Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
قصہ دوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باقوم او قال اللہ تعالیٰ واتل علیہم نبا ابراہیم .... الیٰ .... وان ربک لھو العزیز الرحیم۔ (ربط) گزشتہ آیت میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ (علیہ السلام) کے قصہ کا ذکر تھا اب اس کے بعد آپ ﷺ کے جد امجد حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ ان کو اپنی قوم کے مقابلہ میں کیا ابتلا پیش آیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے باپ کی گواہی کا شدید رنج تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم بابل کے اطراف میں آباد تھی مذھبا صابی یعنی ستارہ پرست تھے اور بت پرست بھی تھے کواکب اور نجوم کی تاثیر کے قائل تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دلائل سے حق واضح کردیا اور اپنے لیے خدا تعالیٰ سے قسم قسم کی دعائیں مانگی۔ لہٰذا اے نبی آپ ﷺ بھی وہی طریقہ اختیار کیجئے چناچہ فرماتے ہیں۔ اور اے نبی آپ ﷺ ان لوگوں کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجئے۔ تاکہ یہ لوگ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر فخر کرتے ہیں ان کو چاہئے کہ اخلاص اور توحید اور توکل میں انکا اقتداء کریں اور شرک سے بیزار ہوں اور ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ سن کر ان پر حجت لازم ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اول ابطال شرک کے لیے بتوں کا عاجز ہونا بیان کیا۔ بعد ازاں اثبات توحید کے لیے رب العالمین کی صفات کمال کو بیان کیا کہ رب العالمین وہ ہے کہ بندوں کا پیدا کرنا اور انکو ہدایت دینا اور ان کو رزق دینا اور مارنا اور جلانا سب اس کے اختیار میں ہے جو ذات ان صفات کے ساتھ موصوف ہو وہ مستحق عبادت ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر فرض اور لازم ہے۔ از دست و زبان کہ بر آید کز عہدہ شکرش بدر آید اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے یہ سوال کیا کہ تم کس بےحقیقت چیز کی پرستش کرتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر ہم ان کی عبادت پر جمے ہوئے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا یہ بت تمہاری بات کو سنتے ہیں جب تم انہیں پکارتے ہو اور ان سے دعا مانگتے ہو یا تم کو کچھ نفع اور ضرر پر قادر ہو وہ کیسے قابل عبادت ہوسکتی ہے۔ بولے کہ یہ باتیں جو تم نے کہی ہیں وہ تو ہم نے ان میں نہیں پائی پر ہم نے اپنے بڑوں کو اسی طرح کرتے پایا۔ ہم تمہارے کہنے سے اپنے آبائی طریقے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا بھلا تم نے جانا بھی ہے کہ جن چیزوں کو تم پوجتے رہتے ہو اور تمہارے بڑے بھی پوجتے چلے آئے۔ یہ میرے اور تمہارے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے کہ اس کی عادت تو حق ہے اور اس کی سوا کسی اور چیز کی عبادت باعث مضرت ہے بلکہ باعث ہالکت ہے اور دشمن کا کام نقصان پہنچانا ہے۔ اس لیے انہیں دشمن فرمایا۔ کیونکہ کسی دشمن سے اتنا ضرر نہیں پہنچ سکتا جتنا کہ بتوں کی عبادت سے پہنچتا ہے اور وہ رب العالمین جس کی عبادت کی طرف میں تم کو بلاتا ہوں اس کی شان یہ ہے کہ اس نے مجھ کو پیدا کیا۔ پس وہی مجھ کو راہ دکھاتا ہے اور سیدھے راستے پر لے جارہا ہے پہلے جملہ میں اللہ کی وحدانیت کو بیان کیا کہ وہی میرا خالق ہے اور دوسرے جملہ میں مقام نبوت کو بیان کیا جدھر خدا مجھے لے جا رہا ہے میں ادھر جا رہا ہوں۔ می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست اور وہ جو مجھ کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے یعنی جس ذات نے پیدا کرنے کے بعد میرے لیے سامان زندگی بھی پیدا کیا۔ میرا وجود اور میری بقاء سب اس کے اختیار میں ہے اور زندگی میں جو تغیرات اور انقلابات پیش آتے ہیں وہ بھی سب اس کے ہاتھ میں ہیں اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہ مجھ کو شفا دیتا ہے اور وہ ذات جس نے مجھ کو پیدا کیا وہی مجھ کو اپنے وقت پر موت دے گا۔ پھر قیامت کے دن مجھ کو زندہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ میں بھی حادث اور میری بیماری بھی حادث اور میری صحت بھی حادث اور میری موت بھی حادث اور میری حیات بھی حادث اور وہ ذات ہے کہ جس سے میں طمع لگائے ہوئے ہوں کہ روز جزاء میں میری خطا معاف کرے۔ یعنی میری خطا پر مواخذہ نہ کرے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلیل اور معصوم بندے تھے۔ مگر سہو و نسیان سے کوئی بشر خالی نہیں اس لیے بطور تواضع و ادب اور لوگوں کی تعلیم کے لیے یہ فرمایا کہ لوگوں کو چہائے کہ اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں پر نظر رکھیں اور بتلایا ہے کہ لوگ جان لیں کہ خطاؤں کو معاف کرنے والا صرف وہی رب العالمین ہے۔ ومن یغفر الذنوب الا اللہ۔ سعدی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب کہا ہے۔ بندہ ھماں بہ کہ ز تقصیر خویش عذر بدرگاہ خدا آورد ورنہ سزا وار خدا و ندیش کس نتواند کہ بجا آورد یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے معبود برحق کی صفات بیان کیں کہ معبود برحق وہ ہے کہ جو ان صفات کے ساتھ موصوف ہو۔ تمہارے تراشیدہ بت قابل عبادت نہیں اور اللہ تعالیٰ کے انواع و اقسام کے الطاف کا اعتراف کیا اب اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) اپنی قوم سے منہ موڑ کر رب العلامین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں اے میرے پروردگار مجھ کو علم اور حکمت عطاء فرما اور مجھ کو اپنے خاص الخاص نیک بختوں میں شامل کر دے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا ہونا کسی سے ممکن نہیں اس لیے حضرات انبیاء (علیہ السلام) سب سے زیادہ لرزاں اور ترساں رہتے ہیں۔ قصہ اکبر میں امام اعظم ؓ سے مروی ہے کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ کوئی مخلوق اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت جو اس عبادت کا حق ہے ادا نہیں کرسکتی لیکن بندہ اس کے حکم کی فرمانبرداری اور بجا آوری کرتا ہے ” حکم “ سے علم اور حکمت اور نبوت اور وقت علمیہ کا کمال مراد ہے اور صلاح سے قوت علمیہ کا کمال مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دونوں دعائیں قبول کیں۔ ان کو علم و حکمت اور رسالت اور خلت سے سرفراز فرمایا اور صالحین میں سے بنایا۔ کما قال تعالیٰ وانہ فی الاخرۃ لمن الصالحین اور اے میرے پروردگار میرا ذکر خیر سچائی کے ساتھ پچھلے لوگوں میں جاری رکھ کہ پچھلے لوگ میرے طریقے پر چلیں اور ان کی نیکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرمائی۔ کما قال تعالیٰ وترکنا علیہ فی الاخرین سلام علی ابراہیم کذالک نجزی المحسنین۔ جس قدر ادیان سماویہ ہیں سب میں انکار ذکر خیر ہوتا ہے اور امت محمدیہ کو یہ حکم ہوا کہ التحیات میں جب درود پڑھا کریں تو اس کے ساتھ کما صلیت وبارک علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم۔ پڑھا کریں۔ اور اے الٰہی مجھ کو جنت النعیم کے وارثوں میں سے کر دے جو تیری نعمت اور کرامت کا باغ ہے یعنی بغیر تعب اور مشقت کے مجھ کو جنت عطا فرما۔ جیسے میراث بدون تعب اور مشقت کے ملتی ہے اور اے اللہ میرے باپ کی مغفرت فرما دے وہ گمراہوں میں سے تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کی اور باپ کو چھوڑ کر چلے اور مطلب یہ تھا کہ اے اللہ اس کو ایمان اور ہدایت کی توفیق نصیب فرما تاکہ وہ تیری مغفرت کا مستحق ہو سکے۔ ان کو یہ امید تھی کہ شاید وہ زندگی میں اسلام لے آئے لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے ایمان نہیں لائے گا یا یہ معلوم ہوگیا کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوگیا تو اس سے بیزار ہوگئے جیسا کہ سورة توبہ میں گزر چکا ہے۔ وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ ان آیات میں ابراہیم (علیہ السلام) کی ان دعاؤں کا ذکر تھا کہ جو مقام رجاء وطمع سے متعلق ہیں اب آئندہ آیت میں اس دعا کا ذکر کرتے ہیں جو مقام عظمت وہیبت اور مقام خوف و خشیت سے متعلق ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے پروردگار مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جس دن مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے لفظ اخزا خزی سے مشتق ہے خزی کے معنی ذلت اور خواری کے ہیں اور خزایت کے معنی ندامت اور شرمساری کے ہیں آیت میں دونوں معنی درست ہیں سبحان اللہ جب ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا یہ حال ہے کہ وہ روزحشر کی رسوائی سے ڈرتے ہیں تو کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ آخرت کی ذلت اور رسوائی سے بےفکر ہوجائے اور وہ دن بڑا ہولناک ہوگا جس دن نہ مال نفع دیگا اور نہ بیٹے لیکن اس دن کی پریشانی اور رسوائی سے وہ شخص بچ سکے گا جو اللہ کے پاس کفر اور شرک اور شکوک و شبہات سے دل سلامت لیکر حاضر ہوگا۔ جو شخص ایسا ہوگا تو لامحالہ اس نے اپنا مال خدا کی راہ میں لگایا ہوگا اور اپنی اولاد کو دین کی تعلیم دی ہوگی۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن مال اور اولاد سے نفع پہنچے گا۔ جنید (رح) فرماتے ہیں کہ ” سلیم “ کے معنی لغت میں مارگزیدہ کے ہیں مطلب یہ ہے کہ خوف خداوندی کی وجہ سے جس دل کی یہ کیفیت ہو کہ وہ مارگزیدہ کی طرح تلملاتا رہے تو وہ قیامت کے دن کامیاب ہوگا۔ اور وہ دن نہایت ہولناک اور ہیبتناک ہوگا اس دن جنت میدان حشر میں متقیوں کے قریب کردی جائے گی جو خزانہ ہے منافع اور فوائد کا تاکہ اہل ایمان جنت میں جانے سے پہلے ہی جنت کو دیکھ کر خوش ہوجائیں کہ ہمیں اس مقام پر جانا ہے اور جہنم گمراہوں کے سامنے ظاہر کردی جائے گی جو مخزن ہے تمام مصیبتوں اور ذلتوں اور آفتوں کا تاکہ اس کو دیکھ کر غمزدہ ہوں کہ اب ہمیں یہاں جانا ہے اور یہ ہمارا دائمی ٹھکانہ ہے یہ دیکھ کر انکے خوف اور نا امیدی اور پریشانی میں اور زیادتی ہوگی۔ کما قال تعالیٰ فلما راوہ زلفۃ سیئت وجوہ الذین کفروا۔ اس طرح سے جنت کو قریب کرنا مسلمانوں کے سرور کا باعث ہوگا اور دوزخ کا قریب کرنا کافروں کے رنج و غم کا باعث ہوگا۔ (تفسیر کبیر ص 418 ج 6) اور ذلت و مصیبت کا مخزن دکھلانے کے بعد گمراہوں کو ملامت کی اجائے گی اور ان سے کہا جائیگا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے تھے کیا وہ اس وقت تمہاری کچھ مدد کرسکتے ہیں یا اپنا ہی کچھ بچاؤ کرسکتے ہیں کیا اپنے آپ کو عذاب سے بچا سکتے ہیں پھر اس کہنے کے بعد وہ معبود یعنی بت وغیرہ اور بت پرست اور گمراہ اور ابلیس کا سب لشکر دوزخ میں اوندھے منہ ڈال دئیے جائیں گے سب کے سب دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے اور غوطے دئیے جائیں گے اور بت اور شیاطین اور گمراہیوں کے سردار جنہوں نے ان کو گمراہی پر آمادہ کیا تھا وہ اپنے پیروی کرنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرسکیں گے اور نہ خود اپنے کو عذاب سے بچا سکیں گے نہ ناصر ہونگے اور نہ منتصر اور یہ عابد و معبود وہاں پہنچ کر آپس میں جھگڑیں گے۔ عابدین اپنے معبودین سے کہیں گے۔ خدا کی قسم ہم کھلی گمراہی اور صریح غلطی میں تھے کہ ہم تمہاری عبادت کرتے تھے اور تم کو جہانوں کے پروردگار کی برابر ٹھہراتے تھے۔ اور خدا کی طرح بےچون و چرا تمہارے حکم کو مانتے تھے اور نہیں گمراہی میں ڈالا ہم کو مگر ان بڑے مجرموں نے جو اس گمراہی کے بانی تھے ان مجرموں نے جو باتیں ہم کو سکھائی وہ ہم نے مانی جیسا کہ دوسری جگہ ہے۔ ربنا انا اطعنا سادتنا وکبراء نا فاضلونا السبیلا۔ بالآخر اس طرح سے وہ اپنی گمراہی کا اقرار کریں گے پس اس وقت حسرت سے یہ کہیں گے کہ افسوس ہمارا کوئی سفارشی نہیں جیسے مومنوں کے سفارشی فرشتے اور انبیاء ہیں اور نہ کوئی شفیق اور مہربان دوست ہے کہ دلسوزی اور اظہار ہمدردی ہی کرے۔ سو کاش ہم کو پھر ایک مرتبہ دنیا میں لوٹنا نصیب ہوجائے تو ہم ایمان لانے والوں میں سے ہوجائیں اور پکے ایماندار بن کر واپس آئیں ان کی یہ بات بھی جھوٹ ہے ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ وانھم لکاذبون یہاں تک ابراہیم (علیہ السلام) کی تقریر ختم ہوئی۔ اب آگے حق جل شانہ کا ارشاد ہے۔ بیشک ابراہیم (علیہ السلام) کے اس تمام قصہ میں اہل عقل کے لیے بڑی پریشانی ہے اور عبرت اور نصیحت ہے اور حجت اور بصیرت ہے جو اللہ کی معرفت حاصل کرنا چاہے کیونکہ یہ قصہ ابطال شرک اور دلائل توحید اور گمراہوں کے عبرتناک انجام کے بیان پر مشتمل ہے کہ کفر اور شرک کا نجام دائمی عذاب ہے اور ایمان دائمی نجات کس سبب ہے اور باوجود اس کے قوم ابراہیم میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ ہوئے۔ اے نبی بیشک تیرا پروردگار ہی غالب ہے اور مہربان ہے یعنی وہ قادر ہے کہ اپنے دشمنوں سے فوری انتقام لے لے۔ لیکن وہ رحیم اور حلیم ہے کہ دشمنوں کو مہلت دیتا ہے۔
Top