Baseerat-e-Quran - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
(اے نبی ﷺ آپ ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ سنائیے
لغات القرآن : آیت نمبر 69 تا 104 : اتل (تلاوت کر۔ سنادے) اصنام (صنم) بت ‘ نظل (ہم رہتے ہیں) ‘ عکفین (عاکف) جم کر بیٹھنے والے ‘ یسمعون ( وہ سنتے ہیں) ‘ وجدنا ( ہم نے پایا) ‘ الا قدمون (پہلے) ‘ یطعمنی (وہ مجھے کھلاتا ہے) ‘ یسقین (یسقینی) وہ مجھے پلاتا ہے ‘ یشفین (یشفینی) وہ مجھے شفا (صحت) دیتا ہے ‘ یمیتنی (وہ مجھے موت دے گا) ‘ یحیین (یحیینی) وہ مجھے زندگی دے گا ‘ اطمع (مید امید کرتا ہوں۔ میں توقع رکھتا ہوں) ‘ حکما (علم و حکمت (فیصلہ) ‘ الحقنی (مجھے ملادے) ‘ لسان صدق (ذکر خیر۔ اچھا ذکر۔ سچی زبان) ‘ لاتخزنی (مجھے رسوانہ کیجئے گا) ‘ یبعثون (وہ اٹھائے جائیں گے) ‘ من اتی ( جو آیا۔ (جو لایا) ‘ قلب سلیم (پاک ‘ صاف ‘ سچا دل) ‘ ازلفت (قریب کردی گئی) ‘ برزت (ظاہر کردی گئی) غوین (گمراہ ہونے والے) ‘ ینتصرون (بدلہ لیں گے۔ بدلہ لے سکتے ہیں) ‘ کبکبوا (اوندھے پھینکے گئے) ‘ جنود (جند) لشکر ‘ یختصمون ( وہ جھگڑتے ہیں ‘ تاللہ (اللہ کی قسم) ‘ نسوی (ہم نے برابر کردیا۔ برابر کا درجہ دیا) ‘ اضلنا (ہمیں گمراہ کیا) ‘ حمیم (غم خوار ‘ مخلص دوست) ‘ کرۃ (دوبارہ) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 69 تا 104 : سورۃ الشعراء میں سات انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واقعات کا ذکر خیر فرمایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تذکرہ کے بعد اب ابو الا نبی اء حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کی ان قربانیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جس میں انہوں نے کفر و شرک ‘ بدعات اور فضول رسموں کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ حق و صداقت کی سربلندی کے لئے اپنی قوم ‘ گھر اور خاندان کی راحتوں اور سکھ چین کو چھوڑ کر فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔ اور ساری زندگی کفر وشرک کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ قرآن کریم میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کی بعثت کا بنیادی مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی تعلیمات کو بھلا کر کفر ‘ شرک رسم و رواج اور غیر اللہ کی عبادت و بندگی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہوں ان کو یاد دلادیا جائے کہ اگر انہوں نے اپنی روش زندگی کو نہ بدلا تو ان کو جہنم کی آگ اور دنیاوی ذلتوں سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ جنت کی ابدی راحتوں کی خشبو سے بھی محروم رہیں گے۔ اسی توحید خالص کی تعلیم کے لئے وہ اپنی دعوت کا آغاز ” لا الہ الا اللہ “ سے کرتے ہیں یعنی اس بات کا یقین کامل پیدا کرنا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں ہے۔ اس کائنات ” الہ “ اگر کوئی ہے تو وہ صرف ایک اللہ ہی ہے جس کا کوئی کسی طرح شریک نہیں ہے وہی ہر طرح کی حمد وثناء اور تعریفوں کا مستحق ہے اور بیشمار صفات کا مالک ہے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء کرام خود اللہ کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو اس بات کا درس دیتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی رسموں کے بجائے صرف اس ایک اللہ کو اپنا خالق ومالک سمجھیں جس نے اس کائنات کو پیدا کرکے اس کا نظام اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ وہ اس نظام کے چلانے میں کسی محتاج نہیں ہے۔ جب اس نظریئے پر ایک جماعت تیار ہوجاتی ہے تو ان کو دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا یقین دلایا جاتا ہے لیکن جو لوگ انبیاء کرام کا بتایا ہوا راستہ چھوڑ کر رسم و رواج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور وہ نبیوں کا نام تو لیتے ہیں اور ان کی عظمت کے ترانے بھی گاتے ہیں مگر عملاً وہ ہر ایسا کام کرتے ہیں جس سے انبیاء کرام نے زندگی بھر منع کیا ہو۔ چنانچہ جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت پوری قوم اللہ اور اس کے احکامات کو بھول کر غیر اللہ کی عبادت و بندگی کفر ‘ شرک اور بری رسموں کی اس طرح عادی ہوچکی تھی کہ اس کے خلاف بولنے والوں کو دیوانہ کہا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس بسنے والے بیشمار خاندان اور قبلیے تھے جن کو یہ ناز تھا کہ ہم ابراہمی ہیں مگر عملاً ہر وہ کام کرتے تھے جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نینہ صرف منع کیا تھا بلکہ توحید خالص کے نظام کو قائم کرنے کے لئے پوری زندگی وہ قربانیاں پیش کیں جن کی عظمت کا اعتراف خود اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ” اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو طرح طرح سے آزمایا جس میں وہ پورے اترے۔ جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیشوائی و امامت کا وہ مقام عطا کیا جو کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوسکا “۔ (بقرہ) حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی کے ان ہی پہلوؤں کا ان آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! آپ ان لوگوں کو جو کفر و شرک اور رسم و رواج میں مبتلا ہیں بتا دیجئے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت کیا ہے ؟ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر اور اپنی بت پرست قوم سے پوچھا کہ تم کن فضول چیزوں کی عبادت کرتے ہو ؟ کہنے لگے کہ ہم بتوں کی پوجا کرتے اور ان ہی کی خدمت میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ اچھا بتائو جب تم انہیں پکارتے ہو تو یہ تمہاری پکار سنتے ہیں ؟ یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟ رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح کرتے تھے لہٰذا ہم بھی کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تم نے اور تمہارے گزرے ہوئے باپ دادا نے آنکھیں کھول کر کبھی دیکھا ہے کہ تم کن چیزوں کی عبادت و بندگی کررہے ہو ؟ حق و صداقت کی اس آواز کو سنتے ہی اپنے پرائے سب دشمن ہوگئے اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سوائے رب العالمین کے ہر شخص میری دشمنی پر آمادہ نظر آتا ہے۔ رب العالمین جس نے مجھے پیدا کرکے میری صحیح رہنمائی کی ہے۔ جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔ اگر میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا اور صحت عطا فرماتا ہے۔ وہی مجھے موت دے گا اور وہی مجھے دوبارہ زندگی دے گا۔ مجھے صرف اسی رب العالمین سے امید ہے کہ قیامت کے دن میری بھول چوک کو معاف فرمادے گا۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پروردگار سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا۔ الہٰی ! مجھے علم و حکمت عطا فرما۔ اور مجھے صالحین میں شامل فرمائیے گا۔ اور بعد میں آنے والوں میں مجھے نام وری عطا فرمایئے گا۔ اور مجھے راحت بھری جنتوں کا وارث بنایئے گا۔ الہی میرے باپ کو معاف فرمادیجئے کیونکہ وہ گمراہی کے راستے پر چل رہا ہے۔ اور مجھے اس دن رسوانہ کیجئے گا جب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے اور جس دن مال واولاد کسی کے کام نہ آسکے گی۔ البتہ وہ جو ” قلب سلیم “ (یعنی ایسا دل لے کر حاضر ہوگا۔ جو کفر و شرک ‘ حسد ‘ بغض اور انبیاء کی دشمنی سے پاک ہوگا) ۔ یہ وہ دن ہوگا۔ جب تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرنے والوں کے قریب جنت کو لایاجائے گا اور گمراہوں کے سامنے جہنم ظاہر کردی جائے گی۔ اس وقت ان سے پوچھا جائے گا کہ اللہ کو چھوڑ کر تم جن لوگوں اور چیزوں کی عبادت و بندگی کرتے تھے آج وہ کہاں ہیں ؟ کیا آج وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں یا وہ اپنا ہی بچائو کرسکتے ہیں ؟ اس کے بعد وہ گمراہ لوگ اور شیطانوں کا لشکر سب کے سب اوندھے منہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ وہاں وہ سب آپس میں جھگڑیں گے اور یہ گمراہ لوگ اپنے جھوٹے معبودں سے کہیں گے کہ اللہ کی قسم ‘ ہم تو کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے جب ہم نے تمہیں اللہ کے برابر کا درجہ دے رکھا تھا۔ ہمیں تو مجرمین نے راستے سے بھٹکادیا تھا۔ آج نہ تو کوئی ہماری طرف سے سفارش کرنے والا ہے نہ کوئی مخلص دوست ہے۔ اب حقیقت ہم پر کھل گئی ہے کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں جا کر اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل جاتا تو ہم اپنی اصلاح کرکے ایمان والوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کو جس آیت پر ختم کیا ہے اسی آیت پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کو بھی ختم فرمایا ہے کہ بیشک اس میں سمجھ اختیار کرنے والوں کے لئے ایک زبردست نشانی ہے۔ مگر ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو یہ سب کچھ دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہیں گے اور وہ ایمان نہ لائیں گے۔ فرمایا کہ اللہ ہر طرح کی طاقت و قوت اور قدرت رکھنے کے باوجود نہایت مہربان اور کرم کرنے والا ہے اس کی یہ زبردست مہربانی ہے کہ وہ کسی گناہ گار اور کفر و شرک اختیار کرنے والے فوراً ہی نہیں پکڑتا بلکہ ان کو سنبھلنے ‘ سمجھنے اور غور وفکر کرنے کی مہلت پر مہلت دیئے جاتا ہے۔ ان آیات میں ایک مرتبہ پھر نبی کریم ﷺ اور آپ کے جان نثار صحابہ کام کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نام تو لیتے ہیں اور اپنے ابراہیمی ہونے پر فخر کرتے ہیں مگر ہر وہ کام کرتے ہیں جو انکی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ یہی ان کی گمراہی کا سبب ہے۔ لہٰذا اہل ایمان اپنی زندگی کو رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے اصولوں پر ڈھال لیں اور اس راستے سے بچیں جس پر چل کر کفار و مشرکین اپنے لئے جہنم کما رہے ہیں۔ نجات اور کامیابی صرف اللہ و رسول کی اطاعت میں ہے۔ جس طرح اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ماننے والوں پر مہربانی فرمائی اور وہ کامیاب ہوئے اسی طرح رسول اللہ ﷺ اور ان کے جاں نثاروں کو بھی دنیا اور آخرت کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔
Top