تھا میں۔ کتاب سے مراد تورات ہے کیونکہ یہی کتاب انجیل کے نزول تک اہل کتاب کے لیے رہنمائی کا فرض انجام دیتی رہی ہے۔ خود حضرت یحییٰ پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی۔ مضبوطی سے تھامنے کا مطلب یہ تھا کہ شیطان اور اس کے اولیاء آپ ( علیہ السلام) کو اس کتاب سے برگشتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ آپ ( علیہ السلام) اس کتاب پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو قدم قدم پر آپ ( علیہ السلام) کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں گی۔ آپ ( علیہ السلام) کی طبیعت کو اس طرف سے ہٹانے کی تدبیریں کی جائیں گی لیکن آپ ( علیہ السلام) کا کام یہ ہے کہ آپ ان تمام موانع کے باوجود اس کتاب سے اپنا رشتہ مضبوط رکھیں۔ دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ جب آپ پر لوگوں کی اصلاح کا فریضہ عائد کیا جائے اور اس کتاب کی تبلیغ و دعوت آپ کی ذمہ داری ٹھہرے تو آپ اس کو نہایت مضبوطی اور توانائی کے ساتھ انجام دیں۔ چناچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو نبوت عطا فرمائی تو آپ ( علیہ السلام) نے کتاب اللہ کا حق ادا کرتے ہوئے ملک کے گوشے گوشے اور دورافتادہ صحرائوں اور دشوار گزار پہاڑوں میں جا جا کر لوگوں کو پیغامِ حق سنایا۔ خود درویش منش ہوتے ہوئے قوم کے ہر چھوٹے بڑے طبقے کے گریبان پر ہاتھ ڈالا۔ بڑے سے بڑے آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ بدکردار لوگوں کو بڑی سختی سے جھنجوڑا، بگڑے ہوئے علماء کو درشت لہجے میں خطاب کیا۔ فرمایا ” کہ اے سانپ کے بچو ! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو، پس توبہ کے موافق حل لائو اور اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہام ہمارا باپ ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا ان پتھروں سے ابراہام کے لیے اولاد پیدا کرسکتا ہے اور اب درخت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے۔ پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ (متی باب 3، آیت 7 تا 10) آپ ( علیہ السلام) کی دعوت صرف عوام تک محدود نہ تھی بلکہ شاہی دربار بھی آپ ( علیہ السلام) کی حق گوئی اور نعرہ حق سے لرزہ براندام تھے۔ بادشاہِ وقت ہیرودیس نے اپنے بھائی فلپ کی منکوحہ بیوی ہیر ودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے اس کو برملا جا کر کہا کہ اپنے بھائی کی بیوی کو رکھنا تیرے لیے روا نہیں۔ انجیل مرقس کی چند آیات ہم یہاں نقل کررہے ہیں اسے ملاحظہ فرمائیں۔ ” پس ہیرودیاس اس سے دشمنی رکھتی تھی اور چاہتی تھی کہ اسے قتل کرائے مگر نہ ہوسکا کیونکہ ہیرودیس یوحنا کو راست باز اور مقدس آدمی جان کر اس سے ڈرتا اور اسے بچائے رکھتا تھا اور اس کی باتیں سن کر بہت حیران ہوجاتا تھا مگر سنتا خوشی سے تھا اور موقعہ کے دن جب ہیرودیس نے اپنی سالگرہ میں اپنے امیروں اور فوجی سرداروں اور گلیل کے رئیسوں کی ضیافت کی۔ اور اسی ہیرودیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیرودیس اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا جو چاہے مجھ سے مانگ، میں تجھے دوں گا اور اس سے قسم کھائی کہ جو تو مجھ سے مانگے گی اپنی آدھی سلطنت تک تجھے دوں گا اور اس نے باہر جا کر اپنی ماں سے کہا کہ میں کیا مانگوں ؟ اس نے کہا : یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر۔ وہ فی الفور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اس سے عرض کی میں چاہتی ہوں کہ تو یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مجھے منگوا دے۔ بادشاہ بہت غمگین ہوا اور اپنی قسموں اور مہمانوں کے سبب سے اس سے انکار کرنا نہ چاہا۔ پس بادشاہ نے فی الفور ایک سپاہی کو حکم دے کر بھیجا کہ اس کا سر لائے۔ اس نے جا کر قیدخانہ میں ان کا سر کاٹا اور ایک تھال میں لا کر لڑکی کو دیا اور لڑکی نے اپنی ماں کو دیا۔ (مرقس باب 6، آیت 19 تا 28) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) نے کتاب کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کی تبلیغ و دعوت کا حق ادا کرنے کے فرض کی انجام دہی میں اپنا سر کٹوا دیا، لیکن اپنی ذمہ داری پر آنچ نہیں آنے دی۔ حکم کا مفہوم اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جو پر خصوصی عنایات فرمائی ہیں ان میں سے چند ایک کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے اور بعض عنایات کا ذکر یہاں فرمایا جارہا ہے۔ ان میں سے پہلی عنایت یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) کو حکم سے نوازا گیا۔ حکم سے مراد وہ قوت و صلاحیت ہے جس سے آدمی حق و باطل، خیر و شر اور حسن و قبح میں فرق کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور وہ قوت فیصلہ ہے جس سے وجہ سے جب آدمی کسی چیز کے بارے اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ صحیح یہ ہے تو پھر اس کے فیصلہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی اور کوئی بہکاوا اور کوئی دبائو اسے فیصلہ کرنے سے مانع نہیں ہوتا۔ حنان کا مفہوم دوسری اللہ تعالیٰ کی عنایت آپ ( علیہ السلام) پر یہ ہوئی کہ آپ ( علیہ السلام) کو حنان عطا فرمایا گیا۔ حنان اس سوز و گداز اور قلب و روح کی اس رقت کو کہتے ہیں جس سے حیوانی صفات پر قابو پانے اور انسانی صفات کو توانائی دینے میں مدد ملتی ہے۔ یہی درحقیقت انسانیت کا سرمایہ ہے۔ جو شخص قلب کے سوز و گداز سے محروم ہے وہ انسان ہوتے ہوئے بھی کبھی حیوان ہوتا ہے اور کبھی درندہ بن جاتا ہے اور مزید آپ ( علیہ السلام) کو دل و دماغ کی پاکیزگی عطا فرمائی۔ یہ پاکیزگی دراصل قلب و دماغ کے سوز کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہ وہ پاکیزگی ہے جس کے بعد عقل، عقلِ سلیم بن جاتی ہے اور قلب، قلبِ منیب ہوجاتا ہے۔ اور خواہشات کے جھاڑ جھنکار کو ایسی آگ لگتی ہے کہ ہر غلط چیز جل کے بھسم ہوجاتی ہے اور آدمی اپنے پروردگار سے یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے : ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی راہِ خدا کے سالکوں کو یہ صفات اور فضائل پیدا کرنے کے لیے نہ جانے کیسی کیسی محنتیں کرنی پڑتی ہیں۔ لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اس عظیم سرمایہ کے پیدائشی طور پر وارث ٹھہرائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ انھیں اپنی جناب سے عطا فرمایا۔ چناچہ ان صفات کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنے ظاہری اعمال اور اخلاق و کردار میں بھی نہایت پرہیزگار اور متقی تھے۔ ان کا باطن تو مجلا تھا ہی، ان کا ظاہر بھی دنیوی آرائشوں سے پاک تھا۔ ان کے اتقاء اور دنیوی خواہشوں سے دور رہنے کا حال یہ تھا کہ انھوں نے زندگی بھر دنیا کی کسی چیز سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ ایسے عقاب تھے جنھوں نے اپنا آشیانہ تک نہیں بنایا۔ جنگل میں چلے جاتے اور جنگلی شہد اور ٹڈیوں سے اپنی بھوک مٹاتے۔ وہ اونٹ کے بالوں کی پوشاک پہنتے اور چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھے رہتے تھے۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ ” توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آگئی ہے۔ “ (متی : 2۔ 3) وہ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے۔ باوجود اس کے کہ انھوں نے اپنے والدین پر کوئی بار نہیں ڈالا۔ مائیں اپنے بچوں کی تخلیق کے لیے نو مہینوں تک کیسی جانکاہی سے گزرتی ہیں لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے ان کی والدہ محترمہ کو یہ تکلیف بھی اٹھانا نہ پڑی اور پھر ماں باپ دونوں بچے کی تربیت کے لیے کیسی کیسی صعوبتیں اٹھاتے ہیں لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے ان فرائض سے بھی گراں بار نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے وہ خوبیاں ان کے اندر پیدا کردیں جو تربیت کے مسلسل عمل سے بھی شاید پیدا نہ ہوں۔ جَبَّارٌ اور عَصِیٌ کی وضاحت ان کی زندگی ایسے اوصاف کا مجموعہ تھی جن میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے اور انھیں جمع کرنے کے لیے انتہا کا ضبط نفس درکار ہے مثلاً ایک طرف تو وہ بادشاہوں کے درباروں میں پہنچ کر انھیں ان کی فاسقانہ حرکتوں پر آزادانہ ٹوکتے تھے اور بڑے سے بڑے آدمی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے لیکن دوسری طرف حال یہ تھا کہ نہایت مسکینی اور درویشی کی زندگی گزارتے تھے جس میں نہ اچھی غذا کا دخل تھا اور نہ کسی اچھے لباس کا۔ ایسے متضاد اوصاف کا جمع کرلینا ان کے لیے اس لیے ممکن تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے تھے۔ شریعتِ خداوندی کے سامنے اپنی ذات کی نفی کرچکے تھے۔ اس لیے کسی قسم کے گناہ اور نافرمانی کا سایہ بھی ان کی زندگی پر نہیں پڑا تھا۔ ایسے اوصاف کا حامل شخص صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اہل دنیا کے نام نہاد عہدہ و منصب سے وہ کبھی خوف نہیں کھاتا۔ ایسی طبیعت کا لازمی اقتضاء یہ ہونا چاہیے کہ وہ عام انسانوں کے لیے سخت گیر اور جابر ثابت ہو کیونکہ جو طاقتور کو خاطر میں نہیں لاتا وہ ضرور کمزوروں پر جبر کرتا ہے لیکن حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا حال یہ تھا کہ وہ مسکینوں کے سامنے انتہائی مسکین اور ظالموں کے سامنے انتہائی طاقتور تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ نہ وہ جبار تھے اور نہ وہ نافرمان تھے۔
Top