Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
(واتل علیھم نبا۔۔۔۔۔ ) 1 ؎۔ المستدرک للحاکم، جلد 2 ص 439، دارالکتب العلمیۃ واتل علیھم نبا ابراہیم مشرکوں کو ان کی انتہائی جہالت پر آگاہ کیا کیونکہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اعتقاد و دین سے اعراض کرنے والے تھے جب کہ وہ ان کے جد اعلیٰ تھے۔ نبا کا معنی خبر ہے یعنی اے محمد ! ان پر اس کی خبر، اس کی گفتگو اور قوم جن کی عبادت کرتی تھی اس پر عیب لگانے کو بیان کر دیجئے۔ یہ اس لیے فرمایا تاکہ ان پر حجت لازم کردی جائے۔ جمہور قراء دوسرے ہمزے میں تخفیف کرتے ہیں، یہ بہترین توجیہ ہے، کیونکہ تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک کلمہ میں دوسرے ہمزہ میں تخفیف کرتے ہیں جس طرح آدم۔ اگر تو چاہے تو دونوں کو ثابت رکھ اور تو کہے نبا ابراہیم اگر تو چاہے تو دونوں میں تخفیف کرلے تو کہہ لے نبا ابراہیم، اگر چاہے تو پہلے میں تخفیف کرلے۔ وہاں پانچویں توجیہ بھی ہے مگر یہ عربی میں بعید ہے کہ ہمزہ کو ہمزہ میں مدغم کردیا جائے جس طرح جو آدمی سر بیچتا ہے اسے راس کہتے ہیں۔ یہ تعبیر بعید ہے کیونکہ تو وہ ہمزوں کو جمع کررہا ہے گویا وہ یہ ایک کلمہ میں ہیں، فعال کے وزن میں یہ اچھا ہے کیونکہ وہ مدغم میں آتا ہے۔ اذا قال لا بیہ وقومہ ما تعبدون یعنی تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ؟ قالو انعبد اضناما ان کے بت سونے، چاندی، پیتل، لوہے اور لکڑی کے ہوتے تھے۔ فنظل لھا عکفین ہم ان کی عبادت پر قائم رہیں گے مراد وقت معین نہیں بلکہ جس کام میں وہ مصروف تھے اس کی خبر دی جا رہی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ دن کو عبادت کرتے تھے رات کو عبادت نہیں کرتے تھے۔ وہ رات کے وقت ستاروں کی عبادت کیا کرتے تھے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : ظل یفعل کذا۔ جب وہ دن کو کام کرے۔ بات یفعل کذا۔ جب رات کو کوئی عمل کرے۔ قال ھل یسمعونکم اخفش نے کہا : اس میں حذف ہے معنی ہے کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں ؟ یا کیا وہ تمہاری دعا سنتے ہیں ؟ یعنی تقدیر کلام یہ ہے ھل یسمعون دعاء کم۔ شاعر نے کہا : القائدالخیل منکوبا دوابرھا قد احکمت حکمات القد والابقا کہا ابق سے مراد کتان (السی کا پودا) ہے حذف ہے اصل ہے احکمت حکمات الابق۔ صحاح میں ہے ابق جب حرکت کے ساتھ ہو تو اس سے مراد قنب ( ایک درخت جس کی چھال سے رسی بنائی جاتی ہے) قتادہ سے مروی ہے انہوں نے قرأت کی ھل یسمعونکم یاء پر ضمہ ہے یعنی کیا وہ تمہیں اپنی آوازیں سناتے ہیں ؟ اذا تدعون۔ او ینفعونکم او یضرون کیا یہ بت تمہیں نفع پہنچاتے ہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں یا اگر تم نافرمانی کرو تو تمہارے لیے خیر اور شر کے مالک ہیں ؟ یہ استفہام حجت ثابت کرنے کے لئے ہے جب وہ تمہیں نفع اور نقصان نہیں دے سکتے تو پھر تمہارا کی عبادت کا کیا مقصد ہے ؟ قالو بل وجدنا ابا نا کذلک یفعلون وہ حجت اور دلیل کے بغیر تقلید کی طرف پھرگئے، اس کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ قال افرء یتم ما کنتم تعبدون۔ انتم وابا و کم الا قدمون۔ فانھم عدونی۔ قال میں ضمیر سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں ما سے مراد یہ بت ہیں۔ الا قدمون سے مراد پہلے ہیں۔ عدد واحد کا صیغہ ہے جماعت کا معنی دیتا ہے اسی طرح عورت کے لیے کہا جاتا ہے : ھی عدو اللہ وعدوۃ اللہ۔ فراء نے دونوں کا ذکر کیا ہے۔ علی بن سلیمان نے کہا : جس نے عدوۃ اللہ کہا اور ھاء کو ثابت رکھا تو اس نے کہا یہ معادیۃ کے معنی میں ہے۔ جس نے مونث اور جمع کے لیے عدو کا لفظ ذکر کیا اس نے اسے نسبت کے معنی میں لیا اور جماد کا صفت عداوت سے لگائی معنی ہوگا اگر میں نے ان کی عبادت کی تو یہ قیامت کے روز میرے دشمن ہوں گے، جس طرح فرمایا : کلا سیکفرون بعیادتھم و یکونون علیھم ضدا۔ ( مریم) فراء نے کہا : یہ مقلوب میں سے ہے اس کا معنی ہوگا میں ان کا دشمن ہوں کیونکہ تو جس سے دشمنی کرے وہ تجھ سے دشمنی کرے گا۔ پھر فرمایا : الا رب العٰلمین کلبی نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے کہ الا من عند رب العالمین، الا عابد رب العالمین مضاف حذف کردیا گیا۔ ابو اسحاق زجا ج نے کہا : نحویوں نے کہا یہ اول سے مستثنیٰ نہیں۔ ابو اسحاق نے اجازت دی کہ یہ اول کلام سے مستثنیٰ ہو اس معنی پر کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے ساتھ بتوں کی عبادت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو چھوڑ کر جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے مبرا ہے۔ فراء نے اس کی تاویل صرف اصنام سے کی ہے اس کے نزدیک معنی ہے اگر میں ان کی عبادت کروں تو قیامت کے روز وہ میرے دشمن ہوں گے جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے۔ جرجانی نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے افرایتم ما کنتم تعبدون انتم وآباء کم الا قد موت الا رب العالمین فانھم عدولی۔ اور یہ سوی اور دون کے معنی میں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَۃَ الْاُوْلٰی ج “ (الدخان : 56) یہاں بھی الا، دون کے معنی میں ہے۔
Top