Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ (ہماری) کتاب کو زور سے پکڑے رہو اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی۔
سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کے اوصاف تشریح : جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ وہ کسی قوم میں سے بہترین انسان کو نبوت کے لیے چن لیتا ہے۔ اور وہ انسان بچپن سے ہی نیک خصلت انسان ہوتا ہے۔ اسی طرح سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) انتہائی نیک دل، نرم مزاج، پاکیزہ، نیک نیت، فرماں بردار، مشفق اور مہربان تھے۔ انہوں نے کبھی بھی کسی پر ظلم نہیں کیا تھا والدین کے انتہائی فرماں بردار انسان تھے۔ نہ خود کبھی برائی کی تھی اور نہ کسی کو برائی کا راستہ دکھاتے تھے۔ کیونکہ ان کو اللہ نے کتاب ہدایت دی تھی جو کہ پوری طرح نیکی اور ہدایت کی کتاب تھی اللہ نے آپ کو عطا کی اور حکم دیا کہ اسے مضبوطی سے پکڑلو۔ یعنی اس میں دیے گئے تمام احکامات پر پوری طرح خود بھی عمل کرو اور دوسروں کو بھی عمل کرنے کی ہدایت کرو۔ آپ اس قدر پاکیزہ صفات کے مالک تھے کہ اللہ نے آپ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ ” جس دن وہ پیدا ہوئے اور جس دن وہ وفات پائیں گے اور جس دن زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے ان پر سلام اور رحمت ہے۔ (آیت 15 : سورة مریم) سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے 6 مہینے بڑے تھے۔ آپ دونوں کی مائیں آپس میں رشتہ دار تھیں۔ آپ کو نبوت ملی۔ شرق اردن سے آپ نے تبلیغ شروع کی۔ آپ بہت ہی سادگی پسند تھے۔ اونٹ کے بالوں سے بنے ہوئے کپڑے پہنتے، چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھتے خوراک میں شہد زیادہ تر معمولی کھانا ہوتا تھا۔ روزے نماز کی تلقین کرتے اور انتہائی سادہ زندگی گزارنے کی نصیحت کرتے تھے۔ آپس میں اتفاق سے رہنے ظلم و ستم، لڑائی جھگڑے اور دوسروں کی حق تلفی کرنے سے منع کرتے تھے۔ گناہوں سے بچنے اور توبہ کرنے کا سبق دیتے تھے۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا ہیرو و اینٹی تھا۔ جو خود بھی رومی تہذیب میں غرق تھا اور لوگوں کو بھی فسق و فجور کی کھلی چھٹی ملی ہوئی تھی۔ جب سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) نے اس کو منع کرنے کی کوشش کی تو اس نے آپ کو قید میں ڈال دیا۔ اور پھر اسی کے ہاتھوں آپ کا قتل بھی ہوا۔ یہودی اور عیسائی ہمیشہ اپنے پیغمبروں کو قتل کرتے رہے اور پھر بعد میں ان کی تعلیمات میں بھی فرق کر ڈالتے تھے۔ اپنے مطلب کی باتیں رکھ کر باقی سب بدل دیتے تھے۔ یہ خاصیت صرف قرآن پاک کی ہی ہے کہ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے کہ قیامت تک اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ہرگز نہ ہو سکے گی یہ جیسا اترا تھا ویسا ہی رہے گا ان شاء اللہ۔ اور پھر قرآن پاک میں پچھلی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔ اور تعلیمات بھی ان سے بہت حد تک ملتی جلتی ہیں۔ جیسا کہ جب نجاشی (شاہ حبشہ) کو سورة مریم کا پہلا حصہ سنایا گیا تو اس نے کہا کہ یہی تو رات میں بھی لکھا گیا ہے۔ اگلی آیات میں سیدہ مریم کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
Top