Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
عٰلِمُ
: جاننے والا
غَيْبِ السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں کی پوشیدہ باتیں
وَالْاَرْضِ ۭ
: اور زمین
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
عَلِيْمٌۢ
: باخبر
بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
: سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی۔ بیشک وہ خوب جانتا ہے سینوں کے راز
ربط آیات گزشتہ درس میں انذار کا مضمون ذکر ہوا تھا۔ قرآن کے ورثاء تین قسم کے آدمی ہیں۔ بعض وہ ہیں جو صغائر و کبائر کا ارتکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ میانہ روی اختیار کرتے ہیں جب کہ تیسرا گروہ وہ ہے جو بھلائیوں میں سبقت کرتا ہے۔ یہ سارے گروہ اہل اسلام حاملین قرآن ہیں۔ پھر اللہ نے نیکی کرنے والوں کے انعامات کا ذکر کیا اور کفر کرنے والوں کے عذاب اور ان کی چیخ و پکار کو بیان کیا۔ اللہ فرمائے گا کہ تمہیں دنیا میں کتنی عمر تک مہلت دی تھی۔ اس مہلت کے دوران تمہارے پاس اللہ کے نبی بھی آئے جو تمہیں ڈر سناتے رہے ، اللہ کی وحدانیت کے دلائل بھی تمہیں آگاہ کرتے رہے۔ انسانی زندگی کے تغیرات خود نذیر ہیں۔ انسان کا بڑھاپا اسے یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا باقی حصہ تھوڑا رہ گیا ہے ، اب بھی سمجھ جائو مگر تم نے ان چیزوں سے نصیحت حاصل نہ کی ، اب چیخنے چلانے کا کچھ فائدہ نہیں ، اپنے عقیدے اور عمل کا مزہ چکھو ، اب ظالموں کو کسی طرسے مدد نہیں آئے گی۔ عالم الغیب ذات اب سورة کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات اور جزائے عمل ہی کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ساتھ توحید کے عقلی دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن کی صداقت کو ماننے والے اور انکار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ علم غیب السموات والارض بیشک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کی مخفی چیزوں کو جاننے والا ہے انہ علیم بذات الصدور بیشک سینوں کے رازوں کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی نیت ، ارادے ، استعداد اور صلاحیت تک کو جانتا ہے۔ اسی بنا پر گزشتہ درس میں اللہ کا یہ فرمان گزر چکا ہے فذوقوا فما للظلمین من نصیر (آیت 37) اب عذاب کا مزہ چکھو۔ آج کے دن ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اس دن کافر لوگ کہیں گے ربنا اخرجنا نعمل صالحا (آیت 37) پروردگار ہمیں اس عذاب سے نکال لے ہم اچھے عمل کریں گے۔ مگر اللہ چونکہ ان کی نیت اور ارادے سے واقف ہے وہ کہے گا ولو دروا لعادوا لما نھواعنہ (الانعام 28) اگر بالفرض ہم ان کو دنیا میں واپس لوٹا بھی دیں تو یہ پلٹ کر وہی کام کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ علیم کل اور تمام مخفی باتوں کو جاننے والا ہے لہٰذا وہ ہر انسان کے ساتھ اس کی نیت ، ارادے اور عمل کے مطابق ہی سلوک کرتا ہے۔ خلافت ارضی ارشاد ہوتا ہے ھوالذی جعلکم خلف فی الارض خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔ اللہ نے اپنا یہ انعام یاد دلا کر شکر گزاری کا مطالبہ کیا ہے مگر اکثر لوگ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ خلافت عام بھی ہے اور خاص بھی۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے متعلق فرشتوں کو خطاب کرکے فرمایا انی جاعل فی الارض خلیفہ (البقرہ 30) میں زمین میں خلیفہ یعنی نائب یا قائم مقام بنانے والا ہوں۔ یہ خلافت خاص تھی اور خلافت عام یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے خلیفہ ، جانشین یا قائم مقام ہیں۔ پہلے بادشاہوں کی جگہ موجودہ حکمران خلیفہ ہیں۔ پہلے زمینداروں اور کاشتکاروں کے جانشین موجودہ زمیندار یا کاشتکار ہیں۔ مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جعلکم کا خطاب امت محمدیہ سے ہے کہ اللہ نے تمہیں پہلوں کا خلیفہ منتخب کیا ہے۔ اب خطہ ارضی تمہاری سپرداری میں ہے۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے احکام کو بھی زمین میں جاری کرو۔ اللہ کی مخلوق کو جہالت سے نکالو ، ان سے ظلم و زیادتی کو رفع کرو ، ان کو عدل و انصاف کا درس دو ، زمین کو شر و فساد کی بجائے امن و سکون کا گہوارہ بنائو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف 56) زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلائو۔ اللہ تعالیٰ اس خلافت کے ذریعے تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے فینظر کیف تعملون (حدیث) وہ ظاہر کردے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو ، مگر عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی فرد یا قوم یا جماعت کو اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو پھر شکر گزاری کی بجائے ناشکری ہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے زمین کی اکثر آبادی تو کفر اور شرک میں مبتلا ہے۔ آج کے زمانہ میں بھی دنیا کی کل آبادی کے چار حصے کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں اور صرف پانچواں حصہ دین و ایمان سے قدرے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال نیابت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے مگر اکثر لوگ ناشکرگزار ہی ہیں۔ ناشکر گزاری کا انجام ارشاد ہوتا ہے فمن کفر فعلیہ کفر جس نے کفران نعمت کیا یعنی ناشکرگزاری کی تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا ، اللہ کیا چاہے گا ؟ چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ اللہ کی آیات ، اس کی صفات اور دلائل قدرت میں غور و فکر کرکے اس کی توحید کو تسلیم کرتے ، عدل و انصاف قائم کرتے ، اللہ کی زمین میں اصلاح کرتے اور اس طرح اللہ کی نعمت کا شکریہ ادا کرتے مگر اس کی بجائے انہوں نے کفر و شرزک کا راستہ اختیار کرکے کفران نعمت کا ثبوت دیا جو خود ان کے حق میں برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت (البقرہ 386) انسان نے جو نیکی کمائی ہے وہ اس کے لیے کارآمد ہے اور جو برائی کی ہے ، اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ سورة المدثر میں ارشاد خداوندی ہے کل نفس بما کسبت رھینۃ (آیت 38) ہر انسان اپنی کمائی میں پھنسا ہوا ہے۔ قیامت والے دن اس کا قدم نہیں اٹھ سکے گا جب تک ایک ایک عمل کا محاسبہ نہیں ہوجائے گا۔ فرمایا جس نے ناشکرگزاری کی تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا ولا یزید الکفرین کفرھم عند ربھم الا مقتا اور ناشکرگزاروں کی ناشکر گزاری ان کے پروردگار کے ہاں نہیں زیادتی کرتی مگر ناراضگی کو مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے کفران نعمت سے ناراض ہی ہوتا ہے جس مقدار میں ناشکرگزاری ہوتی ہے اسی قدر اللہ کی ناراضگی اور بیزاری خریدنے والی بات ہے ولا یزید الکفرین کفرھم الاخسارا اور ناشکر گزاروں کی ناشکرگزاری ان کے لیے نقصان ہی کا باعث بنتی ہے ، ایسا کرنے سے کسی فائدہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے ولا یزید الظلمین الا خسارا (آیت 82) ظلم کرنے والوں کو بھی نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نقصان ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے نہ تو دنیا کی زندگی درست ہوسکتی ہے اور نہ برزخ اور آخرت میں بہتر مقام حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ زندگی بھی خراب ہوجاتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ ناشکرگزاری خدا کی ناراضگی اور نقصان کا باعث ہے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہیں ارء یتم شرکاء کم الذین تدعون من دون اللہ بھلا بتلائو تو تمہارے وہ شریک جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، یعنی جن کو نذر و نیاز پیش کرکے ان سے حاجات طلب کرتے ہو ، ارونی ماذا خلقوا من الارض مجھے دکھائو جو کچھ انہوں نے زمین میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نٰے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید میں یہ عقلی دلیل پیش کی ہے کہ تم جن معبودان باطلہ کو اپنی حاجت براری یا مشکل کشائی یا سارش کے لیے پکارتے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ نے ان پر الوہیت کا چادر ڈال رکھی ہے ، کیا انہوں نے آج تک زمین میں کوئی چیز تخلیق کی ہے اگر کی ہے تو مجھے دکھلائو تاکہ تمہارے شرزک کا جواز پیدا ہوسکے اور اگر انہوں نے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی تو تم ان سے کیا چاہتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ سارا اختیار اللہ کے پاس ہے ، اس نے اپنا اختیار کسی مخلوق کو نہیں دیا ، تمام معاملات کی تدبیر وہ خود کرتا ہے ، جیسا کہ اس کا ارشاد ہزے یدبر الامر من السماء الی الارض (السجدۃ 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر وہ خود کرتا ہے اور اس معاملہ میں اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا۔ نجومی ستاروں کو بااختیار مانتے ہیں اور کمہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہماری حاجات پوری کرتے ہیں۔ عیسائی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا نے ان کو اختیار دے رکھا ہے۔ قبر پرست لوگ قبروں پر چادریں چڑھاتے اور نذر و نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ اصحاب قبور اپنے اختیار سے ان کی بگڑی بنا دی ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔ اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کچھ روک سکتا ہے۔ بلکہ سارے کے سارے اللہ کے عاجز بندے ہیں ، کسی میں الوہیت یا اختیار وائی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اس عقیدے کی بار بار نفی کی ہے۔ ہر چیز کا خالق ، مالک اور مدبر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ بلاشرکت غیرے ہر ایک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتا ہے۔ لہٰذا الہ بھی وہی ہے۔ فرمایا مجھے دکھائو تمہارے خود ساختہ معبودوں نے زمین میں کون سی چیز تخلیق کی ہے ، کوئی انسان درخت ، پتھر ، جانور ، نباتات ، اناج ، پھل ان میں سے کچھ تو پیدا کیا ہو ، حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے۔ اللہ نے سورة عبس میں فرمایا ہے کہ انسان ذرا اپنے کھانے میں غور کرکے دیکھے کہ ہوائوں کو کس نے چلایا ، بادلوں کو اڑا کر کون لے گیا ، بارش کس نے برسائی ثم شققنا الارض شقا (آیت 26) پھر زمین کو پھاڑ کر پھل ، پھول اور اناج کس نے اگایا جسے تم بھی کھاتے ہو اور تمہارے جانور بھی اپنی غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کے سوا کسی نے زمین میں کوئی چیز پیدا کی ہے۔ اچھا اگر انہوں نے زمین میں کچھ نہیں پیدا کیا ام لھم شرک فی السموت تو کیا آسمانوں کی تخلیق میں ان کی کوئی شراکت ہے ؟ آسمانوں کا کوئی ٹکڑا یا کوئی آسمانی کرہ ہی معبودان باطلہ کا پیدا کردہ ہو ، ان سورج ، چاند ، زہرہ ، مریخ وغیرہ میں ان کا کوئی حصہ ہو ؟ اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھر تمہیں ان کی پرستش کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ فرمایا اگر زمین و آسمان میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے تو یہ ہی بتلائو ام اتینھم کتبا فھم علی بینت منہ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کی ہے اور وہ اس سے کھلی دلیل پر ہیں۔ دوسری جگہ ہے فیہ تدرسون جس کو تم پڑھتے پڑھاتے ہو اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان خود ساختہ معبودوں کو کوئی اختیار ہے اور انہیں پکار کر ان سے حاجت براری کی جاسکتی ہے اس چیز کا بھی کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے بل ان یعد الظلمون بعضھم بعضا الا غرورا کہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محض فریب کاری کا وعدہ ہی کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ کتاب کی صورت میں کوئی نقلی دلیل بلکہ محض جھوٹی باتوں کے ذریعے پراپیگنڈہ ہے جو کہ فریب کاری کے سوا کچھ نہیں۔ شفاعت کا غلط تصور بعض مشرک کہتے ہیں کہ ہمارے یہ معبود خود تو کوئی کام نہیں کرتے البتہ سفارش کرکے اللہ کے ہاں سے کام بنوا دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کا بیان اللہ نے قرآن میں نقل کیا ہے جو کہتے ہیں ھولاء شفعائونا عند اللہ (یونس 18) یہ تو اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ ان کی سفارش اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا لہٰذا ہماری بگڑی بنوا دیتے ہیں۔ چناچہ ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (الزمر 3) ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیتے ہیں۔ یہ سب دھوکے اور فریب کی باتیں ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر سفارش بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا کافروں اور مشرکوں کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سارا تصرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے سوا کوئی قدرت تامہ کا مالک نہیں ، مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور سب کے سب اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا انسانوں ، جنوں اور ملائکہ میں الوہیت کی کوئی صفت نہیں پائی جاتی۔ ان سے قیامت والے دن پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے میرے بندوں کو شرک پر آمادہ کیا تھا۔ تو وہ صاف جواب دیں گے سبحنک مولا کریم ! تیری ذات پاک ہے ، بھلا ہم کسی کو شرک کی دعوت کیسے دے سکتے تھے ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ مولا کریم ! میں نے تو اپنی قوم کو یہی تعلیم دی تھی ان اعبدوا اللہ ربی وربکم (المائدہ 117) کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے الغرض فرمایا ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے اور فریب کی بات کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی کارساز ہے۔ نظام کائنات کا استحکام اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ کی طرف کچھ اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا بیشک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامتا ہے کہ وہ ٹل جائیں۔ ولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدہ اور اگر یہ آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو ان کو کوئی تھامنے والا نہیں ہے۔ سورج ، چاند اور زمین اور دیگر کرے فضا میں معلق ہیں۔ اللہ نے ہر ایک کا مدار مقرر کر رکھا ہے سورة یسین میں ہے کل فی فلک یسبحون (آیت 40) سب کے سب اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ اللہ نے ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں کسی کرے کا مدار چھوٹا ہے اور وہ جلدی اپنا چکر پورا کرلیتا ہے اور کسی کا مدار لمبا ہے اور وہ اس کے مطابق زیادہ وقت لیتا ہے۔ کوئی کرہ چوبیس گھنٹے میں اپنے مدار کے گرزد چکر لگاتا ہے ، کوئی ایک ماہ میں ، کوئی بیس سال میں اور کوئی ہزاروں سال میں۔ سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔ فلکیات والے بتاتے ہیں کہ سورج زمین کی نسبت تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے مگر بہت دور ہونے کی وجہ سے اس قدر چھوٹا نظر آتا ہے یہ زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ اسی طرح زمین سے نزدیک ترین کرہ چاند اڑھائی لاکھ میل کی مسافت پر ہے۔ شعریٰ سیارہ جس کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے وانہ ھو رب الشعری (النجم 49) یعنی شعریٰ سیارے کا رب بھی وہی ہے ، یہ سیارہ سورج سے بیس گناہ بڑا ہے۔ ہر کرے کا وزن ہے اور یہ حکمت خداوندی کے مطابق جب تک اس کو منظور ہے چلتے رہیں گے۔ پھر جب مقررہ وقت آجائے گا تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور نیا نظام قائم ہوگا۔ اللہ نے وقوع قیامت کی مختلف نشانیاں بیان فرمائی ہیں کہیں فرمایا اذا الشمس کورت (التکویر 1) جب سورج گہنا جائے گا۔ سورة زلزال میں فرمایا اذا زلزلت الارض زلزالھا (آیت 1) جب زمین کو خوب ہلا دیا جائے گا۔ اس کے ذرات بکھر جائیں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح اڑنے لگیں گے ، ستارے بےنور ہوجائیں گے اور سارا نظام درہم برہم کردیا جائے گا۔ تو پھر عالا بالا کا نظام قائم ہوگا۔ فرمایا انہ کان حلیما غفورا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی بردبار اور بخشش کرنے والا ہے۔ وہ انسان کی کوتاہیوں پر فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا رہتا ہے۔ پھر جب مقررہ وقت آجاتا ہے تو مجرم کو پکڑ لیتا ہے اور جب کوئی مجرم اس کے دروازے پر آکر تائب ہوجاتا ہے تو پھر اس کی رحمت و بخشش بھی بڑی وسیع ہے اور وہ معاف کردیتا ہے۔ اگر اس کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو لوگوں کے کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے دنیا یکدم ویران ہوجاتی۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت و بخشش کی وجہ سے ہی کائنات کا نظام قائم ہے وہ اپنے وقت پر عدل و انصاف کے سارے تقاضے پورے کرکے دکھا دے گا۔
Top