Tafseer-e-Majidi - An-Najm : 85
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ لے لو اور ہم نے ان کو بچپن میں حکم دے دیا
1:۔ ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یحییٰ خذ الکتب بقوۃ “ یعنی سنجیدگی سے کتاب کو لیجئے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “ یعنی ان کو ہم نے بچپن ہی میں فہم عطا فرمایا۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” خذالکتب بقوۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ عمل کرو جو اس میں فرائض میں سے ہیں۔ 3:۔ ابن منذر نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ہم نے عکرمہ ؓ سے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے عقلمندی۔ 4:۔ ابونعیم، ابن مردویہ اور دیلمی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “ کے بارے میں فرمایا کہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو فہم اور عبادت دی گئی جبکہ آپ سات سال کے تھے۔ 5:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “ کے بارے میں فرمایا کہ آپ تین سال کے تھے آپ کو دانائی عطا کی گئی۔ 6:۔ احمد نے زہد میں ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے معمر بن راشد (رح) سے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ لڑکوں نے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) سے کہا چلئے ہمارے ساتھ کھیلئے تو انہوں نے فرمایا ہم کھیل کے لئے پیدا نہیں کئے گئے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قول ہے (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “۔ اس کو ابن عساکر نے معاذ بن جبل ؓ سے مرفوع نقل کیا ہے۔ 7:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے معمر کے طریق سے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لڑکے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا میں کھیل کے لئے نہیں پیدا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “۔ 8:۔ حاکم نے تاریخ میں سہل بن سعید کے طریق سے ضحاک سے اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لڑکوں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے کہا ہمارے ساتھ چلئے تو یحییٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہم کو کھیل کے لئے پیدا نہیں کیا گیا چلو ہم نماز پڑھیں اس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” واتینہ الحکم صبیا “۔ 9:۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے بالغ ہونے پہلے قرآن پڑھا تو اس کو بچپن ہی میں دانائی دے دی گئی۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے موقوفا بھی روایت کیا ہے۔ 11:۔ عبدالرزاق، فریابی، ابن ابی شیبہ، عبدبن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، زجاجی نے امالی میں حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عکرمہ کے طریق سے (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابن عباس ؓ نے (آیت) ” وحنانا “ کے بارے میں فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا ہے مگر میں گماں کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر رحمت کے ساتھ توجہ فرماتا ہے۔ 12:۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وحنانا “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ 13:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحنانا من لدنا “ یعنی ہماری طرف سے رحمت ہے۔ 14:۔ طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے (آیت) ” وحنانا من لدنا “ کے بارے میں پوچھا فرمایا ہماری طرف سے رحمت مراد ہے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے طرفتہ العبد البکری کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا : ابا منذر افنیت فاستبق بعضنا حنانیک بعض الشبراھون من بعض ترجمہ : اے ابو منذر تو نے فنا کردیا پس ہمارے بعض افراد نے تیری رحمت کی طرف جلدی کی بعض شبر بعض سے آسان ہوتے ہیں۔ 15:۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحنانا من لدنا “ کہ اس کے رب کی طرف سے ان پر مہربانی کرتے ہوئے۔ 16:۔ عبدبن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحنانا من لدنا “ سے مراد ہے رحمت۔ 