Tafseer-e-Saadi - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو
آیت 69 سے 104 فرمایا : اے محمد ! ﷺ آپ لوگوں کو، اللہ تعالیٰ کے خلیل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خاص حالت کی جلیل القدر ! خبر سنا دیجئے اگرچہ ان کی زندگی کے تمام پہلو عظیم واقعات سے پر ہیں۔ مگر ان کا یہ واقعہ سب سے زیادہ حیرت انگیز اور سب سے افضل ہے جو آپ کی رسالت، اپنی قوم کو دعوت، اپنی قوم سے آپ کے مباحثہ اور آپ کی قوم کے موقف کے ابطال کو متضمن ہے اس لئے اسے ظرف کے ساتھ مقید کرتے ہوئے فرمایا : (اذ قال لابیہ وقومہ ما تعبدون۔ قالو) ” جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو تو انہوں نے کہا “ بتوں کی عبادت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے : (نعبد اصناما) ” ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں “ جن کو ہم خود اپنے ہاتھوں سے تراشتے اور بناتے ہیں (فنظل لھا عکفین) ” اور ان کی پوجا پر قائم ہیں۔ “ یعنی ہم نے اپنے اکثر اوقات میں، ان بتوں کی عبادت کے لئے قیام کرتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بتوں کے لئے عبادت کے عدم استحقاق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا : (ھل یسمعونکم اذ تدعون) ” جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں ؟ “ (او ینفعونکم او یضرون) ” یا وہ تمہیں کوئی نفع یا نقسان دے سکتے ہیں ؟ “ انہوں نے اقرار کیا کہ ان مذکورہ صفات میں سے کوئی بھی ان میں موجود نہیں۔ وہ کار کو سن سکتے ہیں نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان۔ اس لئے جب آپ نے بتوں کو توڑا تو فرمایا : (بل فعلہ بیرھم ھذا فسئلوھم ان کانو ینطقون) (الانبیاء : 21/23) ” بلکہ یہ سب کچھ ان کے بڑے نے کیا ہے ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہیں۔ “ انہوں نے جواب دیا : (لقد علمت ما ھولاء ینطقون) (الانبیاء : 21/25) ” تمہیں علم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔ “ یعنی زبان حال ہی سے یہ امر ثابت ہو رہا ہے جس میں کوئی شک و شبہ اور اشکال نہیں۔ انہوں نے اپنے گمراہی آباء و اجداد کی تقلید کا سہارا لیتے ہوئے کہا : (بل وجدنا اباء نا کذلک یفعلون) ” بلکہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو ایسے ہی کرتے پایا ہے “ اور ہم نے ان کی پیروی کی اور ان کی عادات کی اتباع کرتے ہوئے ان کے راستے پر گامزن ہوئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اس معاملے میں تم اور تمہارے آباء واجدا سب ایک فریق ہو اور تم سب سے ہم ایک ہی بات کہتے ہیں : (افرء یتم ما کنتم تعبدون۔ انتم و اباء کم الاقدمون۔ فانھم عدولی) ” تم نے دیکھا کہ جن کو تم پوجتے رہے ہو تم بی اور تمہارے اگلے باپ دادا بھی۔ وہ میرے دشمن ہیں۔ “ پس وہ مجھے ذرا سا بھی نقصان پہنچائیں، میرے خلاف کوئی چال چل دیکھیں وہ ایسا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ (الا رب العلمین۔ الذی خلقنی فھو یھدین) ” لیکن اللہ رب العالمین، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی مجھے راستہ دکھاتا ہے۔ “ یعنی تخلیق کی نعمت میں وہی متفرد ہے اور دینی اور دنیاوی مصالح کی طرف راہنمائی سے بھی صرف وہی نوازتا ہے۔ پھر ان میں سے بعض ضروریات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (والذی ھو یطعمنی ویسقین۔ واذا مرضت فھو یشفین۔ والذی یمیتنی ثم یحیین۔ والذی اطمع ان یغفرلی خطیتی یوم الدین) ” اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو مجھے شفا بخشا ہے اور وہی ہے جو مجھے مارے گا اور پھر زندگہ کرے گا اور وہی ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے گا۔ “ یعنی ان تمام افعال کو اکیلاوہی سرانجام دیتا ہے اس لئے واجب ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور اطاعت کی جائے اور ان بتوں کی عبادت چھوڑدی جائے جو تخلیق پر قادر ہیں نہ ہدایت پر، جو کسی کو بیمار کرسکتے ہیں نہ شفا دے سکتے ہیں، جو کھلا سکتے ہیں نہ پلاسکتے ہیں، جو مار سکتے ہیں نہ زندہ کرسکتے ہیں اور نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو دور کرکے ان کو کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ وہ گناہوں کو بخش سکتے ہیں۔ یہ ایسی قطعی دلیل اور روشن حجت ہے جس کا تم اور تمہارے آباء و اجداد و مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پس یہ چیز گمراہی میں تمہارے اشتراک، اور رشد و ہدایت کے راستے کو چھوڑ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (وحاجۃ قومہ قال اتحاجونی فی اللہ وقد ھدئن۔۔۔ الایات) (الانعام : 6/80) ” اور ابراہیم سے اسی قوم نے جھگڑا کیا، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے مجھ ہدایت دی۔۔۔ “ پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں اپنے رب سے دعا کی : (رب ھب لی حکما) ” اے میرے رب ! مجھے علم و دانش عطا فرما۔ “ یعنی اے میرے رب مجھے علم کثیر عطا کر جس کے ذریعے سے میں تیرے احکام اور حلال و حرام کی معرفت حاصل کروں، پھر اس علم کے مطابق مخلوق کے درمیان فیصلے کروں۔ (والحقنی بالصلحین) ” اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما۔ “ یعنی میرے بھائی انبیاء ومرسلین میں۔ (واجعل لی لسان صدق فی الاخرین) ” اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ۔ “ یعنی مجھ سچی مدح و ثناعطا کر جو ہمیشہ قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور آپ کو علم و حکمت سے سرفراز فرمایا جس کی بنا پر وہ تمام انبیاء ومرسلین پر فضیلت لے گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیاء ومرسلین کے گروہ میں شامل کیا، آپ کو اپنا محبوب و مقبول بندہ بنایا۔ ہر آن تمام اقوام و ملل میں آپ کو عظمت اور مدح و ثنا عطاء کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وترکنا علیہ فی الاخرین۔ سلم علی ابراہیم۔ کذلک نجزی المحسنین۔ انہ من عبادنا المومنین) (الصفت : 38/108۔ 111) ” اور ہم نے آپ کی مدح و توصیف بعد میں آنے والی نسلوں میں چھوڑی، سلام ہو ابراہیم پر، ہم اپنے نیک بندوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں بیشک وہ ہمارے مومن بندوں میں تھا۔ “ (واجعلنی من ورثہ جنۃ النعیم) ” اور مجھے نعمت کی جنت کے وارثوں میں کر۔ “ یعنی اہل جنت میں سے، جن کو اللہ تعالیٰ جنت کا وارث بنائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمالی اور نعمتوں بھری جنت میں بہت بلند قدرو منزلت عطا کی۔ (واغفر لابی انہ کان من الضالین) ” اور میرے باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا۔ “ آپ کی یہ دعا اس وعدے کے سبب سے تھی جو آپ نے اپنے باپ سے کیا تھا : (ساستغفر لک ربی انہ کان فی حفیا) (مریم : 19/48) ” میں اپنے رب سے آپ کی بخشش کے لئے دعا کروں گا وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ “ فرمایا : (وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو اللہ تبرا منہ ان ابرھیم لاوات حلیم) (التوبۃ : 9/114) ” ابراہیم کی اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت اس وعدے کی بنا پر تھی جو انہوں نے اپنے باپ سے کیا تھا جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے براءت کا اظہار کردیا۔ ابراہیم بڑے ہی نرم دل اور بربار تھے۔ “ (ولا تحزنی یوم یبعثون) یعنی بعض لغزشوں پر زجرو توبیخ، عقاب اور فضیحت کے ذریعے سے قیامت کے روز مجھے رسوا نہ کرنا۔ بلکہ اس روز مجھے سعادت مند بنانا جس روز (لا ینفع مال ولا بنون۔ الا من اتی اللہ بقلب سلیم) ” مال کچھ فائدہ دے گا نہ بیٹے، ہاں جو شخص اللہ کے ہاں پاک دل لے کر آئے گا۔ “ پس یہی وہ چیز ہے جو تیرے ہاں اس کے لئے فائدہ مند ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے بندہ عذاب سے نجات پا سکے گا اور ثواب جزیل کا مستحق ٹھہرے گا۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو شرک، شک و شبہ، شر کی محب ت اور بدعت و معاصی پر اصرار سے پاک اور محفوظ ہو۔ متذکرہ صدر امور سے قلب کا سلامت اور محفوظ ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ان کی اضداد یعنی اخلاص، علم، یقین، خیر کی محبت اور قلب کے اس مزین ہونے جیسی صفات سے متصف ہو، نیز اس کا ارادہ اور محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی شریعت کے تابع ہوں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عظیم دن کی صفات اور اس میں واقع ہونے والے ثواب و عقاب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (واذلفت الجنۃ) ” جنت قریب کردی جائے گی “ (للمتقین) ’ متقین کے “ یعنی ان کے جو اپنے رب سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر کی تعمیل اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہیں نیز اپنے رب کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈرتے ہیں۔ (وبرذت الجحیم) ” اور جہنم کو سامنے لایا جائے گا “ اور ہر قسم کے عذاب کے ساتھ اس کو تیار کیا جائے گا (للغوین) ” گمراہ لوگوں کے لئے “ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مبتلا رہے، اس کے محارم کے ارتکاب کی جرأت کی، اس کے رسولوں کو جھٹلایا اور رسول جو دعوت حق لے کر آئے تھے اس کو ٹھکرا دیا۔ (وقیل لھم اینما کنتم تعبدون۔ من دون اللہ ھل ینصرونکم او ینتصرون) ” اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں، یا خود بدلہ لے سکتے ہیں ؟ “ یعنی وہ کچھ بھی کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ اس سے ان کا جھوٹ اور ان کی ذلت و رسوائی ظاہر ہوجائے گی، ان کا خسارہ، فضیحت اور ندامت عیاں ہوجائے گی اور ان کی تمام کوشش رائیگاں جائے گی۔ (فکبکبوا فیھا) ” پس وہ اندھے منہ اس میں ڈال دئیے جائیں گے۔ “ یعنی جہنم میں پھینک دیے جائیں گے۔ (ھم) ” ان کو “ یعنی ان معبودوں کو جن کو یہ عبادت کیا کرتے تھے (والغاون) اور ان کے گمراہ عبادت گزاروں کو۔ (وجنود ابلیس اجمعون) ” اور شیطان کے لشکر سب کے سب۔ “ یعنی شیاطین جن و انس، جنہیں ابلیس گناہوں پر اکسایا کرتا تھا، ان کے شرک اور عدم ایمان کی وجہ سے ان پر مسلط ہوگیا تھا اور یہ جن و انس اس کے عاعی بن کر اس کو راضی کرنے کے لئے تگ و دو کیا کرتے تھے۔ جہنم میں جھونکے جانے والے یہ تمام لوگ یا تو ابلیس کی اطاعت کی طرف دعوت دیتے تھے یا وہ لوگ تھے جو اس دعوت پر لبیک کہتے تھے اور ان کے شرک میں ان کی تقلید کرتے تھے۔ (قالوا) یعنی ابلیس کے یہ گمراہ لشکر اپنے بتوں اور معبودوں سے کہیں گے جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے : (تاللہ اب کنا لفی ضلل مبین۔ اذ نسویکم برب العلمین) ” اللہ کی قسم ! ہم تو صریح گمراہی میں تھے، جب کہ تمہیں رب العالمین کے برابر ٹھہراتے تھے۔ “ یعنی عبادت، محبت، خوف اور رجاء میں ہم تمہیں رب کائنات کے برابر ٹھہرایا کرتے تھے اور تمہیں بھی ویسے ہی پکارتے تھے۔ جیسے رب تعالیٰ کا پکارتے تھے تب ان پر ان کی گمراہی عیاں ہوجائے گی اور اپنی سزا میں اللہ تعالیٰ کے عدل کو پکارتے تھے تب ان پر ان کی گمراہی عیاں ہوجائے گی اور اپنی سزا میں اللہ تعالیٰ کے عدل کا اقرار کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ سزا برمحل ہے۔ وہ تخلیق میں نہیں بلکہ صرف عبادت میں اپنے معبودوں کو رب کائنات کا ہم پلہ قرار دیتے تھے اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے : (برب العلمین) وہ اقرار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے جن میں ان کے بت اور معبود بھی شامل ہیں۔ (وما اضلنا) ” اور ہم کو نہیں گمراہ کیا تھا۔ “ یعنی رشد و ہدایت کے راستے سے نہیں ہٹایا اور فسق و فجور اور گمراہی کے راستے پر نہیں چلایا (الا المجرمون) ” مگر مجرموں ہی نے “ اور مجرموں سے مراد وہ ائمہ، ضلالت ہیں جو جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔ (فمالنا) ” پس نہیں ہمارے واسطے “ یعنی اس وقت (من شافعین) ” کوئی سفارش کرنے والا۔ “ یعنی جو ہماری سفارش کرکے ہمیں اس کے عذاب سے بچالے (ولا صدیق حمیم) ” اور نہ گرم جوش دوست۔ “ یعنی نہ کوئی قریبی اور خالص دوست ہے جو ہمیں ادنی سا فائدہ پہنچا سکے جیسا کہ دنیا میں ہوا کرتا تھا۔ چناچہ وہ ہر بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے اور اپنے کرتوتوں کا خمیازہ بھگتیں گے۔ وہ تمنا کریں گے کہ کاش انہیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ نیک کام کریں۔ وہ کہیں گے :) فلو ان لنا کرۃ) ” اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھرجانا ملتا۔ “ یعنی دنیا کی طرف پلٹنا اور اس کی طرف لوٹنا (فنکون من المومنین) ” تو ہم مومنون میں سے ہوجاتے۔ “ تاکہ ہم عذاب سے بچ جائیں اور ثواب کے مستحق بن جائیں۔ مگر یہ بہت بعید ہے اور ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوگی ان کے قید خانے کے دروازے بند کردئیے جائیں گے۔ (ان فی ذلک) ان تمام امور میں جن کا ہم نے تمہارے سامنے ذکر کیا ہے : (لایۃ) ” (تمہارے) نشانی ہے “ (وما کان اکثرھم مومنین) ”(یعنی ان نشانیوں کے نازل ہونے کے باوجود) ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔ “
Top