Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ
: اور آپ پڑھیں
عَلَيْهِمْ
: ان پر۔ انہیں
نَبَاَ
: خبر۔ واقعہ
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
آیت نمبر 69 تا 104 ترجمہ : وَاتْلُ عَلَیھِمْ اور کفار کو ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ (بھی) سنائے اِذْ قَالَ لِاَبِیْہٖ ، نَبَا اِبراہیم سے بدل الاشتمال ہے جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد صاحب اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی بندگی کرتے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا بتوں کی بندگی کرتے ہیں فعل کی صراحت کی، تاکہ اس پر فَنَطَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ کا عطف کرسکیں ہم تو دن بھر ان کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں یعنی ہم پابندی سے دن بھر ان کی عبادت کرتے ہیں، اور انہوں نے جواب میں (فَنَظَلُّ ) کا اضافہ (بتوں کی) عبادت پر فخر کے طور پر کیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا یہ تمہاری سنتے بھی ہیں جب تم ان کو پکارتے ہو ؟ یا تمہارے ان کی عبادت کرنے کی صورت میں تم کو نفع یا عبادت نہ کرنے کی صورت میں نقصان پہچاتے ہیں ؟ انہوں نے کہا (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا ہے یعنی جس طرح ہم کرتے ہیں (ابراہیم علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم اور تمہارے اگلے باپ دادے جن (بتوں) کی بندگی کرتے ہو کبھی ان کی حالت میں غور کیا ؟ یہ سب میرے دشمن ہیں میں ان کی بندگی نہیں کرتا لیکن رب العالمین کی بندگی کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا سو وہی دین کی طرف رہبری فرماتا ہے وہی ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوجاؤں تو مجھے شفا عطا فرماتا ہے اور وہی مجھے موت دے گا اور پھر مجھے زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے امید کرتا ہوں کہ روز جزاء وہ میری خطاؤں کو معاف کر دے گا اے میرے پروردگار مجھے علم عطا فرما اور مجھ کو صالحین یعنی نبیوں کے زمرہ میں شامل فرما اور بعد والوں میں میری نیک شہرت عطا فرما یعنی ان لوگوں میں جو میرے بعد قیامت تک آئیں گے اور مجھ کو جنت النعیم کے وارثوں میں امل فرما یعنی ان لوگوں میں جن کو جنت عطا کی جائے گی اور میرے والد کو معاف فرما بلاشبہ وہ راستہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اس طریقہ سے کہ تو ان کی توبہ قبول فرما کہ ان کی مغفرت کردی جائے، اور یہ (دعاء) اس سے پہلے کی بات ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر اس کے دشمن خدا ہونے کی حقیقت واضح ہوئی، جیسا کہ سورة برأۃ میں ذکر کیا گیا ہے اور لوگوں کو دوبارہ زندہ کئے جانے کے دن مجھے رسوا کر اللہ تعالیٰ نے اس دن کے بارے میں فرمایا جس دن مال و اولاد کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے لیکن جو شخص شرک و نفاق سے سالم دل لیکر آئے گا اور وہ مومن کا قلب ہوگا یہ چیزیں اس کے لئے سود مند ہوں گی اور متقیوں کے لئے جنت بالکل قریب کردی جائے گی کہ وہ اس کو دیکھیں گے اور کافروں کے لئے جہنم ظاہر کردی جائے گی اور ان سے پوچھ ہوگی کہ جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کیا کرتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ یعنی اللہ کے علاوہ بتوں کی، کیا وہ تم سے عذاب دفع کرکے تمہاری مدد کرسکتے ہیں ؟ یا خود اپنا ہی دفاع کرسکتے ہیں ؟ نہیں پس وہ اگر لوگ اور ابلیس کا لشکر اور اس کے متبعین اور جن و انس میں سے جس نے اس کی اطاعت کی ہوگی سب کو جہنم میں اوندھے منہ کرکے ڈال دیا جائے گا اور کفار جہنم میں اپنے معبودوں کے ساتھ جھگڑتے ہوئے کہیں گے اللہ کی قسم بلاشبہ ہم کھلی گمراہی میں تھے اِنْ مخففہ عن المثقلہ ہے اس کا اسم محذوف ہے ای اِنَّہٗ جبکہ ہم تم کو عبادت میں رب العالمین کے برابر ٹھہرا رہے تھے اور ہمیں تو سوائے ان بدکاروں کے ہدایت سے کسی نے گمراہ نہیں کیا یعنی شیاطین نے یا ان پہلے لوگوں نے جن کو ہم نے اقتداء کی، اب ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں، جیسا کہ مومنین کے لئے ملائکہ اور انبیاء اور مومنین سفارشی ہیں، اور نہ کوئی سچا غمخوار دوست جس کو ہماری حالت غمگین کر دے کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں واپس جانا مل جاتا تو ہم ایمان لے آتے، لَوْ یہاں تمنی کے لئے ہے اور نَکُوْنَ اس کا جواب ہے بلاشبہ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مذکورہ قصہ میں بعد والوں کے لئے نشان (عبرت) ہے ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں یقیناً آپ کا پروردگار ہی غالب مہربان ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد وَاتلُ علیھم نبا ابراہیم واؤ عاطفہ ہے اور (ما سبق میں) اذکر مقدر پر عطف ہے جو کہ اِذْ نَادَیٰ رَبُّکَ مُوْسٰی میں عامل ہے یہ عطف قصہ علی القصہ ہے۔ قولہ : اِذ قال لِاَبیہِ وَقومِہٖ مَا تَعْبُدُونَ نَبَاَ ابراھِیْمَ سے بدل مفصل عن المجمل ہے۔ قولہ : صَرّحوا بالفعل لیَعْطَفُوْا علیہ اس عبارت کے اخافہ کا مقصد ایک اعتراض کا جواب ہے، اعتراض یہ ہے کہ مَا تَعْبُدُوْنَ کے جواب میں قیاس کا تقاضہ یہ تھا کہ (فقط) اَصْنَامًا کہتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ویَسْئلونک مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلَ العَفْوَا میں، اس لئے کہ جب سوال میں فعل مذکور ہوتا ہے تو جواب میں فعل کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، جواب یہ ہے کہ فعل نَعْبُدُ ذکر کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ فَنَظَلُّ لَھَا عَاکِفِیْنَ کا عطف درست ہوجائے ورنہ تو فعل کا عطف اسم پر لازم آتا۔ قولہ : نُقیمُ نَھَارًا یہ نَظَلُّ کے معنی کا بیان ہے اب رہی یہ بات کہ فَنَظَلُّ لھَا عاکِفِینَ کہنے کی کیا ضرورت پیش آئی تو اس کا جواب یہ ہے چونکہ مشرکوں کو بت پرستی پر فخر تھا وہ اس کو معیوب سمجھنے یا اس پر نادم ہونے کی بجائے اس پر فخر کرتے تھے اس لئے انہوں نے فنظَلُّ لھَا عاکفینَ کہا کہ ہم تو دن بھر یعنی ہمہ وقت ان کے سامنے جھکے رہتے ہیں اور یہ ہمارے لئے باعث فخر ہے نہ کہ باعث ندامت قولہ : ھَلْ یَسْمَعُوْنَکُمْ یہاں مضاف محذوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے ھَلْ یَسْمَعُوْنَ دُعائَکُمْ اس لئے کہ ذوات کے سننے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ قولہ : اَفَرَاَیْتُمْ میں ہمزہ فعل محذوف پر داخل ہے فاعاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَأمَّلْتُمْ فَاَبْصَرْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ ۔ قولہ : وَآبَائُکُمْ کا عطف تعبدون کے اندر ضمیر مرفوع متصل پر ہے اسی وجہ سے ضمیر مرفوع منفصل اَنْتُمْ کے ذریعہ تاکید لائی گئی ہے۔ قولہ : فَاِنّھُمْ عَدُوٌّ لِّیْ وہ میرے دشمن ہیں عداوت کی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی طرف کی ہے یہ تعریض ہے اور باب نصیحت میں تعریض تصریح سے ابلغ ہے یعنی بجائے اس کے کہ یوں کہتے فَاِنَّھُمْ عَدُوٌّ لَّکُمْ ، فَانھم عَدُوٌّلِّیْ کہا۔ قولہ : اِلاَّ لکن رب العٰلمِینَ اِلاَّ کی تفسیر لکنّ سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ استثناء منقطع ہے، معنی یہ ہیں لکنّ ربّ العٰلَمِینَ لیسَ بِعَدُوِّیْ بَلْ ھو وَلِیِّ فِیْ الدُّنْیَا وَالاٰخرۃِ ۔ قولہ : اَلَّذِیْ خلقنِیْ یہ یا تو رب العالمین کی صفت ہے یا بدل ہے یا عطف بیان ہے یا ھُوَ مبتداء محذوف کی خبر ہے اور اس کا مابعد اس پر معطوف ہے۔ قولہ : وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنَ اس میں مرض کی نسبت اپنی طرف کی ہے نہ کہ اللہ کی طرف ایسا غایت ادب کی وجہ سے کیا ہے۔ قولہ : لِسانَ صِدْقٍ یہ اضافت موصوف الی الصفت ہے ای اللسان الصدق۔ قولہ : قال تعالیٰ فیہ ای فی شان ذٰلکَ الیوم بعض حضرات نے کہا ہے کہ یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام ہے اور یوَوْمَ یُبْعَثُوْنَ سے بدل ہے، پہلی صورت میں بھی بدل کہا مگر وہ اعتراض سے خالی نہیں ہے۔ قولہ : اِلاَّ لکن مَن اتٰی اللہُ بقلبٍ سلیمٍ شارح نے اِلاَّ کی لکن سے تفسیر کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مستثنیٰ منقطع ہے لیکن اَحْدًا مفعول (محذوف) کا تقاضہ یہ ہے کہ مستثنیٰ متصل ہو دونوں میں تضاد معلوم ہوتا ہے تطبیق کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ مستثنیٰ منہ اگر مالٌ ولا بَنُوْنَ کو قرار دیا جائے تو مستثنیٰ منقطع ہوگا اور اگر مستثنیٰ منہ اَحْدًا کا قرار دیا جائے تو مستثنیٰ متصل ہوگا، اس لئے کہ مَن اَتٰی اللہ مستثنیٰ منہ اَحْدًا کی جنس سے ہے اور پہلی صورت میں مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہیں ہے۔ قولہ : اَیْنَمَا کنتم تَعْبُدُوْنَ ، اینَ خبر مقدم ہے اور مَا مبتداء مؤخر بمعنی الّذی ہے اور کنتم تعبدون ما کا صلہ ہے عائد محذوف ہے ای تعبدونَہٗ اور مِنَ دونِ اللہِ حال ہے تقدیر عبارت یہ ہوگی مَا کنتُمْ تعبدُونَہٗ اَینَ ۔ قولہ : فَلَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً بالفارسیۃ پس کاش مار ایک بار رجوع باشد، کاش ہم کو ایک مرتبہ دنیا میں واپس جانا مل جاتا۔ قولہ : لوْ ، گُنَا لِلتمنی، فنکونَ مِنَ المؤمنین اس کا جواب ہے، بعض حضرات نے کہا ہے کہ لَوْ شرطیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے اور فَنَکُونَ ، کَرَّۃً پر معطوف ہے، تقدیر عبارت یہ ہے لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فنکونَ مِنَ المومنینَ لَرَجَعْنَا عَمَّا کنَّا علیہ یا جواب لخَلّصْنَا مِنَ العَذَابِ ہوسکتا ہے۔ تفسیر و تشریح واتل۔۔۔۔ ابراھیم مشرکین مکہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) ان کے جد امجد ہیں، آپ ﷺ کو حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ ان کو ان کے جدامجد ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ سنائیے اور بتائیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستی کے خلاف کس قدر جدوجہد کی اور کس قدر تکلیفیں برداشت کیں اور بت شکنی کا فرض انجام دیا اور تم ان کی نسل سے مدعی ہونے کے باوجود بت پرستی میں مبتلا ہو۔ واقعہ کا آغاز اس طرح فرماتے ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد اور اپنی قوم سے پوچھا کہ تم کس چیز کی بندگی کرتے ہو، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا سوال اس لئے نہیں تھا کہ ان کو معلوم نہیں تھا کہ میرے والد صاحب اور میری قوم کس چیز کی پوجا کرتی ہے ؟ بلکہ مقصد یہ تھا کہ جو کچھ یہ لوگ جواب دیں گے میں اپنی دلیل کے مقدمات انہی کے مسلمات کو بناؤں گا، چناچہ قوم نے جواب دیا نَعْبُدُ اَصْنَامًا جب قوم نے اقرار کرلیا کہ ہم تو انہی خود تراشیدہ شجر و حجر ومدد کے بتوں کی پوجا کرتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے انہی کے اقرار پر اپنی دلیل کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمایا ” تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے بھی ہیں ؟ یا تمہیں یہ نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس سوال کا قوم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، لا جواب ہوگئے جھنجھلاکر کہنے لگے ہم کچھ نہیں جانتے ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے لہٰذا ہم بھی اسی طرح کرتے ہیں، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اَفَرَاَیْتُمْ مَا کُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ یعنی جن چیزوں کی تم پوجا پاٹ کرتے ہو تم نے کبھی ان کی حقیقت میں غور کیا ؟ آیا ان کے اندر کوئی ایک صفت بھی ایسی ہے جس کی وجہ سے ان کو مستحق عبادت قرار دیا جاسکے ؟ ان کی پوجا پاٹ کرنا ایک پرانی حماقت ہے، ورنہ جس کے قبضہ میں ذرہ برابر نفع نقصان نہ ہو ان کی بندگی کیسی ؟ لو میں ابھی تمہارے سامنے علی الاعلان کہتا ہوں کہ یہ میرے دشمن ہیں میری ان سے لڑائی ہے میں ان کی گت بنا کر رہوں گا، اگر ان کے اندر کوئی طاقت ہے تو مجھ کو نقصان پہنچا کردکھائیں تَاللہِ لاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعُدَ اَنْ تَوَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ (انبیاء) لہٰذا ان کی عبادت اور بندگی سراسر ضرر اور نقصان ہے، البتہ اللہ رب العالمین وہ دشمن نہیں بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے، میں تو اسی کی بندگی کرتا ہوں اور اسی نے مجھے پیدا کیا اور وہی میری رہنمائی کرتا ہے اور وہی مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور بیمار ہونے کی صورت میں شفا دیتا ہے اور وہی موت دے گا اور وہی زندہ کرے گا، مذکورہ تمام صیغوں میں یائے متکلم کو فواصل کی رعایت کی وجہ سے حذف کردیا گیا مثلاً یَھْدینَ اصل میں یَھْدِیْنِی تھا یائے متکلم کو حذف کردیا گیا۔ والذین۔۔۔۔ یغفرلی انبیاء (علیہ السلام) اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لئے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں، پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں طالب عفو ہوں گے وَاجْعَلْ لِیْ لسانَ صدقٍ یعنی جو لوگ میرے بعد آئیں وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزاء اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثناء حسن کی صورت میں عطا فرماتا ہے جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں۔ وَاغفِرلِاَبِیْ جس شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کی موت کفر پر ہوئی ہے تو ایسے شخص کیلئے دعاء مغفرت جائز نہیں اس لئے کہ قرآن کریم نے صراحت کے ساتھ اس سے ممانعت فرمائی ہے مَا کان لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوْا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا اُولی قربیٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اصحٰبُ الجَحِیْم۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کے لئے دعا مغفرت اس وقت کی تھی جب تک ان پر یہ واضح نہیں تھا کہ مشرک کیلئے دعاء مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے یہ واضح کردیا تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کردیا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ للہِ تَبَرَّأ مِنْہُ (توبہ) ۔ قولہ بان تتوب باَنْ تَتُوْبَ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا وَاغفِرْلِاَبِیْ اپنے والد کی زندگی میں کی تھی اس لئے کہ توبہ کی توفیق اور اس کیلئے دعا تو زندگی ہی میں ہوسکتی ہے اور شارع کے قول ھٰذا قبْلَ اَنْ یَّتَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوُّ اللہِ کا مقتضیٰ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا اپنے والد کے لئے انتقال کے بعد کی تھی اس لئے کہ کفر پر مرنا انتقال کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے، تفسیر کبیر میں تطبیق اس طرح دی ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد نے پوشیدہ طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ میں تیرے ہی دین پر ہوں گو مصلحتاً و تقیۃً نمرود کے دین پر ہوں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس بات کو حقیقت سمجھتے ہوئے دعاء فرمائی لیکن جب حقیقت اس کے خلاف معلوم ہوئی تو اس سے برأت ظاہر کردی، اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعاء میں وکان من الضالین فرمایا، اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ اعتقاد نہ ہوتا کہ وہ فی الحال ضالین میں سے نہیں ہے تو وہ کان من الضالین نہ فرماتے۔ (حاشیہ جلالین) قولہ : لا تخزنی یوم یُبْعَثُوْنَ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا لاتخزنی یوْمَ یُبْعَثُوْنَ فرمانا خدا کی عظمت و جلال کے سامنے تو اضع و انکساری کا اظہار تھا ورنہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جلالت شان سے کون واقف نہیں اولو العزم پیغمبروں میں سے ہیں، نیز اس سے امت کو تعلیم بھی مقصود ہے، ایک حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس رسوائی اور ذلت سے بچنے کی دعا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمائی ہے اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ میرے والد محترم کو عذاب میں گرفتار کرنے کی وجہ سے رسوائی اور ذلت ہوگی اس سے میری حفاظت فرما، حدیث کا مضمون یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کیلئے دعاء مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائیگا میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے پھر ان کے والد کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بچوں کی شکل میں جہنم میں ڈالدیا جائے گا۔ (صحیح بخاری سورة الشعراء و کتاب الانبیاء، باب قول اللہ واتخذ اللہ ابراھیمَ خلیلاً ) یوم لا ینفع۔۔۔۔۔ سلیم، بعض حضرات نے اس آیت میں استثناء منقطع قرار دیکر یہ تفسیر کی ہے کہ کسی کو اس روز اس کا مال کام نہ آئے گا نہ اولاد، البتہ کام آئے گا تو اپنا قلب سلیم کام آئے گا یعنی ایسا قلب کہ جو کفر و شرک و نفاق کی بیماری سے محفوظ ہوگا، خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ روز قیامت کسی کا مال و اولاد کام نہ آئے گا، کام صرف اپنا ایمان اور عمل صالح آئے گا، جس کو قلب سلیم سے تعبیر کیا گیا ہے، جمہور مفسرین نے اس کو استثناء متصل قرار دیکر یہ معنی کئے ہیں مال اور اولاد قیامت کے روز کسی شخص کے کام نہ آئیں گے بجز اس شخص کے جس کا قلب سلیم ہوگا، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس جگہ قرآن کریم نے وَلاَ بَنُوْنَ فرمایا ہے جس کے معنی نرینہ اولاد کے ہیں عام اولاد کا ذکر غالباً اس لئے نہیں کیا کہ آڑے وقت میں کام آنے کی توقع دنیا میں بھی نرینہ اولاد یعنی لڑکوں ہی سے ہوتی ہے عام طور پر لڑکیوں سے یہ توقع نہیں ہوتی، اس لئے قیامت میں بالتخصیص لڑکوں کے غیر نافع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے جس سے دنیا میں نفع کی توقع رکھی جاتی تھی۔ متقیوں کیلئے جنت بالکل قریب کردی جائے گی اور گمراہ لوگوں کے لئے دوزخ ظاہر کردی جائے گی مطلب یہ ہے کہ جنتیوں کے جنت میں اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے یہ دونوں چیزیں ان کے روبرو کردی جائیں گی جس سے کافروں کے غم میں اور مومنوں کے سرور میں اضافہ ہوجائے گا۔
Top