17:۔ عبد بن حمید نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحنانا من لدنا “ یعنی یہ رحمت ہے ہماری طرف سے ہمارے علاوہ اس کی عطا کا کوئی مالک نہیں۔ 18۔ حکیم ترمذی نے سعید جہنی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وحنانا من لدنا “ میں ” الحنان “ سے مراد بہت زیادہ محبت کرنے والا۔ 19:۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” وحنانا من لدنا “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ رحمت ہے ہمارے پاس سے ” وزکوۃ “ سے مراد ہے صدقہ۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وزکوۃ “ سے مراد ہے برکت (آیت) ” وکان تقیا “ یعنی (گناہوں سے) پاک (کبھی) گناہ نہیں کیا۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے سفیان بن عیینہ (رح) سے (آیت) ” وکان تقیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ کبھی اس نے نافرمانی نہیں کی اور نہ اس کا ارادہ کیا۔ 22:۔ عبدالرزاق احمد نے زہد میں عبد بن حمید ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے (آیت) ” ولم یکن جبارا عصیا “ کے بارے میں روایت کیا کہ سعید بن مسیب (رح) کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کسی آدمی سے ملاقات نہیں کرے گا جس سے غلطی ہوئی ہوگی سوائے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے، قتادہ ؓ اور حسن دونوں حضرات نے کہا ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) نے کبھی گناہ نہیں کیا اور نہ کبھی آپ نے کسی عورت کو ارادہ کیا۔ 23:۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ’ ’ ذکر رحمت ربک عبدہ زکریا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر رحمت کے ساتھ فرمایا جب بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا (آیت) ” اذ نادی ربہ ندآء خفیا “ یعنی اپنے رب سے دعا فرمائی ” ندآء خفیا “ رات کے وقت جبکہ کوئی اور سننے والا نہ تھا یا انہوں نے اپنے کانوں کو بھی نہ سنائی (آیت) ” رب انی وھن العظم منی “ یعنی میری ہڈیاں ضعیف ہوگئیں (آیت) ” واشتعل الراس شیبا “ یعنی سفیدی غالب آئی سیاہی پر (آیت) ” ولم اکن بدعآءک ربک شقیا “ اے میرے رب میں نے جب بھی تجھ سے دعا کی تو نے کبھی میری دعا کو رد نہیں فرمایا تو نجے کبھی مجھے نامراد نہیں لوٹایا جس طرح میں نے کبھی زمانہ ماضی میں نامراد نہیں لوٹا اسی طرح آئندہ بھی ناکامی اور نامرادی نہیں دیکھنا چاہتا تو نے مجھے اپنی دعا کی قبولیت کا عادی بنادیا ہے۔ (آیت) ” وانی خفت الموالی من ورآءی “ کہ میرا کوئی وارث نہیں رہا اور میں ڈرتا ہوں غصہ سے کہ وہ میرا وارث نہ بن جائے (آیت) ” فھب لی من لدنک ولیا “ یعنی اپنے پاس سے ایک لڑکا عطا فرما یعنی جو میرے محراب میرے عصا میری ٹوپی اور میری قلم کا وارث بنے اور میرا قلم کہ جس سے میں وحی لکھتا ہوں۔ (آیت) ” ویرث من ال یعقوب “ (یعنی نبوت کا وارث) (آیت) ” واجعلہ رب رضیا “ یعنی وہ بچہ ایسا ہو جو تیرے نزدیک پسندیدہ ہو اور پاک رہنے والا ہو اچھے عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اس وقت آپ اور آپ کی بیوی بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے اس درمیان کہ آپ محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے جہاں آپ قربانیاں ذبح کرتے تھے اچانک ایک آدمی آیا اس پر سفید لباس تھا اور وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے پھر فرمایا (آیت) ” رضیا (6) یزکریا انا نبشرک بغلم اسمہ یحییٰ “ یعنی یحییٰ اور یہ نام ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ” حی “ سے مشتق کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا اپنے عرش کے اوپر (آیت) ” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ یحییٰ سے پہلے زکریا کے کسی بیٹے کا نام نہیں رکھا گیا (آیت) ” ھل تعلم لہ سمیا “ کیا تم ان کا کوئی بیٹا جانتے ہو اور اس سے پہلے زکریا کی اولاد نہیں تھی اور یحییٰ سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا اور فرمایا حضرت یحییٰ کا نام حیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے سارہ (علیہا السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) عطا فرمایا اس کا نام پہلے ” یسارہ “ تھا اور یسارہ اس