Asrar-ut-Tanzil - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کے سامنے ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجئے
آیات 69 تا 104 اسرارومعارف اہل مکہ اور اہل عرب مشرکین خود کو دین ابراہیمی کا پیروکار جانتے تھے تو ارشاد ہوا کہ انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنا دیجیے کہ وہ کیا تھے ان کی تعلیمات کیا تھیں اور یہ لوگ کیا کر رہے ہیں انہیں وہ واقعہ بتائیے جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے سوال کیا تھا اور قوم سے بھی کہ آپ لوگ کس کی عبادت کرتے ہیں انہیں بت پرستی میں گرفتار دیکھ کر جاننا چاہا کہ آخر یہ بتوں میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور اسی میں عمریں تمام کردیتے ہیں تو انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ تمہارے حال سے واقف ہیں اور تمہاری پکار کو سنتے ہیں اور تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا اگر عبادت ترک کردو تو کیا ان کی ناراضگی سے کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ اس پر وہ لاجواب ہوگئے کہ ان میں سے تو کوئی بات بھی نہیں ہاں ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا ہی کرتے دیکھا لہذا ہم بھی کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ذرا غور کرو کہ جو کچھ تمہارے اجداد کرتے رہے اور اب تم کر رہے ہو یہ تباہی کا راستہ ہے اگر میں بھی ایسا کروں تو سخت نقصان اٹھاؤں گا کہ عبادت کا مستحق صرف وہ پروردگار ہے جو سارے جہانوں کا پیدا کرنے والا اور ان کی سب ضروریات پوری کرنے والا ہے۔ وہی ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور زندگی کے اسلوب سکھائے یعنی انسانی پیدائش اور پھر ایک بچے کا بڑا ہونا مفکر سائنسدان یا سیاستدان بننا امور دنیا کا چلانا اور کاروبار حیات میں سرگرم عمل ہونا ایسے ہی انبیاء و رسل کا انقلاب آفریں ہستی بننا یہ سب اس کی قدرت کاملہ کے مظاہر ہیں اور پھر انسان مسلسل غذا کا محتاج ہے اس کی روزی کا اہتمام فرماتا ہے صحت و بیماری زندگی کا حصہ ہیں جب بیماری آتی ہے اور پروردگار صحت بخشتا ہے وہ ہی مجھے موت سے ہمکنار کرے گا اور وہی پھر سے زندگی دے گا اور پھر اس کے سامنے سب کا حساب کتاب ہوگا جس میں مجھے اس سے امید کامل ہے کہ میری خطاؤں سے درگزر فرما کر مجھے بخش دے گا۔ انبیاء معصوم ہوتے ہیں ان سے خطا سرزد نہیں ہوتی مگر یہاں عظمت الہی کا اور اپنی طرف سے کمال ادب کا اظہار بھی ہے جبھی تو امید کا لفظ استعمال فرمایا نیز عموم بھی مقصود ہے کہ اللہ کا یہ معاملہ سب کے ساتھ ہے یعنی تمہیں بھی اسی کی عبادت کرنا چاہیے کہ اسی نے پیدا کیا علم و عمل کی توفیق دی موت اور زندگی صت و بیماری اسی کی طرف سے ہے اور آخرت میں اسی کی بخشش کی امید بھی۔ غیبت سے حضوری کی طرف : اللہ کی تعریف کرتے ہوئے اس کی بارگاہ میں حضوری کی کیفیت پیدا ہوگئی تو براہ راست دعا نکلی کہ اے اللہ مجھے حکم عطا کر۔ حکم سے مراد مفسرین کرام نے علم و حکمت فرمایا ہے ۔ احقاق حق کے لیے قوت نافذہ کی طلب : مگر تفسیر بحر محیط نے امام رازی کے حوالے سے نقل فرمایا ہے کہ علم و حکمت تو نبوت کا خاصہ ہے جو انہیں پہلے نصیب تھی یہاں مراد قوت نافذہ ہے جس کے ذریعہ سے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرسکیں اور باطل کو مٹا کر حق نافذ کرسکیں چونکہ اقتدار میں لوگوں کے بھٹکنے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اگرچہ انبیاء اس سے بالا تر ہوتے ہیں مگر تعلیم کی غرض سے دعا فرمائی کہ ایسا نہ ہو بلکہ مجھے حکومت و اقتدار عطا فرما کر نیکوں اور صالحین کے ساتھ شامل فرما یعنی میں اس قوت سے نیکی اور بھلائی نافذ کرسکوں اور ایسی کمال صداقت اور نیکی کے نفاذ کی قوت بخش کہ میری روایت بعد والوں میں بھی جاری ہو اور ہمیشہ حصول اقتدار تیری عظمت کے اظہار کا ذریعہ بنے نہ یہ کہ لوگ اس سے گمراہ ہوتے رہیں چناچہ آپ کی دعا کی اجابت نبی اکریم ﷺ کی بعثت اور مسلمانوں کی خصوصاً خلافت راشدہ کی حکومت کی صورت میں ظاہر ہوئی نیز آئندہ قیامت تک نیکی غالب اور نافذ کرنے والوں کو آپ کی دعا میط ہے اور میرے ان اعمال کو قبول فرما کر مجھے جنت اور اس کی نعمتوں کا وارث بنا دے۔ کافر کے لیے زندگی میں ہدایت کی دعا جائز ہے : نیز میرے والد کو ہدایت نصیب فرما کر اس کی بخشش کا سامان کردے کہ روز محشر میرے لیے شرمندگی کا باعث نہ ہو۔ آپ نے دعا تو فرمائی مگر ہدایت کے لیے بندے کا ذاتی فیصلہ اور دلی طلب ضروری ہے جو وہاں نہ تھی لہذا محروم رہے۔ اور پھر قیامت کے دن کا نقشہ کھینچا کہ اس روز مال و دولت جاہ و حشمت یا اولاد وغیرہ کام نہ آئیں گے کہ یہ سب اگر محض دنیا کے حصول کا ذریعہ بنے اور انسان کے دل کو اپنی محبت میں اسیر کرکے اللہ سے غافل کردیا تو تباہی کا باعث بن گئے قلب سلیم : ہاں مگر وہ لوگ جن کو قلب سلیم نصیب ہوا یا جو اپنے قلب کو سلامت لائے یعنی یعنی وہ اللہ کی محبت سے آباد اور اللہ کے نور سے روشن رہا اور جاہ و حشمت مال و دولت اور اولاد تک کو اللہ کے احکام کے نفاذ کا ذریعہ بنایا تو اس کا مال بھی اس کے کام آ گیا اور اولاد بھی اور قلب سلیم کا ذریعہ صرف اور صرف اللہ کا ذکر ہے جیسا کہ ارشاد ہے کہ اللہ کے ذکر سے قلب کو اطمینان نصیب ہوتا ہے اور ذکر کے سوتے قلب اطہر رسول اللہ ﷺ سے پھوٹتے ہیں اور شیخ انہیں کا امین ہوتا ہے جس کی نظر اور توجہ قلوب کو ذاکر اور روشن کردیتی ہے۔ اس روز جنت کو قریب ہی سجا دیا جائے گا جو اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے لیے ہوگی اور دوزخ بھی کھینچ کر سامنے کردی جائے گی کہ اللہ سے بغاوت کرنے والے بھی اپنے ٹھکانے کو دیکھتے ہیں پھر کفار سے سوال ہوگا کہ اللہ کو چھوڑ کر جن کو تم نے معبود بنا لیا تھا انہیں تلاش کرو کہ آج تمہاری مدد کرسکیں یا کیا وہ اپنا بچاؤ بھی کرسکتے ہیں ؟ پھر بتوں اور کفار کو اکٹا ہی الٹے منہ دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اور ابلیس کا سارا لاؤ لشکر بھی جہنم میں جھونک دیا جائے گا تب کفار و شیاطین آپس میں لڑیں گے اور کفار کہہ اٹھیں گے اللہ کی قسم ہم گمراہ تھے کہ تم جیسے ذلیل پتھروں کو اور شیاطین کو اللہ کے برابر درجہ دیتے تھے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گمراہ سرداروں اور بےدین لیڈروں نے ہمیں تباہ کردیا خود بھی مجرم تھے ہمیں بھی بنا دیا آج کوئی ہماری سفارش کرنے والا بھی نہیں اور نہ کوئی خیر خواہ دوست ہے ۔ کاش ایک بار پھر دنیا میں جانا نصیب ہوجائے تو ہم یقیناً مسلمان اور ایماندار بن جائیں گے ان سب باتوں میں کس قدر عبرت ہے مگر دنیا میں لوگوں کی اکثریت ایمان سے محروم رہتی ہے یہی حال اس زمانے میں اہل مکہ کا تھا اور آپ کا پروردگار غالب ہے چاہے تو سب کو تباہ کردے مگر وہ رحم کرنے والا ہے اور درگذر فرماتا ہے کہ انہیں مہلت نصیب ہے۔
Top