Ahsan-ut-Tafaseer - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
69 تا 85:۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی نیک راہ کی ہدایت دی اور بڑے ہونے تک وہ اپنی قوم کو بتوں کی عبادت سے منع کرتے رہے یہی ذکر ان آیتوں میں ہے کہ انہوں نے اپنے باپ اور قوم سے کہا کہ تم ان بتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو کیا سنتے ہیں جب پکارتے ہو تم ان کو یا بھلا کرتے ہیں تمہارا یا کچھ برا کرتے ہیں ان بت پرستوں نے جواب دیا کہ یہ بت نہ تو ہماری التجا کو سنتے ہیں نہ ہمارے بھلے برے کے کچھ مختار ہیں لیکن ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا کہ ان کو ایسا ہی کرتے دیکھا اس واسطے ہم ان کے ہی قدموں پر چل رہے ہیں لفظ ھل عربی زبان میں ایسے ہی موقع پر آتا ہے کہ جس سے اس لفظ سے پہلی بات کا انکار اور بعد کی بات کا اقرار نکلتا ہے اس لیے ان لوگوں نے گویا یہ اقرار کیا کہ ان بتوں کے پوجنے پر ہمارے پاس کوئی دلیل سوائے باپ دادا کی پیروی کے نہیں ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اب دیکھو تم جن کو تم اور تمہارے باپ دادا اللہ کے سوا پوجتے ہیں وہ میرے دشمن ہیں اور میں ان کا دشمن ہوں یہ آیت مثل اس کے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کے قول کی خبر دی ہے کہ جب نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ‘ (یا قوم ان کان کبر علیکم مقامی وتذکیری بایت اللہ فعلی اللہ توکلت فاجمعوا امرکم وشرکاء کم ثم لا یکن امرکم علیکم غمۃ ثم اقضوا الی ولا تنظرون) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے سمجھانے سے اے قوم کے لوگو تم برا مانتے ہو تو جو کچھ تم کرسکو میرا کرو اسی طرح اپراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے بتوں کا دشمن ہوں تم سے اور تمہارے بتوں سے میرے ساتھ جو بدسلوکی ہو سکے وہ کرو۔ فرعون کے قصہ سے قریش کو ڈرا کر اب ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ سے ان میں یہ سمجھایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو تمہارے پیشوا ہیں باپ دادا کی راہ کو غلط دیکھ کر ترک کردیا اسی طرح تم کو باپ دادا کی راہ غلط کو چھوڑنا چاہیے پھر آگے کی آیتوں میں حضرت ابرہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف بیان فرمائے کہ اس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھے ہدایت کرتا ہے اور کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا دیتا ہے ‘ اور وہی مجھ کو مارے گا اور جلاوے گا اور اسی سے مجھ کو امید ہے کہ بخشے گا قیامت کے دن میرے قصور غرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ان اوصاف کے بیان کرنے سے یہ ہے کہ میں نہیں پوجتا مگر اس ذات پاک کو کہ جو یہ تمام باتیں کرنے والا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا مانگی کہ اے میرے رب دے مجھ کو نبوت اور ملا نیکوں میں اور کر میرا بول سچا پچھلوں میں مطلب یہ ہے کہ میرے خاندان میں آخری زمانہ میں نبی پیدا ہوں اور میرا دین قائم رکھیں اور میری پیروی کریں جیسا کہ فرمایا (وترکنا علیہ فی الاخرین سلام علی ابراھیم کذالک نجزی المحسنین) مجاہد وقتادہ بھی یہ کہتے ہیں کہ لسان صدق سے مراد اچھی تعریف ہے اور یہ آیت مثل اس قول کے ہے نجزی المحسنین مجاہد وقتادہ بھی یہ کہتے ہیں کہ لسان صدق سے مراد اچھی تعریف ہے اور یہ آیت مثل اس قول کے ہے وآتیناہ فی الدنیا حسنہ سدی نے کہا کہ مراد حکم سے نبوت ہے اور یہ جو فرمایا کہ ملا مجھ کو نیکوں میں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ دنیا اور آخرت میں نیکوں کے ساتھ رکھ جس طرح پیغمبر خدا ﷺ نے آخر وقت یہ دعا تین بار پڑھی اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ صحیح بخاری کی حضرت عائشہ ؓ کی بعض روایتوں میں فیِ الرَّفِیْقِ الْاَ عْلٰی کے بعد مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین بھی آیا 1 ؎ ہے جس سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور آنحضرت ﷺ کا دعا کا یہ مطلب ہے کہ یا اللہ مجھ کو وفات کے بعد انبیاء کے گروہ میں ملا کر جنت کے وارثوں میں کر اور دنیا میں ذکر خیر باقی رکھ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 2 ؎ سے عبداللہ بن مسعود ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر باوجود اس کے جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہیں ان سے بڑھ کر دنیا میں کوئی مجرم نہیں اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے اوصاف اور بتوں کی مذمت کا ذکر کر کے اپنے باپ اور اپنی قوم کو یہ جتلایا ہے کہ جب ان بتوں میں کوئی صفت اللہ تعالیٰ کی نہیں پائی جاتی اور اس پر بھی تم لوگ اپنے بڑوں کو رسم کے پابند ہو کر ان مورتوں کی پوجا کرتے ہو تو دنیا میں تم سے بڑھ کر کوئی مجرم نہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے موقع پاکر ان بت پرستوں کے بتوں کو جو توڑ ڈالا تھا اس کا قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے ان آیتوں میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ جو کہا کہ بت میرے دشمن ہیں اور میں ان کا دشمن ہوں سورة انبیاء کا وہ قصہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی گویا تفسیر ہے۔ (1 ؎ مشکوٰۃ بابٌ بعد باب الکرامات ) (2 ؎ مشکوٰۃ باب الکبائر الخ )
Top