Mafhoom-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 69
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ اِبْرٰهِیْمَۘ
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں عَلَيْهِمْ : ان پر۔ انہیں نَبَاَ : خبر۔ واقعہ اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم
تو ان کو ابراہیم کا حال پڑھ کر سنا دو ۔
سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم تشریح : سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) بڑے جلیل القدر پیغمبر گزرے ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی عزت و احترام اہل قریش یہود و نصاریٰ سب ہی کرتے ہیں مگر ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے آپ کے بارے میں سورة بقرہ ‘ الانعام ‘ مریم ‘ الانبیاء میں بیان ہوچکا اور آئندہ سورة اَلصّٰفّٰتِ اور اَلْمُمْتَحِنَہ میں ہوگا۔ انہوں نے بت پرستی اور شرک کو مسترد کیا اور صرف اللہ کی عبادت کی ترغیب دی۔ صاف ظاہر ہے اللہ خالق اور مالک اور ہدایت دینے والا بھی ہے جبکہ بت اور دوسری چیزیں خود اس کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ آپ اتنے بڑے پیغمبر تھے کہ آپ کو اللہ نے خلیل اللہ ‘ یعنی اللہ کا دوست کہا، مگر آپ میں عاجزی و انکساری اس قدر تھی کہ جو ان کی دعا کے ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے اور یہی عاجزی اللہ کو پسند ہے اور وہ اپنے نیک بندوں کو انعام میں جنت اور برے لوگوں کو جہنم کی سزا دے گا۔ جہنم کا نقشہ اس قدر واضح اور خوف ناک انداز میں کیا گیا ہے کہ کوئی بھی عقل مند اس سے عبرت اور خوف حاصل کرسکتا ہے۔ اس قصہ میں نشانی کے دو پہلو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ اہل قریش اور یہود و نصاریٰ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے اپنی نسبت جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں مگر انہی کی تعلیمات یعنی اسلام کی مخالفت زور و شور سے کر رہے ہیں۔ اسی توحید کی دعوت حضرت محمد ﷺ دے رہے ہیں تو اس کو ویسے ہی مسترد کر رہے ہیں جیسے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے کیا تھا۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ قوم ابراہیم (علیہ السلام) دنیا سے مٹ گئی اپنے کفر و شرک کی وجہ سے مگر توحید کے علمبردار اور سیدنا ابراہیم اولاد میں اسماعیل اور اسحاق اور آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے مقبول ترین انبیاء قرار دیے گئے اور ان کا نام قرآن پاک میں درود پاک میں اور بیشمار دعائوں میں دنیا کے مسلمان دن میں کئی بار لیتے ہیں عزت و احترام سے لیتے ہیں اور قیامت تک لیتے رہیں گے اس کے مقابلہ میں مشرکین کا نام و نشان مٹ چکا ہے اور روز قیامت ان کا برا حال ہوگا۔ یہ سب کچھ جان کر بھی بہت سے لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ مگر ان کو موت تک مہلت دی جائے گی کیونکہ ” تمہارا رب غالب اور مہربان ہے۔ “ (الشعراء آیت : 104)
Top