عورت کو کہتے ہیں جو بچہ نہیں جنتی اور سارہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا رحم بچے پیدا کرتا ہے پاس اللہ تعالیٰ نے اس کا نام سارہ رکھ دیا اور سارہ سے یاء کو منتقل کردیا حی کے ساتھ لگادیا اور اس کا نام یحییٰ رکھ دیا زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” رب انی یکون لی غلم وکانت امراتی عاقرا “ خوف تھا کہ میری بیوی بچہ نہیں جنے گی فرشتے نے کہا (آیت) ” کذلک، قال ربک ھو علی ھین وقد خلقتک من قبل “ یعنی مجھ پر آسان ہے کہ میں تجھ کو یحییٰ عطا کروں (آیت) ” ولم تک شیئا “ اور اسی طرح میں قادر ہوں کہ میں بوڑھا اور بانجھ عورت سے بچہ پیدا کردوں اور اس وجہ سے ابلیس ان کے پاس آیا اور کہا اے زکریا تیری دعا آہستہ تھی لیکن تیری دعا اونچی آواز کے ساتھ قبول کی گئی اور اونچی آواز کے ساتھ تجھے بشارت دی گئی یہ آواز تو شیطان کی طرف سے تھی نہ کہ جبرائیل (علیہ السلام) کی آواز تھی اور نہ تیرے رب کی طرف سے تھی زکریا (علیہ السلام) نے عرض کیا (آیت) ” قال رب اجعل لی ایۃ “ یہاں تک کہ میں پہچان لوں کہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” قال ایتک الا تکلم الناس ثلث لیال سویا (10) یعنی آپ بالکل صحیح سلامت تھے گویا گونگا پن نہ تھا (مگر بات نہ کرسکے) ان کی بیوی حائضہ ہوگئی جب پاک ہوگئی تو زکریا (علیہ السلام) نے ان سے ہمبستری فرمائی تو وہ حاملہ ہوگئی صبح کو وہ بات نہ کرسکے اور جب وہ تسبیح اور نماز کا ارادہ فرماتے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبان کو کھول دیتے جب وہ لوگوں سے بات کرنے کا ارادہ کرتے تو ان کی زبان روک لی جاتی اور وہ بات نہ کرسکتے تھے اور یہ ان کے لئے بطور عقوبت تھا کیونکہ جب ان کو ایک لڑکے کی بشارت دی گئی تو فرمایا (آیت) ” قال رب انی یکون لی غلم “ (میرے بچہ کیسا ہوگا) ان کو اندیشہ ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ آواز اللہ کی طرف سے نہ ہو (آیت) ” فخرج علی قومہ من المحراب فاوحی الیہم “ یعنی اپنی عبادت کرنے کی جگہ سے باہر آئے تو انہوں نے لوگوں کو لکھ کردیا (آیت) ” ان سبحوا بکرۃ وعشیا “ یعنی نماز پڑھو صبح کی اور عصر کی اور ان کے ہاں یحییٰ پیدا ہوئے جو نبی تقی اور صالح تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو خوشخبری دی تھی (فرمایا) (آیت) ” ییحیٰ خذ الکتب بقوۃ “ اے اس کتاب کو سنجیدگی سے، اطاعت سے، محنت سے، شکر سے اور اس پر عمل کرنے سے اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو، (آیت) ” واتینہ الحکم “ یعنی ہم نے یحییٰ کو فہم عطا فرمایا (آیت) ” صبیا “ یعنی چھوٹے بچے ہونے کی حالت میں اور یہ اس طرح ہوا کہ وہ ایک مرتبہ اپنے ہم عمر بچوں گذرے جو نہر کے کنارے پر مٹی اور پانی سے کھیل رہے تھے اور ان بچوں نے کہا اے یحییٰ ہمارے پاس آجاؤ اور (ہمارے ساتھ) کھیلو یحییٰ نے فرمایا سبحان اللہ کی ہم کھیل کے لئے پیدا کئے گئے ؟ (آیت) ” وحنانا “ یعنی رحمت (آیت) ” من لدنا “ اور مہربانی (آیت) ” وزکوۃ “ یعنی زکریا پر صدقہ (آیت) ” وکان تقیا “ یعنی پاکیزہ اللہ کے لئے فرمانبرداری کرنے والا (آیت) ” وبرابوالدیہ “ یعنی والدین کا نافرمان نہیں تھا (آیت) ” ولم یکن جبارا عصیا “ یعنی کسی جان کو (ناحق) قتل کرنے والے (نہیں تھے) جس کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو (آیت) عصیا “ یعنی اپنے رب کی نافرمانی کرنے والے (نہیں تھے) (آیت) ” وسلم علیہ “ یعنی اللہ تعالیٰ ان پر سلامتی بھیجے (آیت) ” یوم ولد ویوم یموت ویوم یبعث حیا “ (جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن ان کا وصال ہوا اور جس دن ان کو اٹھایا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) : 24:۔ ابن ابی حاتم نے عبدالرحمن القاسم کے طریق سے مالک (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ (علیہما السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی تھے اور دونوں کا حمل ایک ساتھ تھا اور مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ یحییٰ کی والدہ نے مریم (علیہا السلام) سے فرمایا میں نے دیکھا ہے کہ جو بچہ میرے پیٹ میں ہے وہ اس بچے کو سجدہ کرتا ہے جو تیرے پیٹ میں ہے۔ مالک (رح) نے فرمایا میں میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فضیلت دی ہے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ مردوں کو زندہ کردیتے تھے اور مادر زاد اندھے کو اور برص والی بیماری والے کو ٹھیک کردیتے ہیں اور یحییٰ (علیہ السلام) کے لئے زندگی نہ تھی مگر زمین کی گھاس اگرچہ وہ روتے تھے اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہاں تک کہ اگر آپ کے رخسار پر تارکول ہوتا تو آنسووں کی وجہ سے وہ بھی پگھل جاتا ان کے آنسووں نے ان کے چہرے مبارک پر گذر گاہ بنالی تھی۔ 25:۔ ابن منذر ابن ابی حاتم ابن مردویہ ابن خزیمہ دارقطنی نے افراد میں ابونصر السجزی نے ابانہ میں اور طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم مسجد نبوی میں حلقہ بنا کر انبیاء کے فضائل کا آپس میں تذکرہ کررہے تھے ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کی لمبی عبادت کا ذکر کیا اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اللہ ﷺ کا ذکر کیا رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور پوچھا تم آپس میں کس کا تذکرہ کررہے تھے ہم نے آپ کو بتایا کو آپ نے فرمایا لائق نہیں ہے کہ کوئی یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے بہتر ہے ؟ کیا تم نے نہیں سنا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی صفات بیان فرمائیں (آیت) ” یحییٰ خذ الکتب بقوۃ “ (سے لے کر) ” وکان تقیا “ تو انہوں نے کبھی برا کام نہیں کیا اور نہ اس کا ارادہ کیا۔ 26:۔ ابن عساکر ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ ایک دن اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے اور وہ لوگ آپس میں انبیاء کی فضیلت کا تذکرہ کر رہے تھے ایک کہنے والے نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور دوسرے کہنے والے نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں اور ایک کہنے والے نے کہا ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے خلیل ہیں نبی کریم ﷺ فرمایا شہید کا بیٹا شہید کہاں ہے جو گناہ کے خوف سے اون پہنتا تھا اور پتے کھاتا تھا گناہ سے بچنے کے لئے اور وہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) ہیں۔ 27:۔ احمد، حکیم، ترمذی نے نوادرا الاصوال میں، حاکم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا آدم کی اولاد میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے خطا نہ کی ہو یا اس نے گناہ کا ارادہ نہ کیا ہو مگر یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کہ انہوں نے گناہ کا ارادہ نہیں کیا اور نہ اس پر عمل کیا۔ 28:۔ ابن اسحاق ابن ابی حاتم اور حاکم نے عمروابن عاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر بنو آدم قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا گناہ ہوگا مگر یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) بغیر گناہ کے آئیں گے۔ 29:۔ احمد نے زہد میں اور ابن عساکر نے یحییٰ بن جعدہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی کو یہ لائق نہیں ہے کہ یوں کہے میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے بہتر ہوں کبھی انہوں نے گناہ کا ارادہ نہیں کیا اور ان کے دل میں کسی عورت کا کھٹکا ہوا۔ یحیی بن زکریا (علیہما السلام) سے افضل کہنے کی ممانعت : 30:۔ ابن عساکرضمرہ بن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عورتیں جن بچوں سے حاملہ ہوئیں ان میں سے کسی کے لئے یہ کہنا مناسب نہیں کہ میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے افضل ہوں ان کے دل میں کبھی کسی گناہ کا تصور بھی نہیں آیا تھا اور نہ انہوں نے اس کا ارادہ کیا تھا 31:۔ ابن عساکر نے علی بن ابی طلحہ (رح) سے ایک مرفوع حدیث میں روایت کیا کہ عورتوں کے پیٹ میں جو بچہ حرکت کرتا ہے اس کو بھی یہ لائق نہیں کہ یوں کہے میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے افضل ہوں کیونکہ ان کے دل میں کبھی کسی گناہ کا خیال تک نہیں آیا اور نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارادہ کیا۔ 32:۔ عبدالرزاق احمد نے زہد میں عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ عیسیٰ یحییٰ (علیہما السلام) کی آپس میں ملاقات ہوئی یحییٰ (علیہ السلام) نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میرے لئے توبہ و استغفار کیجئے آپ مجھ سے بہتر ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا بلکہ آپ مجھ سے بہتر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام بھیجا ہے اور میں نے خود اپنی ذات پر سلام بھیجا ہے پس آپ اپنی فضیلت کو پہچان گئے۔ 33:۔ احمد، ابویعلی، ابن حبان، طبرانی، حاکم اور ضیاء نے ابوسعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا حسن اور حسین ؓ دونوں حضرات جنت والوں کے نوجوانوں کے سردار ہیں سوائے خالہ زاد بھائیوں عیسیٰ بن مریم یحییٰ بن زکریا علیہم السلام۔ 34:۔ حاکم نے سمرہ کے طریق سے کعب ؓ سے روایت کیا کہ یحییٰ (علیہ السلام) عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے اور ان کی خواہش کرتے تھے اور آپ خوبصورت چہرہ والے نوجوان تھے آپ کے پہلو نرم تھے بال تھوڑے تھے انگلیاں چھوٹی تھیں ناک لمبی تھی ابروملے ہوئے تھے آواز باریک تھی کثرت سے عبادت کرنے والے تھے اور اللہ کی اطاعت پر بہت زیادہ قوت رکھتے تھے۔ 35:۔ بیہقی نے شعب میں (اور ابن عساکر اور بیہقی نے ضعیف بھی کہا ہے) ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی ذلت اور حقارت میں سے یہ بھی ہے کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو ایک عورت نے قتل کیا۔ 36:۔ حاکم نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ کون مصیبت، انکار کرتا ہے اور بلاشبہ میں اس کا انکار نہیں کرتا البتہ تحقیق یہ بات مجھے ذکر کی گئی کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) ایک زانیہ عورت کے سبب شہید کئے گئے۔ زکریا (علیہ السلام) کا قتل : 37:۔ اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے اپنی سند سے بیان کیا کہ ہم سے ابو یعقوب کوفی نے عمرو بن میمون نقل کیا اور انہوں نے اپنے باپ میمون سے نقل کیا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ معراج کی رات میں رسول اللہ ﷺ نے زکریا (علیہ السلام) کو آسمان میں دیکھا تو ان کو سلام فرمایا اور ان سے پوچھا اے یحییٰ (علیہ السلام) کے والد تم کیسے قتل ہوئے اور آپ کو بنی اسرائیل نے کیوں قتل کیا ؟ انہوں نے فرمایا اے محمد ﷺ کہ یحییٰ (علیہ السلام) اپنے زمانہ کے بہترین لوگوں سے تھے اور اپنے چہرے کے لحاظ سے نہایت خوبصورت تھے اور اس طرح تھے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” سیدا وحصورا “ اور وہ عورتوں کی طرف حاجت نہیں ریکھتے تھے بنی اسرائیل کے بادشاہ کی ایک عورت یحییٰ (علیہ السلام) کی محبت میں گرفتار ہوگئی وہ عورت بدکارہ تھی اس نے اس کی طرف پیغام بھیجا اللہ نے ان کو بچالیا اور انہوں نے اس کی خواہش پوری کرنے سے انکار کردیا اس عورت نے یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کا پکا ارادہ کرلیا ان کی ایک عید ہوتی تھی جس میں وہ لوگ ہر سال جمع ہوتے تھے اور بادشاہ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ وعدہ کرتا تھا اور اس کی مخالفت نہیں کرتا تھا اور نہ جھوٹ بولتا تھا بادشاہ عید کے لئے نکلا اس کی بیوی نے اسے الوداع کہا اور بادشاہ اپنی بیوی سے محبت کرتا تھا پہلے اس کی بیوی نے کبھی اس سے سوال نہ کیا تھا جب آج بیوی نے الوداع کہا بادشاہ نے (اپنی بیوی سے) کہا مجھ سے مانگ جو تو مانگے گی میں تجھ کو دوں گا اس نے کہا میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کا خون چاہتی ہوں بادشاہ نے کہا اسکے علاوہ کوئی اور دوسرا سوال کر اس نے کہا میرا وہی سوال ہے بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے تیری خواہش پوری کردی جائے گی پھر اس عورت نے اپنے سپاہیوں کو یحییٰ (علیہ السلام) کی طرف بھیجا اور وہ اپنے محراب میں نماز پڑھ رہے تھے اور میں (زکریا) ان کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا یحییٰ (علیہ السلام) کو ایک طشت میں ذبح کردیا گیا اور ان کا سر اور ان کا خون اس عورت کو پیش کیا گیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر صبر کہاں تک پہنچا زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے اپنی نماز کو نہیں چھوڑا تھا جب یحییٰ (علیہ السلام) کا سر اس عورت کی طرف لے جایا گیا اور اور اس کے آگے رکھ دیا گیا جب شام ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو اور