Ahsan-ut-Tafaseer - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے
38 تا 40۔ اوپر فرما نبردار اور نافرمان لوگوں کا قیامت کے دن کا انجام کا ذکر فرما کر ان آیتوں میں فرمایا اللہ تعالیٰ غیب د ان ہے اس لیے اس نے اپنے علم غیب کے موافق ابھی سے لوگوں کو قیامت کے انجام سے ہو شیار کردیا اور اس کو دلوں کی بھید تک معلوم ہے اس واسطے جزا وسزا کے وقت اس سے دل کا اعتقاد یا ہاتھ پیر کا کام یا منہ کی بھلی بری بات کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں رو سکتی پھر فرمایا پہلے کے نافرمان لوگوں کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کر کے ان لوگوں کو ان کی جگہ پر پیدا کیا اس لیے پہلے کے لوگوں کی اجڑی ہوئی بستیاں دیکھ کر ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ شرک سے اللہ تعالیٰ کس قدر نیرار ہے اور شرک کے سبب سے پہلے کے مشرکوں کو کیا نقصان پہنچ چکا ہے ‘ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے تم ان مشرکوں سے پوچھو تو سہی کہ ان کے تبوں نے ان کو یا ان کی ضرورت کسی کسی چیز کو پیدا کیا ہے یا اللہ تعالیٰ کی بادشاہت ہیں ان کے بتوں کی کچھ شراکت ہے یا اللہ تعالیٰ نے تبوں کی پوجا کی ان مشرکوں کے پاس کوئی سند بھیجی ہے جس ان باتوں میں سے کسی بات کو یہ لوگ ثابت نہیں کرسکتے تو ان کے بہکانے والوں نے ان کی سفارش کا وعدہ جو کر رکھا ہے وہ ایک دھوکے کی ٹٹی ہے جس کا حال ان کو قیامت کے دن معلوم ہوجاوے گا پھر فرمایا یہ شرک ایسی چیز ہے جس کے خوف سے آسمان و زمین اپنی جگہ سے ہل جاویں لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری سے ان کو تھام رکھا ہے شریک کے وبال سے آسمان و زمین کے پھٹ جانے اور پہاڑوں کے ہل جانے کا ذکر سورة مریم میں گزر چکا ہے ان آیتوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل وہی ہے جو بیان کیا گیا ’ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ 1 ؎ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے (1 ؎ مشکوۃ باب الظلم۔ ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی بردباری سے نافرمان لوگوں کو پہلے تو مہلت دیتا ہے اور مہلت کے زمانہ میں جب یہ لوگ اپنی نافرمانی سے باز نہیں آتے تو ان کو سخت عذاب میں پکڑا لیتا ہے ‘ اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مہلت کے زمانہ میں عقبیٰ کے انجام سے پہلے بتوں کی بےاختیاری سے شرک سے ڈر کر آسمان و زمین کے کا نپنے سے شرک کے وبال سے پچھلی قوموں کے بر باد ہوجانے کی غرض سے ہر طرح قریش میں کے سرکش لوگوں کو سمجھایا جب یہ لوگ سمجھانے سے باز نہ آئے تو بدر کی بڑائی کے وقت ان کے سب سرکشی خاک میں مل گئی دینا میں بڑی ذلت سے مارے گئے اور مرتے ہی عقبے کے عذاب میں گرفتار ہوگئے چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک ؓ کی حدیث کے حوالہ سے ان کا قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔
Top