Mualim-ul-Irfan - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے پوشیدہ چیزیں آسمانوں اور زمین کی۔ بیشک وہ خوب جانتا ہے سینوں کے راز
ربط آیات گزشتہ درس میں انذار کا مضمون ذکر ہوا تھا۔ قرآن کے ورثاء تین قسم کے آدمی ہیں۔ بعض وہ ہیں جو صغائر و کبائر کا ارتکاب کرکے اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے لوگ میانہ روی اختیار کرتے ہیں جب کہ تیسرا گروہ وہ ہے جو بھلائیوں میں سبقت کرتا ہے۔ یہ سارے گروہ اہل اسلام حاملین قرآن ہیں۔ پھر اللہ نے نیکی کرنے والوں کے انعامات کا ذکر کیا اور کفر کرنے والوں کے عذاب اور ان کی چیخ و پکار کو بیان کیا۔ اللہ فرمائے گا کہ تمہیں دنیا میں کتنی عمر تک مہلت دی تھی۔ اس مہلت کے دوران تمہارے پاس اللہ کے نبی بھی آئے جو تمہیں ڈر سناتے رہے ، اللہ کی وحدانیت کے دلائل بھی تمہیں آگاہ کرتے رہے۔ انسانی زندگی کے تغیرات خود نذیر ہیں۔ انسان کا بڑھاپا اسے یاد دلاتا ہے کہ زندگی کا باقی حصہ تھوڑا رہ گیا ہے ، اب بھی سمجھ جائو مگر تم نے ان چیزوں سے نصیحت حاصل نہ کی ، اب چیخنے چلانے کا کچھ فائدہ نہیں ، اپنے عقیدے اور عمل کا مزہ چکھو ، اب ظالموں کو کسی طرسے مدد نہیں آئے گی۔ عالم الغیب ذات اب سورة کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض صفات اور جزائے عمل ہی کا ذکر کیا ہے۔ ساتھ ساتھ توحید کے عقلی دلائل بھی بیان کیے ہیں۔ قرآن کی صداقت کو ماننے والے اور انکار کرنے والوں کا ذکر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ علم غیب السموات والارض بیشک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کی مخفی چیزوں کو جاننے والا ہے انہ علیم بذات الصدور بیشک سینوں کے رازوں کو بھی وہ خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی نیت ، ارادے ، استعداد اور صلاحیت تک کو جانتا ہے۔ اسی بنا پر گزشتہ درس میں اللہ کا یہ فرمان گزر چکا ہے فذوقوا فما للظلمین من نصیر (آیت 37) اب عذاب کا مزہ چکھو۔ آج کے دن ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اس دن کافر لوگ کہیں گے ربنا اخرجنا نعمل صالحا (آیت 37) پروردگار ہمیں اس عذاب سے نکال لے ہم اچھے عمل کریں گے۔ مگر اللہ چونکہ ان کی نیت اور ارادے سے واقف ہے وہ کہے گا ولو دروا لعادوا لما نھواعنہ (الانعام 28) اگر بالفرض ہم ان کو دنیا میں واپس لوٹا بھی دیں تو یہ پلٹ کر وہی کام کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ علیم کل اور تمام مخفی باتوں کو جاننے والا ہے لہٰذا وہ ہر انسان کے ساتھ اس کی نیت ، ارادے اور عمل کے مطابق ہی سلوک کرتا ہے۔ خلافت ارضی ارشاد ہوتا ہے ھوالذی جعلکم خلف فی الارض خدا تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا۔ اللہ نے اپنا یہ انعام یاد دلا کر شکر گزاری کا مطالبہ کیا ہے مگر اکثر لوگ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔ خلافت عام بھی ہے اور خاص بھی۔ اللہ نے آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے متعلق فرشتوں کو خطاب کرکے فرمایا انی جاعل فی الارض خلیفہ (البقرہ 30) میں زمین میں خلیفہ یعنی نائب یا قائم مقام بنانے والا ہوں۔ یہ خلافت خاص تھی اور خلافت عام یہ ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے خلیفہ ، جانشین یا قائم مقام ہیں۔ پہلے بادشاہوں کی جگہ موجودہ حکمران خلیفہ ہیں۔ پہلے زمینداروں اور کاشتکاروں کے جانشین موجودہ زمیندار یا کاشتکار ہیں۔ مفسرین کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جعلکم کا خطاب امت محمدیہ سے ہے کہ اللہ نے تمہیں پہلوں کا خلیفہ منتخب کیا ہے۔ اب خطہ ارضی تمہاری سپرداری میں ہے۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے احکام کو بھی زمین میں جاری کرو۔ اللہ کی مخلوق کو جہالت سے نکالو ، ان سے ظلم و زیادتی کو رفع کرو ، ان کو عدل و انصاف کا درس دو ، زمین کو شر و فساد کی بجائے امن و سکون کا گہوارہ بنائو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف 56) زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلائو۔ اللہ تعالیٰ اس خلافت کے ذریعے تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے فینظر کیف تعملون (حدیث) وہ ظاہر کردے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو ، مگر عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جب کسی فرد یا قوم یا جماعت کو اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو پھر شکر گزاری کی بجائے ناشکری ہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے زمین کی اکثر آبادی تو کفر اور شرک میں مبتلا ہے۔ آج کے زمانہ میں بھی دنیا کی کل آبادی کے چار حصے کفر و شرک میں ڈوبے ہوئے ہیں اور صرف پانچواں حصہ دین و ایمان سے قدرے تعلق رکھتا ہے۔ بہرحال نیابت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے مگر اکثر لوگ ناشکرگزار ہی ہیں۔ ناشکر گزاری کا انجام ارشاد ہوتا ہے فمن کفر فعلیہ کفر جس نے کفران نعمت کیا یعنی ناشکرگزاری کی تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا ، اللہ کیا چاہے گا ؟ چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ اللہ کی آیات ، اس کی صفات اور دلائل قدرت میں غور و فکر کرکے اس کی توحید کو تسلیم کرتے ، عدل و انصاف قائم کرتے ، اللہ کی زمین میں اصلاح کرتے اور اس طرح اللہ کی نعمت کا شکریہ ادا کرتے مگر اس کی بجائے انہوں نے کفر و شرزک کا راستہ اختیار کرکے کفران نعمت کا ثبوت دیا جو خود ان کے حق میں برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے لھا ما کسبت وعلیھا ما اکتسبت (البقرہ 386) انسان نے جو نیکی کمائی ہے وہ اس کے لیے کارآمد ہے اور جو برائی کی ہے ، اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ سورة المدثر میں ارشاد خداوندی ہے کل نفس بما کسبت رھینۃ (آیت 38) ہر انسان اپنی کمائی میں پھنسا ہوا ہے۔ قیامت والے دن اس کا قدم نہیں اٹھ سکے گا جب تک ایک ایک عمل کا محاسبہ نہیں ہوجائے گا۔ فرمایا جس نے ناشکرگزاری کی تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا ولا یزید الکفرین کفرھم عند ربھم الا مقتا اور ناشکرگزاروں کی ناشکر گزاری ان کے پروردگار کے ہاں نہیں زیادتی کرتی مگر ناراضگی کو مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے کفران نعمت سے ناراض ہی ہوتا ہے جس مقدار میں ناشکرگزاری ہوتی ہے اسی قدر اللہ کی ناراضگی اور بیزاری خریدنے والی بات ہے ولا یزید الکفرین کفرھم الاخسارا اور ناشکر گزاروں کی ناشکرگزاری ان کے لیے نقصان ہی کا باعث بنتی ہے ، ایسا کرنے سے کسی فائدہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا ہے ولا یزید الظلمین الا خسارا (آیت 82) ظلم کرنے والوں کو بھی نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نقصان ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے نہ تو دنیا کی زندگی درست ہوسکتی ہے اور نہ برزخ اور آخرت میں بہتر مقام حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ زندگی بھی خراب ہوجاتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ ناشکرگزاری خدا کی ناراضگی اور نقصان کا باعث ہے۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہیں ارء یتم شرکاء کم الذین تدعون من دون اللہ بھلا بتلائو تو تمہارے وہ شریک جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، یعنی جن کو نذر و نیاز پیش کرکے ان سے حاجات طلب کرتے ہو ، ارونی ماذا خلقوا من الارض مجھے دکھائو جو کچھ انہوں نے زمین میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نٰے توحید کے اثبات اور شرک کی تردید میں یہ عقلی دلیل پیش کی ہے کہ تم جن معبودان باطلہ کو اپنی حاجت براری یا مشکل کشائی یا سارش کے لیے پکارتے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ نے ان پر الوہیت کا چادر ڈال رکھی ہے ، کیا انہوں نے آج تک زمین میں کوئی چیز تخلیق کی ہے اگر کی ہے تو مجھے دکھلائو تاکہ تمہارے شرزک کا جواز پیدا ہوسکے اور اگر انہوں نے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی تو تم ان سے کیا چاہتے ہو ؟ حقیقت یہ ہے کہ سارا اختیار اللہ کے پاس ہے ، اس نے اپنا اختیار کسی مخلوق کو نہیں دیا ، تمام معاملات کی تدبیر وہ خود کرتا ہے ، جیسا کہ اس کا ارشاد ہزے یدبر الامر من السماء الی الارض (السجدۃ 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر وہ خود کرتا ہے اور اس معاملہ میں اس نے کسی کو اختیار نہیں دیا۔ نجومی ستاروں کو بااختیار مانتے ہیں اور کمہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہماری حاجات پوری کرتے ہیں۔ عیسائی مسیح (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا نے ان کو اختیار دے رکھا ہے۔ قبر پرست لوگ قبروں پر چادریں چڑھاتے اور نذر و نیاز پیش کرتے ہیں تاکہ اصحاب قبور اپنے اختیار سے ان کی بگڑی بنا دی ، حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ جھوٹ ہے۔ اللہ کے سوا نہ کوئی کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کچھ روک سکتا ہے۔ بلکہ سارے کے سارے اللہ کے عاجز بندے ہیں ، کسی میں الوہیت یا اختیار وائی کوئی بات نہیں۔ اللہ نے قرآن پاک میں اس عقیدے کی بار بار نفی کی ہے۔ ہر چیز کا خالق ، مالک اور مدبر اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ وہ بلاشرکت غیرے ہر ایک کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتا ہے۔ لہٰذا الہ بھی وہی ہے۔ فرمایا مجھے دکھائو تمہارے خود ساختہ معبودوں نے زمین میں کون سی چیز تخلیق کی ہے ، کوئی انسان درخت ، پتھر ، جانور ، نباتات ، اناج ، پھل ان میں سے کچھ تو پیدا کیا ہو ، حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے۔ اللہ نے سورة عبس میں فرمایا ہے کہ انسان ذرا اپنے کھانے میں غور کرکے دیکھے کہ ہوائوں کو کس نے چلایا ، بادلوں کو اڑا کر کون لے گیا ، بارش کس نے برسائی ثم شققنا الارض شقا (آیت 26) پھر زمین کو پھاڑ کر پھل ، پھول اور اناج کس نے اگایا جسے تم بھی کھاتے ہو اور تمہارے جانور بھی اپنی غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کے سوا کسی نے زمین میں کوئی چیز پیدا کی ہے۔ اچھا اگر انہوں نے زمین میں کچھ نہیں پیدا کیا ام لھم شرک فی السموت تو کیا آسمانوں کی تخلیق میں ان کی کوئی شراکت ہے ؟ آسمانوں کا کوئی ٹکڑا یا کوئی آسمانی کرہ ہی معبودان باطلہ کا پیدا کردہ ہو ، ان سورج ، چاند ، زہرہ ، مریخ وغیرہ میں ان کا کوئی حصہ ہو ؟ اگر یہ بھی نہیں ہے تو پھر تمہیں ان کی پرستش کا کیا حق پہنچتا ہے ؟ فرمایا اگر زمین و آسمان میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے تو یہ ہی بتلائو ام اتینھم کتبا فھم علی بینت منہ یا ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کی ہے اور وہ اس سے کھلی دلیل پر ہیں۔ دوسری جگہ ہے فیہ تدرسون جس کو تم پڑھتے پڑھاتے ہو اور اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ان خود ساختہ معبودوں کو کوئی اختیار ہے اور انہیں پکار کر ان سے حاجت براری کی جاسکتی ہے اس چیز کا بھی کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے بل ان یعد الظلمون بعضھم بعضا الا غرورا کہ یہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ محض فریب کاری کا وعدہ ہی کرتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ کتاب کی صورت میں کوئی نقلی دلیل بلکہ محض جھوٹی باتوں کے ذریعے پراپیگنڈہ ہے جو کہ فریب کاری کے سوا کچھ نہیں۔ شفاعت کا غلط تصور بعض مشرک کہتے ہیں کہ ہمارے یہ معبود خود تو کوئی کام نہیں کرتے البتہ سفارش کرکے اللہ کے ہاں سے کام بنوا دیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کا بیان اللہ نے قرآن میں نقل کیا ہے جو کہتے ہیں ھولاء شفعائونا عند اللہ (یونس 18) یہ تو اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ ان کی سفارش اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا لہٰذا ہماری بگڑی بنوا دیتے ہیں۔ چناچہ ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی (الزمر 3) ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیتے ہیں۔ یہ سب دھوکے اور فریب کی باتیں ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر سفارش بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا کافروں اور مشرکوں کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سارا تصرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے سوا کوئی قدرت تامہ کا مالک نہیں ، مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں اور سب کے سب اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا انسانوں ، جنوں اور ملائکہ میں الوہیت کی کوئی صفت نہیں پائی جاتی۔ ان سے قیامت والے دن پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے میرے بندوں کو شرک پر آمادہ کیا تھا۔ تو وہ صاف جواب دیں گے سبحنک مولا کریم ! تیری ذات پاک ہے ، بھلا ہم کسی کو شرک کی دعوت کیسے دے سکتے تھے ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کہیں گے کہ مولا کریم ! میں نے تو اپنی قوم کو یہی تعلیم دی تھی ان اعبدوا اللہ ربی وربکم (المائدہ 117) کہ اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے الغرض فرمایا ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ دھوکے اور فریب کی بات کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی کارساز ہے۔ نظام کائنات کا استحکام اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت تامہ کی طرف کچھ اشارہ کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا بیشک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامتا ہے کہ وہ ٹل جائیں۔ ولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدہ اور اگر یہ آسمان و زمین اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو ان کو کوئی تھامنے والا نہیں ہے۔ سورج ، چاند اور زمین اور دیگر کرے فضا میں معلق ہیں۔ اللہ نے ہر ایک کا مدار مقرر کر رکھا ہے سورة یسین میں ہے کل فی فلک یسبحون (آیت 40) سب کے سب اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ اللہ نے ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں کسی کرے کا مدار چھوٹا ہے اور وہ جلدی اپنا چکر پورا کرلیتا ہے اور کسی کا مدار لمبا ہے اور وہ اس کے مطابق زیادہ وقت لیتا ہے۔ کوئی کرہ چوبیس گھنٹے میں اپنے مدار کے گرزد چکر لگاتا ہے ، کوئی ایک ماہ میں ، کوئی بیس سال میں اور کوئی ہزاروں سال میں۔ سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں اور کائنات کا یہ نظام چل رہا ہے۔ فلکیات والے بتاتے ہیں کہ سورج زمین کی نسبت تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے مگر بہت دور ہونے کی وجہ سے اس قدر چھوٹا نظر آتا ہے یہ زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل دور ہے۔ اسی طرح زمین سے نزدیک ترین کرہ چاند اڑھائی لاکھ میل کی مسافت پر ہے۔ شعریٰ سیارہ جس کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے وانہ ھو رب الشعری (النجم 49) یعنی شعریٰ سیارے کا رب بھی وہی ہے ، یہ سیارہ سورج سے بیس گناہ بڑا ہے۔ ہر کرے کا وزن ہے اور یہ حکمت خداوندی کے مطابق جب تک اس کو منظور ہے چلتے رہیں گے۔ پھر جب مقررہ وقت آجائے گا تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا اور نیا نظام قائم ہوگا۔ اللہ نے وقوع قیامت کی مختلف نشانیاں بیان فرمائی ہیں کہیں فرمایا اذا الشمس کورت (التکویر 1) جب سورج گہنا جائے گا۔ سورة زلزال میں فرمایا اذا زلزلت الارض زلزالھا (آیت 1) جب زمین کو خوب ہلا دیا جائے گا۔ اس کے ذرات بکھر جائیں گے اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح اڑنے لگیں گے ، ستارے بےنور ہوجائیں گے اور سارا نظام درہم برہم کردیا جائے گا۔ تو پھر عالا بالا کا نظام قائم ہوگا۔ فرمایا انہ کان حلیما غفورا بیشک اللہ تعالیٰ بڑا ہی بردبار اور بخشش کرنے والا ہے۔ وہ انسان کی کوتاہیوں پر فوری گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا رہتا ہے۔ پھر جب مقررہ وقت آجاتا ہے تو مجرم کو پکڑ لیتا ہے اور جب کوئی مجرم اس کے دروازے پر آکر تائب ہوجاتا ہے تو پھر اس کی رحمت و بخشش بھی بڑی وسیع ہے اور وہ معاف کردیتا ہے۔ اگر اس کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو لوگوں کے کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے دنیا یکدم ویران ہوجاتی۔ یہ خدا تعالیٰ کی رحمت و بخشش کی وجہ سے ہی کائنات کا نظام قائم ہے وہ اپنے وقت پر عدل و انصاف کے سارے تقاضے پورے کرکے دکھا دے گا۔
Top