Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کی سرگزشت سنائو
آگے کا مضمون …… آیات 104-49 حضرت ابراہیم کی دعوت اور ان کی قوم کے ردعمل کا بیان آگے حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت اور ان کی قوم کے ردعمل کا ذکر ہے اور آخر میں وہی آیات ترجیح ہیں جو اوپر گزر چکی ہیں۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس سرگزشت کے منانے سے بھی مقصود وہی ہے جو پچھلی سرگزشت کے سنانے سے ہے۔ ایک بات یہاں خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ پچھلی سورة میں حضرت موسیٰ کے ذکر کے بعد حضرت نوح کا ذکر آیا تھا، بیچ کے انبیاء میں سے کسی کا ذکر نہیں آیا تھا۔ اس سورة میں حضرت ابراہیم کی سرگزشت نے اس خلا کو بھر دیا۔ اس لئے کہ حضرت نوح اور حضرت موسیٰ کے درمیان سب سے زیادہ جلیل القدر نبی حضرت ابراہیم ؑ ہی ہیں۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمایئے۔ آیت 71-69 حضرت ابراہیم ؑ کا سوال استفہام کی نوعیت کا نہیں بلکہ استخفاف کی نوعیت کا تھا۔ یعنی یہ کیا فضول اور بےحقیقت چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو ! ان کی قوم نے ان کا جواب حمیت جاہلیت کے پورے جوش و غرور کے ساتھ دیا کہ ہم بتوں کو پوجتے ہیں اور تمہارے علی الرغم اسی طرح ان کو پوجتے رہیں گے۔ تم کتنا ہی زور لگائو لیکن ہم اپنے ان معبودوں کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔
Top