اس کے گھروالوں کو اور اس کے نوکروں وچاکروں کو زمین میں دھنسا دیا صبح کو بنی اسرائیل کہنے لگے زکریا (علیہ السلام) کے خدا کو زکریا (علیہ السلام) کے لئے غصہ آگیا آجاؤ ہم اپنے بادشاہ کے لئے غصہ کا اظہار کریں اور ہم زکریا (علیہ السلام) کو قتل کردیتے ہیں وہ لوگ میری طلب میں نکلے تاکہ وہ مجھے قتل کردیں مجھے ایک ڈرانے والے نے آکر بتایا (کہ وہ ایسی سازش کرتے ہیں) تو میں ان سے بھاگ گیا اور ابلیس ان کے آگے تھا جو ان کو میرے بارے میں بتارہا تھا جب میں نے خوف کیا کہ میں ان کو عاجز نہیں کرسکتا میں نے ایک درخت کو پکارا اس نے کہا میری طرف میری طرف آجاؤ وہ میرے لئے پھٹ گیا میں اس کے تنے میں داخل ہوگیا ابلیس آیا یہاں تک کہ اس نے میری چادر کو ایک طرف کو پکڑ لیا (مجھے اندر لے کر) درخت مل گیا اور میری چادر کا ایک کنارہ درخت سے باہر رہ گیا بنواسرائیل آئے تو ابلیس نے ان سے کہا کیا تم جانتے ہو کہ وہ اس درخت میں داخل ہوا ہے انہوں نے کہا ہم اس درخت کو جلا دیں گے ابلیس نے کہا آری کے ساتھ اس کو چیر دو زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے آری کے ساتھ درخت سمیت چیرا گیا نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا اے زکریا کیا آپ نے کوئی تکلیف یا درد محسوس کیا تھا فرمایا نہیں مجھے تو یہ محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری روح اس درخت میں ڈال دی ہے۔ 38:۔ ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ زکریا (علیہ السلام) بھاگے اور درخت کے خول میں داخل ہوگئے آری کو درخت کے ا وپر رکھ دیا گیا اور اس کو دو آدھے آدھے ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا جب آری ان کی پیٹھ تک پہنچی تو آپ رونے لگے اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی اے زکریا یا تو اپنا رونا بند کردو یا میں زمین کو الٹ دوں گا اور جو کچھ اس پر ہے اس کو بھی پس آپ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ ٹکڑوں میں کاٹ دیئے گئے۔ 39:۔ احمد نے زہد میں اور ابن عساکر نے یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ یحی بن زکریا (علیہما السلام) کا کھانا ٹڈی اور درخت کے اندر کا نرم گودا تھا اور وہ فرماتے تھے یحییٰ تجھ سے زیادہ نعمتوں والا ہوگا ؟ کہ تیرا کھانا ٹڈی اور درخت کے اندر کا نرم گودا ہے۔ یحیی (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا : 40:۔ ابن ابی شیبہ، احمد نے زہد میں اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کا کھانا سبز گھاس تھا اور وہ اللہ کے خوف سے روتے تھے یہاں تک کہ اگر تارکول ان کی آنکھوں پر ہوتا تو وہ اسے جلا دیتا اور آنسووں نے اس چہر میں گذرگاہ بنالی تھی۔ 41:۔ ابن عساکر نے یونس بن میسرہ (رح) سے روایت کیا کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) ایک دینار پر سے گذرے اور فرمایا اے دینار اے عبد العبید اے معبد الاحرار یہ چہرہ کتنا قبیح ہے۔ 42:۔ بیہقی نے سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا مجھے لوگوں کی زبان پر سلامت رکھ وہ لوگ میرے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہ کہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی اے یحییٰ یہ تو میں اپنے لئے بھی نہیں کیا پھر کس طرح تیرے لئے کروں۔ 43:۔ بیہقی نے سنن میں اور ابن عساکر نے ثابت بنانی (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ابلیس یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے پاس ظاہرہوا اور انہوں نے اس پر ہر چیز کی محبت کی جانے والی چیزیں دیکھیں یحییٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا یہ کیا (چیزیں) ہیں ابلیس نے کہا یہ شہوات ہیں کہ میں ان کے ذریعہ آدم کی اولاد پھنسائی جاتی ہے یحییٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کیا میرے لئے اس میں کوئی چیز ہے ؟ کہا نہیں پھر اس سے پوچھا کیا مجھ سے بھی کچھ لے لیتا ہے ؟ اس نے کہا جب آپ پیٹ بھر کر کھاتے ہیں تو ہم تجھے نماز سے اور ذکر سے بوجھل کرتے ہیں پھر پوچھا اس کے علاوہ کوئی اور بات ہے ؟ اس نے کہا نہیں یحییٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یقینا میں کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھاوں گا۔ 44:۔ ابن عساکر نے علی بن زید بن جدعان سے علی بن حسین ؓ سے روایت کیا کہ ایک بادشاہ مرگیا اور اپنی بیوی اور بیٹی کو چھوڑ گیا اس کے ملک کا وارث اس کا بھائی بن گیا اس نے اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کرنے کا ارا ادہ کیا اور اس بارے میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے اس نے مشورہ کیا اس زمانہ میں بادشاہ انبیاء کے حکم کے مطابق عمل کرتے تھے یحییٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اس سے شادی مت کر کیونکہ وہ بدکار عورت ہے یہ بات اس عورت کو پہنچی تو اس نے کہا میں یحییٰ (علیہ السلام) کو ضرور قتل کروں گی اس کو اپنے ملک سے ضرور نکال دوں گی اس نے اپنی بیٹی کا میک اپ کیا پھر اپنی بیٹی سے کہا۔ تم بھرے مجلس میں اپنے چچا کے پاس جاؤ وہ تجھ کو دیکھے گا تو وہ تجھ کو اپنے پاس بلائے گا اور وہ تجھ کو اپنی گود میں بٹھائے گا اور کہے گا جو تو چاہے مجھ سے سوال کر کیونکہ جو تو مجھ سے سوال کرے گی میں تجھ کو دونگا جب وہ تجھ سے کہے تو اس سے کہنا میں تجھ سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتی مگر یحییٰ (علیہ السلام) کے سر کا، اس زمانہ میں بادشاہ جب بھرے مجمعے کے سامنے کوئی بات کرتا تھا پھر اس کو پورا نہ کرتا تو اس کو بادشاہت سے ہٹادیا جاتا تھا وہ ایسے ہی ہوا اس کو موت آنے لگی کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا (اس کے بعد) وہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ زمین میں دھنسادی گئی ابن جدعان (رح) نے کہا ابن المسیب (رح) نے یہ حدیث مجھ سے بیان کی انہوں نے فرمایا کیا تو جانتا ہے زکریا (علیہ السلام) کا قتل کیسے ہوا میں نے کہا نہیں کہا کہ جب ان کے بیٹے یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید کردیا گیا تو زکریا (علیہ السلام) ان لوگوں سے بھاگ گئے لوگوں نے ان کا پیچھا گیا یہاں تک کہ ایک تنے والے درخت کے پاس آئے اس کو اپنی طرف بلایا تو اس نے ان کو اپنے اندر لپیٹ لیا اور ان کے کپڑے کا پلو باقی رہ گیا کہ اس کو ہوا حرکت دے رہی تھی وہ لوگ درخت کے پاس پہنچے تو اس کے پاس ان کے قدموں کے نشانات کو نہ پایا انہوں نے اس کپڑے کے پلو کو دیکھا تو آری کو منگوایا اور درخت کو کاٹ دیا اور انہوں نے ان کو بھی اس میں کاٹ دیا۔ 45:۔ ابن عساکر نے ابن عمر وؓ سے روایت کیا کہ وہ عورت جس نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو قتل کیا اور اپنے آباء و اجداد کی طرف سے ملک کی وارث بنی تھی اس کے پاس یحییٰ (علیہ السلام) کا سرلایا گیا اور اپنے شاہی تخت پر بیٹھی تھی آپ کے سر سے آواز آئی اے زمین اس (عورت) کو پکڑ لے تو زمین نے اس عورت کو اس کے شاہی تخت کے ساتھ نگل گئی۔ یحیی (علیہ السلام) کا قتل شرعی فتوی کی وجہ سے ہوا : 46:۔ اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے عبداللہ بن زیبر ؓ سے روایت کیا کہ بادشاہ نے اپنے بھائی کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ کیا اس نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) سے فتوی پوچھا تو انہوں نے فرمایا تیرے لئے حال حلال نہیں ہے (اس وجہ سے) اس عورت نے ان کے قتل کا مطالبہ کیا بادشاہ نے آپ کی طرف اپنے سپاہی بھیجے اور یحییٰ (علیہ السلام) اپنے محراب میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ان سپاہیوں نے آپ کو قتل کردیا پھر ان کا سرکاٹ لیا اور اس کو بادشاہ کے پاس لے آئے اس سر نے کہنا شروع کیا جس عورت کا تو ارادہ رکھتا ہے وہ تیرے لئے حلال نہیں ہے۔ 47:۔ ابن عساکر نے ابن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) نے اس آدمی سے کہا تھا جو سرکاٹنے کے لئے آیا کیا تو نہیں جانتا کہ میں نبی ہوں ؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں لیکن میں حکم کیا ہوا ہوں۔ 48:۔ حاکم اور ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کے بدلے ستر ہزار کو قتل کیا اور تیرے بیٹی کے بیٹے کے بدلے میں ہزار اور ستر ہزار کو قتل کرنے والا ہوں۔ 49:۔ ابن عساکر نے شمر بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ صخرہ (یعنی چٹان) پر جو بیت المقدس میں ہے ستر نبیوں کو قتل کیا گیا ان میں یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) بھی ہیں۔ 50:۔ ابن عساکر نے قرہ (رح) سے روایت کیا کہ آسمان کسی پر نہیں رویا مگر یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) اور حسین بن علی ؓ پر رویا اور اس کی سرخی اس کا رونا ہے۔ 51:۔ احمد نے زہد میں خالد بن ثابت جہنی (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کے فاجروں نے یحییٰ بن زکریا (علیہما السلام) کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے انبیاء میں سے ایک نبی کی طرف وحی بھیجی کہ بنی اسرائیل کو کہہ دو کہ تم کب تک میری نافرمانی پر جرأت کرتے رہوں گے اور کب تک میرے رسولوں کو قتل کرتے رہوگے اور کب سے میں نے تجھ کو اپنی رحمت کے پردوں میں چھپائے رکھا رہوں گا جیسے مرغی اپنی بچوں کو اپنے پہلو میں چھپائے رکھتی ہے تم مجھ پر جرأت کرتے مجھ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں تم سے اپنے چہرے کو پھیرلوں تو میں قیامت تک تم پر توجہ نہیں کروں گا۔ 52:۔ احمد نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ یحییٰ (علیہ السلام) کو جب قتل کیا گیا تو ان کے بعض ساتھیوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ میری طرف اللہ کے نبی یحییٰ (علیہ السلام) کی قمیص بھیجو میں اس کو سونگھوں گا تو اسنے اس کی طرف بھیج دی تو اس قمیص کا تانابانا کھجور کے پتوں کا تھا۔ بیوی نظر اور شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے : 53:۔ حکیم ترمذی نے نوادرالاصول میں یونس بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ ایک بادشاہ اپنے ملک کے باشندوں پر بہت ظلم وستم کرتا تھا لوگوں نے اس کے قتل کا مشورہ کیا پھر لوگوں نے کہا اللہ کے نبی زکریا (علیہ السلام) ہمارے درمیان موجود ہیں اگر ہم ان کے پاس جا کر مشورہ کریں تو یہ بہتر ہوگا چناچہ وہ لوگ آپ کے گھر آئے اچانک وہاں ایک نفیس خوبصورت لڑکی تھی جس نے گھر کو اپنے حسن کی وجہ سے روشن کر رکھا تھا لوگوں نے اس عورت سے پوچھا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں زکریا (علیہ السلام) کی بیوی ہوں لوگ آپس میں کہنے لگے ہم تو سوچتے تھے کہ اللہ کے نبی دنیا کا ارادہ نہیں رکھتے حالانکہ ان کے پاس عورتوں میں سے سب سے زیادہ خوبصورت عورت ہے پھر انہوں نے آپ کو کام کرتے ہوئے دیکھا ایک قوم کے پاس یہاں تک کہ آپ کے پاس صبح کا کھانا حاضر کیا گیا پھر آپ کھڑے ہوگئے اور اپنے بقیہ کام کیا پھر اپنے موزوں کو اور کمبل کو اور چادر کو اپنی گردن پر لٹکایا لوگوں سے پوچھا تمہاری حاجت کیا ہے انہوں نے کہا ہم آپ کے پاس ایک کام کے لئے آئے تھے اور آپ کے حالات ہم پر غالب آگئے جو ہم نے دیکھا اس لئے ہم آپ پر مسئلہ پیش نہیں کرتے زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا بتلاؤ تم کیا چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم آپ کے گھر آئے وہاں ایک خوبصورت نفیس عورت دیکھی جبکہ ہمارا گمان تھا کہ اللہ کی نبی (علیہ السلام) دنیا کا ارادہ نہیں رکھتے تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ میں نے ایک خوبصورت نفیس عورت سے شادی کی ہے تاکہ میں اس کے ذریعہ کسی غیر عورت پر نظر نہ ڈالوں اور اس کے ذریعہ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کروں پس اللہ کے نبی ان کے اعتراض سے بری ہوگئے پھر لوگوں نے کہا ہم نے آپ کو دیکھا کہ دو روٹیاں پیش کی گئیں آپ نے ان کو کھایا اور ہمارے لئے نہ چھوڑا فرمایا میں ایک قوم کا مزدور ہوں تو میں ڈرا اگر میں نے روٹی نہ کھائی تو کام سے کمزور ہوجاوں گا اور اگر تم میرے ساتھ کھاتے تو نہ میں سیر ہوتا اور نہ تم سیر ہوتے یوں اللہ کے نبی (علیہ السلام) ان کے اس اعتراض سے بری ہوگئے لوگوں نے کہا ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنے موزوں کو اور کمبل کو اور چادر کو اپنی گردن پر رکھا تو فرمایا یہ زمین نئی (یعنی نئی مٹی ڈالی گئی ہے) میں نے اس کی مٹی کو ان چیزوں کے ذریعہ منتقل کرنا مناسب نہ سمجھا تو یوں اللہ کے نبی (علیہ السلام) ان کے اس اعتراض سے بھی بری ہوگئے اور ان لوگوں نے کہا یہ بادشاہ ہم پر ظلم کرتا ہے ہم نے اس کے قتل کا مشورہ کیا ہے انہوں نے فرمایا تم ایسا مت کرو کیونکہ ایک پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹانا آسان ہے بنسبت اس کے کہ ایک پرانے بادشاہ کو معزول کیا جائے (واللہ اعلم )
Top