Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
اور بے ( اے پیغمبر ! ) آپ ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کی خبر سنا دیں
ربط آیات گزشتہ تین رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات باتفصیل بیان فرمائے۔ اس سورة مبارکہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات ان کی فرعون کی طرف روانگی سے شروع ہوئے۔ اللہ نے آپ کو حکم دیا کہ فرعون اور اس کی ظالم قوم کو میرا پیغام توحید سنائو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ ہارون (علیہ السلام) کی تائید چاہی اور ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ میں نے ان کا ایک آدمی قتل کردیا تھا ، شدید کہ وہ مجھے بھی نہ مار ڈالیں ۔ اللہ نے تسلی دی تو آپ فرعون کے پاس پہنچے ۔ اپنی رسالت کا اعلان کیا اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا ۔ فرعون نے آپ پر بچپن میں کیے گئے احسانات یا دلائے اور کہا کہ تو ہماری نا شکری کا مرتکب ہو رہا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو میرے رب کا احسان ہے کہ اس نے مجھے تمہارے ظلم سے بچایا اور نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا فرعون کے استفسار پر رب العالمین کا تعارف بھی کرایا کہ وہ وہی ہے جس نے تمہیں اور تمہارے آبا ئو اجداد کو پیدا کیا اور وہ مشرق و مغرب کا رب ہے۔ فرعون نے کہا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو مبعود بنایا تو تجھے قید میں ڈال دوں گا ۔ پھر فرعون کے مطالبہ پر آپ نے عصا اور ید بیضاء کے معجزات پیش کیے۔ فرعون نے مقابلہ کے لیے ملک بھر سے جادوگر اکٹھے کیے ۔ تمام لوگوں کی موجودگی میں ایک کھلے میدان میں موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں موسیٰ (علیہ السلام) غالب آئے اور جادوگر موقع پر ہی ایمان لے آئے پھر اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر راتوں رات نکل کھڑے ہوئے فرعون کے لشکر نے پیچھا کیا تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی پانی پر مارو ایسا کرنے سے سمندر میں بارہ خشک راستے بن گئے جن کے ذریعے بنی اسرائیل سمندر پار جانے کے لیے چل پڑے ۔ لشکر فرعون بھی انہی راستوں پر سمندر میں اتر آیا مگر اللہ نے سب کو بمع فرعون غرق کردیا اور اس طرح بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے آزاد ہوگئے ۔ اب اگلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت توحید کا ذکر فرمایا ہے۔ جو انہوں نے اپنے باپ اور قوم کے سامنے پیش کی اور عقلی دلائل دیئے کہ اللہ تعالیٰ وعدہٗ لا شریک ہے اور جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو انہیں کچھ اختیار نہیں اور وہ تمہارے کچھ کام نہیں آسکتے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے ابتدائی حالات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں جنہیں جد الانبیاء بھی کہا جاتا ہے۔ آپ عراق کے قصبہ ہر مز جرو میں پیدا ہوئے ۔ مؤرخ ابن سعد کی روایت کے مطابق آپ کے والد کا نام تاریخ اور لقب آزاد تھا۔ دراصل آزر ایک بت کا نام تھا اور اسی لقب سے آپ نے شہرت پائی۔ قرآن میں دوسرے مقام پر آپ کے باپ کے لیے آزر کا لفظ آیا ہے۔ جسے فرمایا واذ قال ابراہیم لابیہ ازر ( الانعام : 57) آزر خود بت ساز بت پرست اور بت پرستی کا مرکز اور پوری قوم کا محور بن چکے تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد اور قوم سے جدا ہو کر دریائے فرات کے مغربی کنارے سے پر اور کلداینین نامی بستی میں کچھ عرصہ رہائش پذیر رہے۔ آپ کی بیوی حضرت سارہ ؓ اور آپ کے بھیجتے حضرت لوط (علیہ السلام) بھی آپ کے ساتھ تھے۔ یہاں سے آپ ہر ان کی طرف چلے گئے اور پھر آگے فلسطین کے مغربی حصے میں کنعانیوں کے زیر اثر شہر نابلس میں قیام کیا ۔ پھر وہاں سے مغرب کی جانب مصر جا پہنچے۔ مصر میں ملک جبار والا واقعہ پیش آیا جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہ۔ فرعون بھی ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح سامی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ جب اس نے حضرت سارہ ؓ کی بددعا اور ان کی کرامت کو دیکھا تو اپنی بیٹی ہاجرہ ؓ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی زوجیت میں دے دیا ۔ وہ سمجھ گیا کہ خاندان ابراہیم اللہ کے نزدیک ایک مقرب خاندان ہے اور اگر اس کی بیٹی حضرت سارہ ؓ کی خدمت بنی کریگی تو اس کے لیے باعث سعادت ہوئی ۔ بعض بنی اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ ؓ بادشاہ مصر کی لونڈی تھی اور اس طرح اسماعیلی خاندان لونڈی کی اولاد میں جو کہ درست نہیں ہے۔ بعض یہدی علماء بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ ؓ تو خودفرعون مصر کی بیٹی تھی یا پھر کوئی دوسری شہزادی تھی جو فرعون کے قبضہ میں تھی ۔ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری (رح) نے یہی بیان فرمایا ہے۔ واللہ اعلم۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی مادری زبا ن سریانی تھی مگر جب آپ اور کلداینین پہنچے تو وہاں پر عبرانی زبان بولی جاتی تھی لہٰذا آپ یہ زبا ن بھی بولنے لگے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ متعدد انبیاء کا سلسلہ وابستہ تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) آپ کے بھتیجے تھے جن کو اللہ نے شرق اردن کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔ علاوہ ازیں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) آپ کے حقیقی فرزند اور اللہ کے نبی اور رسول تھے ۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ولادت اس وقت ہوئی جب ابراہیم (علیہ السلام) اسی یا تراسی سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ پھر جب آپ کی عمر سو سال ہوئی تو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کل دو سوس ال عمر پائی اور اس دوران آپ کے پوتے یعقوب (علیہ السلام) بھی پیدا ہوچکے تھے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر قرآن پاک کی پچیس مختلف سورتوں میں آیا ہے۔ سورة الانبیاء میں خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اوائل عمر میں سمجھ ، بوجھ ، رشد و ہدایت اور بصیرت سے نوازا تھا ۔ آپ ابتداء ہی سے بت پرستی کے سخت خلاف تھے اور آپ کو یقین تھا کہ یہ مورتیاں نہ تو سن سکتی ہیں نہ دیکھ سکتی ہیں اور نہ کسی کی پکار کا جواب دے سکتی ہیں ۔ لکڑی اور پتھر کے بنے ہونے پر بت کسی نفع و نقصان کے مالک نہ تھے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعوت توحید کا آغاز اپنے والد اور خاندان سے کیا ۔ آپ نے نہایت نرمی اور لطف کے ساتھ پند و نصیحت کا حق ادا کیا مگر باپ نے کوئی بات نہ مانی بلکہ دھکے دیکر گھر سے باہر نکال دیا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے توحید کے حق پر بڑے جاندار اور وزنی دلائل پیش کئے مگر پوری قوم ان کا جواب دینے سے قاصر تھی ۔ آخر انہوں نے وہی جہال والا طریقہ اختیار کیا اور آپ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے لگے نمرود نے سات سال تک آپ کی قید میں بھی رکھا مگر آپ دعوت ِ توحیددینے سے باز نہ آئے بالآخر اس نے آپ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینے کا فیصلہ کیا ۔ اس مقصد کے لیے بہت بڑا آگ کا آلائو جلا کر آپ کو اس میں پھینک دیا گیا مگر اللہ نے وہاں بھی آپ کو صحیح سلامت رکھا اور مشرکین کی ہر تدبیر کو ناکارہ بنایا ۔ آپ عراق سے ہجرت کر کے شام و فلسطین پہنچے اور تین دفعہ مکہ مکرمہ کا سفر بھی اختیار کیا ۔ آپ نے اپنی دوسری بیوی ہاجرہ ؓ اور نو مولو د بچے اسماعیل (علیہ السلام) کو مکہ میں آباد کیا ۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور حج کا اعلان فرمایا۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) آپ کی پہلی بیوی سارہ ؓ سے تھے جو کہ سو سال کی عمر میں پیدا ہوئے ۔ سارہ کی وفات کے بعد آپ نے بنی کنعان کی ایک خاتون قنطورہ سے نکاح کیا جس سے چار فرزند پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد ایک اور خاتون حجونی سے نکاح لیا جس سے سات بیٹے پیدا ہوئے ۔ اس طرح آپ کے جملہ بیٹوں کی تعداد تیرہ بنتی ہے ۔ ابن سعد کی روایت کے مطابق آپ کی والدہ کا نام نونا بنت کر بنایا ابیونا تھا۔ درس تعید اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے اس درس توحید کا ذکر فرمایا ہے جو انہوں نے اپنے باپ اور قوم کو دیا ۔ ارشاد ہوتا ہے وائل علیھم نبا ابراہیم اے پیغمبر ! ذرا آپ ان مشرکین مکہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کی خبر سنا دیں ۔ یہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد اور ان کے دین حنیف کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں ، ذرا ان پر واضح کردیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے کونسا دین پیش کیا اور تم کہاں جا پہنچے ہو ، تمہیں تو دین ابراہیمی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے ۔ اذقال لا بیہ وقومہ جب کہ کہا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے ما تعبدون تم کس چیز کی پوجا کرتے ہو ؟ قالو نعبد اصنا ما وہ کہنے لگے کہ ہم تو ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں فنظل لھا لکفین پس ہم متواتر نبی پر جھکے رہتے ہیں ۔ صنم دہ بت ہوتا ہے جو کسی انسان ، جانور ، سیارے یا ستارے کی شکل پر بنایا گیا ہو اور روشن دہ بت ہوتا ہے جو ان گھڑا پتھر ، لکڑی وغیرہ ہو۔ مشرکین مکہ نے بھی مختلف ناموں اور مختلف شکلوں پر بیشمار بت تراش رکھتے تھے حتی کہ بیت اللہ شریف کی دیواروں کے ساتھ بھی تین سو ساٹھ بت لگا رکھے تھے اور ہر وقت ان کی پوجا پاٹ میں لگے رہتے تھے ۔ کبھی ان کو غسل دیتے ، کبھی کپڑے پہناتے کبھی ان کے سامنے نذر و نیاز پیش کرتے اور کبھی ان سے حاجت والی اور مشعل کشائش کے طالب ہوتے ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے مشرکوں کا بھی یہی حال تھا کہنے لگے کہ ہم تو ہمہ وقت ان بتوں کی پوجا کرتے رہتے ہیں ۔ اب ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے چوٹ لگائی ۔ قال ھل یسمعونکم اذتدعون کہنے لگے کیا یہ تمہاری بات کو سنتے ہیں جب کہ تم ان کو پکارتے ہو ؟ ظاہر ہے کہ وہ تو مٹی ، پتھر اور دھات کی بنی مورتیاں تھیں ، بھلا وہ کیسے کسی کو پکار کو سن سکتی تھیں ۔ مشرکین لا جواب تھے ، وہ بتوں کی سماعت کا دعویٰ نہیں کرسکتے تھے پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرا سوال کیا او یفعونکم او یضرو ن یا وہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ آخر بتائو تو سہی کہ تم کس مقصد کے لیے ان بتوں کی پرستش کر رہے ہو ؟ اندھی تقلید جب مشرکوں سے کوئی جواب نہ بن پڑا تو وہی اندھی تقلید والی پرانی رٹ لگائی قالوا بل وجدنا اباء نا کذلک یفعلون کہنے لگے ، بلکہ ہم نے اپنے آبائو اجداد کو اسی طرح کرتے پایا ہے ، وہ بھی ان بتوں کی پوجا کرتے تھے ان کو نذر و نیاز پیش کرتے تھے اور پھر ان سے مرادیں مانگتے تھے ، ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں ، ہم کسی دلیل کو نہیں جانتے ۔ مشرکوں کی یہ حیلہ سازی اللہ نے قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمائی ہے۔ سورة الانبیاء میں ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکوں سے پوچھا کہ تم ان مورتیوں کی پوجا کیوں کرتے ہو قالوا وحدنااباء نا لھا عبدین ( آیت : 35) کہنے لگے ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے ہوئے پایا تو ہم بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ۔ تقریباً یہی الفا ظ سورة الشعراء اور سورة الزخرف میں بھی ہیں ۔ سورة البقرہ میں بھی مشرکوں کا یہی جواب بیان کیا گیا ہے کہ ہم تو اس چیز کا اتباع کرتے ہیں جس پر ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا ۔ اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُھُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّلَا یَھْتَدُوْنَ (البقرہ : 071) اگرچہ تمہارے باپ دادا بےعقل اور غیر ہدایت یافتہ ہوں تو پھر بھی انہی کے نقش قدم پر چلو گے ؟ بہر حال مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کو یہی جواب دیا کہ ہم نے تو اپنے آبائو اجداد کو اسی طرح بتوں کی پوجا کرتے پایا ہے ، لہٰذا ہم بھی ویسے ہی کیے جا رہے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا ا اعلان حق پھر ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسرے طریقے سے قوم کو سمجھانے کی کوشش کی قال افرء یتم ما کنتم تعبدون کہنے لگے ، کیا تم نے دیکھا ہے یعنی کیا تمہیں خبر ہے کہ جن کی تم پوجا کرتے ہو انتم واباء کم الا قدمون تم بھی اور تمہارے پہلے آبائو اجداد بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ فانھم عدولی یہ سب میرے تو دشمن ہیں ، چونکہ میں موخد ہوں اور ان کی مذمت بیان کیے بغیر نہیں رہ سکتا ، لہٰذا یہ بھی میرے دوست نہیں ہو سکتے۔ الا رب العالمین ۔ سوائے تمام جہانوں کے پروردگار کہ وہی میرا دوست ہے اور وہی میرا کار ساز ہے ۔ میں نے اسی کے حکم کے مطابق ان تمام جھوٹے معبودوں کی دشمنی لی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ وہ مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان سب کے مقابلے میں اکیلا ہی میری مدد کرے گا اور ان سب پر غالب بنائے گا ۔
Top