Tafseer-e-Jalalain - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک خدا ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے
آیت نمبر 38 تا 45 ترجمہ : بلاشبہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے بیشک وہی دل کے رازوں سے واقف ہے لہٰذا دل کے رازوں کے علاوہ کا بطریق اولیٰ جاننے والا ہے، اور اولویت لوگوں کے احوال کے اعتبار سے ہے وہی ذات ہے جس نے تم کو زمین میں آباد کیا خلائف، خلیفۃً کی جمع ہے یعنی بعض بعض کے جانشین ہوتے ہیں پس جس نے تم میں سے کفر کیا اسی پر اس کا کفر ہے یعنی کفر کا وبال اور کافروں کے لئے ان کا کفر ان کے پروردگار کے نزریک ناراضی کا باعث ہوتا ہے، اور کافروں کا کفر آخرت میں ان کے لئے خسارہ میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے آپ کہئے کیا تم نے اپنے فرض کردہ شریکوں کا حال دیکھا ؟ جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر بندگی کرتے ہو یعنی غیر اللہ کی، اور وہ بت ہیں جن کے بارے میں تم یقین رکھتے ہو کہ وہ اللہ کے شریک ہیں مجھے بتاؤ انہوں نے زمین کا کونسا حصہ پیدا کیا ؟ یا ان کی اللہ کے ساتھ آسمانوں کے پیدا کرنے میں شرکت ہے ؟ یا ہم ان کوئی کتاب دی ہے ؟ کہ وہ اس کی دلیل پر قائم ہیں، ان میں سے کوئی بات بھی نہیں بلکہ یہ ظالم کافر ایک دوسرے سے یہ کہہ کہ یہ بت ان کی سفارش کریں گے خالص دھوکے کا وعدہ کرتے آئے ہیں، بیشک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو گرنے سے تھامے ہوئے ہے (واللہ) اگر وہ گرنے لگیں تو اس کے سوا ان کو تھامنے والا کوئی نہیں، بلاشبہ وہ کافروں کے عذاب میں تاخیر کرنے میں غفور ورحیم ہے اور مکہ کے کافروں نے اللہ کی بڑی زور دار قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس رسول آئے تو وہ ہر امت سے یعنی یہود و نصاریٰ وغیرہ سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں گے یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک سے (یہ اس وقت کی بات ہے) کہ جب انہوں نے دیکھا کہ (یہود و نصاریٰ نے) ایک دوسرے کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ نصاریٰ حق پر نہیں اور نصاریٰ نے کہا یہود حق پر نہیں، جب ان کے پاس نذیر یعنی محمد ﷺ آیا تو اس کی آمد نے نفرت یعنی ہدایت سے دوری ہی میں اضافہ کیا، دنیا میں ایمان سے تکبر کرنے کی وجہ سے، اور ان کی شرک وغیرہ کی تدبیروں میں اضافہ ہوا استکبارًا (نفورا) کا مفعول لہ ہے، اور بری تدبیروں کا وبال خود تدبیر والوں پر پڑتا ہے اور وہ بری تدبیر کرنے والا ہے، اور مَکْرٌ کی صفت سہِّئٌ اصل (استعمال) ہے، سابق میں مکر کی اضافت سیِّئٌ کی جانب دوسرا استعمال ہے، اس (دوسرے استعمال) میں اضافت موصوف الی الصف سے بچنے کے لئے مضاف محذوف مانا گیا ہے ( معلوم ہوتا ہے) کہ یہ لوگ صرف خدائی اسی دستور کے منتظر ہیں جو پہلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور وہ (دستور) ان کو اپنے رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے مبتلاء عذاب کرنا ہے، تو آپ کبھی خدائی دستور میں تبدیلی نہیں پائیں گے، اور خدائی دستور میں تحویل بھی نہ پائیں گے۔ یعنی عذاب کو غیر عذاب سے نہیں بدلا جائے گا، اور (اسی طرح) مستحق سے غیر مستحق کی طرف منتقل نہیں کیا جائے گا، سو کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ دیکھیں کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ؟ حالانکہ وہ قوت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے سو اللہ نے ان کو ان کے رسول کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک کردیا، اور اللہ ایسا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں اس کو کوئی ہرا سکے کہ اس سے سبقت کرجائے، اور اس سے بچ کر نکل جائے، اور وہ تمام اشیاء کا جاننے والا ہے اور ان پر قادر ہے اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا ان کی معاصی کی وجہ سے مواخذہ کرنے لگے تو روئے زمین پر کسی شخص کو نہ چھوڑے کہ وہ زمین پر چلے پھرے، (یعنی زندہ رہے) لیکن اللہ تعالیٰ اس کو ایک وقت مقرر یعنی قیامت کے دن تک مہلت دے رہا ہے سو جب ان کا وہ وقت آجائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا تو وہ ان کے اعمال کا بدلہ دے گا، مومنین کو ثواب عطا کرکے، اور کافروں کو سزا دیکر۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ یہ عالم غَیْبِ السمٰواتِ والْاَرْضِ کی علت ہے یعنی جو ذات سینوں کے رازوں سے واقف ہے وہ اس کے علاوہ سے بطریق اولیٰ واقف ہوگی اِنَّ اللہَ عَالِمُ غَیْبِ السّمٰواتِ والْاَرْضِ یہ دعویٰ ہے اور اِنَّہٗ عَلیْمٌ بذَاتِ الصُّدُوْرِ دعوے کی دلیل ہے اور فعِلْمُہٗ بِغَیْرِہٖ اَوْلیٰ یہ نتیجہ ہے۔ قولہ : نالنظرِ الی حال الناس یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں اَوْلَوِیَّتْ واَوَّلِیَّتْ کے اعتبار سے کوئی تفاوت نہیں ہوتا بلکہ اس کے سامنے تمام چیزیں مساوی طور پر منکشف ہیں خدا کے علم حضوری میں اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ بعض چیزیں انسانوں کے لئے مخفی ہوں اور بعض ظاہر۔ جواب : وَلاَ یَزیدُ الکافرینَ الخ یہ وبال کفر اور اس کے انجام کا بیان ہے۔ قولہ : قُلْ اَرَأیْتُمْ (الآیۃ) اس میں اعراب کے اعتبار سے دو صورتیں ہیں (1) ہمزہ استفہامیہ ہے اور۔ اَرُوْنِیْ امرتعجیز کے لئے جملہ معترضہ ہے، اس صورت میں یہ بات تنازع فعلان سے نہ ہوگا، اور اَرُونی ماذا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرضِ یہ اَرَأیتُمْ سے بدل الاشتمال ہے، ای اخبرونی عن شُرکَائِکم وارُوْنِیْ ایَّ شیئ خلَقُوْا مِنَ الْارْضِ حتی یستحقوا الإلٰھیۃ والشرکۃ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اروْنِیْ ، أرَأیْتُمْ سے بدل الکل ہے، مگر ابوحیان کو ناجائز کہا ہے۔ اب کا کہنا ہے کہ جب مبدل منہ پر ہمزۂ استفہام داخل ہو تو ضروری ہے کہ بدل پر بھی داخل ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے نیز ابدال جملہ عن الجملہ ان کی زبان میں معہود نہیں ہے، نیز بدل تکرار عامل کی نیت سے ہوتا ہے۔ اور یہاں منہ یعنی أرَأیْتُمْ میں کوئی عامل ہی نہیں ہے (روح المعانی) (2) دوسرا احتمال یہ ہے کہ جملہ باب تبازع فعلان سے ہو، اس صورت میں أرَأیْتُمْ باب افعال سے ہوگا اور اخبرونی کے افعال سے ہوگا، مفعول اول نِیْ ہے دوسرے مفعول کی اس کو ضرورت ہے دوسرا فعل اَرُوْنِیْ ہے یہ بھی متعدی بدومفعول ہے ایک مفعول اس سے متصل نِی ہے، دوسرے کی ضرورت ہے اور دوسرا مفعول جس میں تنازع ہے وہ مَاذَا خَلَقُوْا من الْاَرْضِ ہے جس میں اَرَأیْتُمْ اور اَرُوْنِی تنازع کررہے ہیں، بصریین کے مختار مذہب کے مطابق دوسرے فعل اروْنی کو عمل دیا۔ قولہ : شرکائھم یہ اضافت ادنیٰ مناسبت کی وجہ سے ہے اس لئے کہ مشرکین نے ان کو خدا کا شریک قرار دیا تھا، یا اضافت اس وجہ سے ہے کہ مشرکوں نے بتوں کو حقیقت میں اپنے اموال میں شریک کرلیا تھا، اور باقاعدہ اپنے اموال میں بتوں کا حصہ رکھتے تھے ان کے نام کی قربانی کرتے تھے۔ قولہ : اَمْ آتَیْنَاھُمْ ، ھُمْ سے مراد مشرکین ہیں، بعض نے کہا ہے کہ شرکاء مراد ہیں، یعنی کیا ہم نے مشرکین کو یا شرکاء کو کوئی ایسی کتاب دی ہے کہ جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ میری قدرت میں میرے ساتھ کوئی شریک ہے ؟ لاَ شیئ مِنْ ذٰلک سے اشارہ کردیا کہ یہ استفہام انکاری ہے، اور جملہ مذکورہ تینوں استفہاموں کا جواب بھی ہے۔ قولہ : شِرْکَۃٌ. شرکٌ کی تفسیر شرکۃٌ سے کرکے اشارہ کردیا کہ شرکٌ مصدر بمعنی شِرْکۃٌ اسم ہے۔ (لغات القرآن) قولہ : بَعْضُھُمْ. ظَالمُوْنَ سے بدل ہے۔ قولہ : یَمْنَعُ مِنَ الزوَال اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انْ تَزُوْلَا، حرف جرمنْ کے اسقاط کے ساتھ بتاویل مصدر ہو کر یُمْسِکُ کا مفعول ثانی ہے اور یمسک یمنع کے معنی میں ہے اور زجاج نے کہا ہے کہ مفعول لہ ہے ای مَخَافَۃََ ان تَزُولاَ ۔ قولہ : ولئِن زالتا کا مفعول اس میں قسم اور شرط دونوں جمع ہیں اِنْ اَمسکَھُمَا جواب قسم ہے اور قاعدۂ معروفہ کی رو سے جواب شرط محذوف ہے جس پر جواب قسم دلالت کررہا ہے۔ ؎ واحذف لدی اجتماعِ شرطٍ وقسمٍ جوابَ مَا اَخَّرتَ فھُوَ مُلتَزَمٗ قولہ : مِنْ اَحَدٍ من فاعل پر زائدہ ہے، احد لفظاً مجرور اور محلاً مرفوع ہے۔ قولہ : سِواۂ یہ مِنْ بعدِہٖ کی تفسیر ہے یعنی بَعْدُ بمعنی غیر ہے، اور مِنْ بَعدہٖ میں مِنْ ابتدائیہ ہے۔ قولہ : اِنَّہٗ کانَ غفوراً رحیمًا یہ یمسکھُما السّمٰواتٍ اولْاَرضِ کی علت ہے یعنی غفور ورحیم ہونے کی وجہ سے زمین و آسمان کو گرنے سے روکے ہوئے ہے یعنی کفر وشرک درحقیت ایسے جرم ہیں کہ ان کی سزا تو فوری مل جانی چاہیے مگر وہ اپنی صفت رحمت و مغفرت کی وجہ سے عذاب کی وجہ سے عذاب میں تاخیر کررہا ہے۔ قولہ : جَھْدَ اَیْمٰنِھِمْ مفسر علام نے جَھْدَ کی تفسیر غَایَۃَ اَیْمَانِھِم سے کرکے اشارہ کردیا کہ جَھْدَ مصدریۃ کی وجہ سے منصوب ہے اور یہ بھی درست ہے کہ حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہو، ای اقسموْا باللہِ جاھِدین، جَھْدٌ فتحہ جیم کے ساتھ پوری کوشش اور طاقت صرف کرنا جُھْدٌ بالضم بمعنی طاقت، مشرکین مکہ کی یہ عادت تھی کہ عام طور پر اپنے آباء یا اصنام کی قسم کھایا کرتے تھے۔ قولہ : لَیَکُوْنُنَّ یہ بالمعنی حکایت حال ہے ورنہ تو مقام کا مقیضٰی یہ تھا کہ لَتَکُوْنُنَّ ہو۔ قولہ : فَلَمَّا جَاءَ ھُمْ نَذِیْرٌ، لَمَّا حرف شرط ہے اور مَا زَادَھُمْ اِلَّا نُفُوْرًا جواب شرط ہے، یہاں لمّا کو ظرفیہ ماننا درست نہیں ہے، اس لئے کہ ما نافیہ کا مابعد ماقبل میں عمل نہیں کرتا، اور زیادتی نفرت کی اسناد نذیر کی جانب یا مجئیت کی جانب اسباد مجازی ہے، اس لئے کہ نذیر سبب نفرت ہے ورنہ تو نذیر کا کام نفرت میں اضافہ کرنا نہیں ہوتا۔ قولہ : اِسْتِکْبَارًا یہ نفورًا کا مفعول لہ ہے یعنی مشرکین کے ایمان کے مقابلہ میں تکبیر وتعلّی کرنے کی وجہ سے ان کی نفرت میں اضافہ ہوا، نیز نفوراً سے بدل واقع ہونا بھی صحیح ہے، اور زَادَھم کی ضمیر سے حال بھی ہوسکتا ہے، ای مَازَادَھُمْ اِلَّا نفورًا حال کونِھِم مُستکبرینَ. قولہ : وَمَکْرَ العمل السَّیِّئِ اس کا عطف اِسْتِکبَارًا یا نُفُوْرًا پر ہے، یعنی مشرکین کی نفرت میں اضافہ کی وجہ ایمان سے اعراض اور برے عمل کی تدبیریں ہیں یا نفرت میں اضافہ تکبر اور تدبیر بد کی وجہ سے ہے مکر السّیِّئ میں اصل استعمال الْمکرُ السَّیِّئُ بترکیب توصیفئ ہے، اور ماقبل کے جملہ میں بترک اضافی جو استعمال ہوا ہے وہ خلاف اصل ہے اس لئے کہ اس میں موصوف کی اضافت صفت کی طرف ہورہی ہے جو کہ الشئ الی نفسہٖ کے قبیل سے ہے جو ممنوع ہے، اس سے بچنے کے لئے مفسر (رح) تعالیٰ نے العمل مضافت الیہ محذوف مانا جو کہ السَّیِّئُ کا موصوف ہے، اس طریقہ سے اضافت الموصوف الی الصفت کا اعتراض ختم ہوگیا، اس لئے کہ اس صورت میں مکر کی اضافت العمل کی طرف ہے نہ السَّیّئُ کی طرف (جمل) اور بعض کے نزدیک مکر السَّیِّئِ کی اصل أنْ مَکَرُوْا المَکَرَ السَّیِّئُ ہے موصوف یعنی المکرُ کو صفت یعنی الَّیِّئُ کی وجہ سے مستغنی ہونے کی وجہ سے حذف کردیا پھر فعل کو مع أن مصدریہ کے یعنی مکرٌ سے بدل دیا بعد ازاں اتساعاً مصدر کی اضافت صفت یعنی السَّیّئُ کی جانب کردی گئی، مکرَ السَّیِّئ ہوگیا۔ (روح البیان) قولہ : وَصْفُ المکرِ بالسَّیِّئ اصلٌ واِضَافتُہٗ اِلَیْہِ قبلُ ، اِسْتِعْمَالٌ آخَرُ قُدِّرَ فَیہِ مضافٌ الیہِ حذْرًا مِنَ الإضَافَۃِ الی الصفۃِ شارح کی اس عبارت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ مکر السَّیِّئ کا اصل اور قاعدہ کے مطابق استعمال تو بترکیب توصیفی ہے جیسا کہ وَلاَ یَحِیْقُ المکرُ السَّیّئ اِلَّا باَھْلِہٖ میں ہے اور اضافت کے ساتھ استعمال خلاف اصل ہے جیسا کہ مکر السَّیّئِ میں ہے اس لئے کہ اس صورت میں اضافت الشیئ الی نفسہٖ کی قباحت لازم آتی ہے چونکہ شئ اور وصف شئ ایک ہی ہوتی ہے، اس لئے مفسر علام نے العمل مضاف الیہ محذوف مانا تاکہ اضافت موصوف الی الصفت کا اعتراض ہوجائے، العمل محذوف ماننے کے بعد مکر کی اضافت یعنی السّیِّئ کی طرف نہیں بلکہ السَّیِّئ کے موصوف یعنی العمل کی طرف ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قولہ : اِلَّا سُنَّتَ الاَوَّلِیْنَ کی تفسیر سنَّۃََ اللہِ فیھمْ سے کرکے اشارہ کردیا کہ مصدر مفعول کی طرف مضاف ہے۔ قولہ : اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فی الارْضِ میں واؤ عاطفہ ہے اور ہمزہ محذوف پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَرَکُوْا السَّفْرَ وَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ یہ جملہ اس بات پر استشہاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دستور میں تبدیلی نہیں ہے، جو معاملہ منکرین و مشرکین سابقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا وہی ان کے ساتھ بھی ہوگا، ہمزہ استفہام انکاری ہے جس کی وجہ سے نفی النفی نے اثبات کا فائدہ دیا، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ سفر کرتے ہیں اور قوم لوط اور قوم شعیب وغیرہ کے دیار کے خرابات و نشانات کو دیکھتے ہیں مگر اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ قولہ : بِمَا کَسَبُوْا میں باء سببیہ ہے اور مامصدریہ یا موصولہ ہے ای بسبب کسْبِھِمْ اور بِسَبَبِ الَّذِیْ کَسَبُوْہُ ۔ قولہ : نَسمَۃٌ ذی روح متنفس کو کہتے ہیں (ج) نَسَمٌ۔ قولہ : فَیُجَازِیْھِمْ مفسر (رح) تعالیٰ نے اس عبارت سے اشارہ کردیا ہے کہ اِذَاجَاءَاَجَلُھُمْ شرط ہے اور اس کی جزاء محذوف ہے اور وہ فیُجَازِیْھِمْ ہے۔ تفسیر وتشریح ان۔۔ الارض جمہور نے عَالمُ الغیبِ اضافت کے ساتھ پڑھا ہے اور جناح بن حبیش نے عالمٌ کو تنوین اور غیب کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سِرّ اور علانیہ سب کا جاننے والا ہے، اور ان ہی مخفی اور پوشیدہ باتوں میں سے، تمہارا یہ قول بھی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہم کو دنیا میں دوبارہ لوٹا دے تو ہم نیک اعمال کریں گے اور شرک وکفر کو ترک کرکے توحید و اطاعت اختیار کریں گے، مگر اللہ کے علم میں یہ بات ہے کہ اگر تم کو دنیا میں لوٹا دیا جائے تو تم وہی شرک و کفر اختیار کرو گے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا وَلَوْرُدّوا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ اور یہ بات اس کو اس لئے معلوم ہے کہ وہ علیم بذات الصدور ہے۔ ھُوَ ۔۔ الارض، خلائف خلیفۃ کی جمع ہے جس کے معنی نائب اور قائم مقام کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کو یکے بعد دیگرے زمین ومکان وغیرہ کا خلیفہ بنایا ہے کہ ایک جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یہ خطابت امت محمدیہ ﷺ کو ہو کہ پچھلی امتوں کے حالات سے غیرت حاصل کرو، عمر کے قیمتی لمحات کو غفلت میں نہ گذارو۔ ان۔۔ السمٰواتِ آسمانوں کو روکنے اور تھامنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی حرکت موقوف کردی ہے حرکت کو موقوف کرنے یا نہ کرنے کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنی قدرت سے ان کو گرنے سے روکت رکھا ہے، جیسا کہ أن تَزُولا سے اسی مطلب کیطرف اشارہ مفہوم ہوتا ہے۔ واقسمو۔۔۔ ایمانھم بعث محمدی ﷺ سے قبل مشرکین مکہ کو یہ بات معلوم ہوئی کہ اہل کتاب اپنے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں تو انہوں نے کہا لَعَنَ اللہ الیھودَ والنَّصاریٰ اَتَیْھُمُ الرُّسُلَ فکذَّبُوھمْ (اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی) اور اللہ کی مؤکدہ قسم کھا کر کہا، لَئِنْ جاءَ ھُمْ نَذِیْرٌ یعنی واللہ اگر قریش میں کوئی نبی آیا تو ہم سابقہ امتوں سے کہیں زیادہ فرمانبردار اور اطاعت گذار ہونگے اور عرب تمنا اور دعاء کیا کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے مانند ہمارے اندر بھی کوئی رسول آئے فَلَمَّا جَاءَ ھُمْ چناچہ جسکی وہ تمنا کیا کرتے تھے وہ آگیا اور وہ رسول محمد ﷺ ہیں جو کہ انہی میں کے ایک فرد ہیں، مگر آپ ﷺ کی مجیئت نے انکی نفرت میں اضافہ ہی کیا اور یہ سب کچھ ایمان کے مقابلہ میں شرکشی اور بری تدبیروں کیوجہ سے ہوا لوگ مکروحیلہ کرتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اسکا وبال بالآخر مکروحیلہ کرنے والے ہی پر پڑتا ہے۔ فھل۔۔ الاولین یعنی یہ مشرکین اپنے شرک وکفر اور رسول کی مخالفت اور اہل ایمان کو ایذائیں پہنچانے پر مصررہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اسی طرح ہلاک کردیا جائے جس طرح پچھلی قومیں ہلاک کردی گئیں، حقیقت یہ ہے کہ ہلاکت ہر مکذب کا مقدر بن چکی ہے اسی کو نہ کوئی بدل سکتا ہے اور نہ ٹال سکتا ہے، مشرکین عرب کو چاہیے کہ کفر و شرک کو چھوڑ کو اب بھی ایمان لے آئیں ورنہ وہ اس سنت الہٰی سے بچ نہیں سکتے، دیر سویر اس کی زد میں آکر رہیں گے کوئی بھی اس قانون قدرت کو بدلنے پر قادر نہیں اور نہ عذاب الہٰی کو پھیرنے پر، انسانوں کو تو ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کردیا جائے گا اور جانوروں کو انسانی معصیت کی نحوست کی وجہ سے۔ ٭تم بحمداللہ ٭
Top