Asrar-ut-Tanzil - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کے جاننے والے ہیں۔ بیشک وہی دل کی باتوں کے جاننے والے ہیں
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 38 ۔ تا۔ 45: اسرار و معارف : یقیناً اللہ ارض و سما کے سب بھیدوں سے واقف اور سب رازوں کو جانتا ہے اور وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے اسے علم ہے کہ تمہارے دلی ارادے کیا تھے اور کس طرح تم نے اس کی نافرمانی کی اس کا کتنا بڑا احسان تھا کہ تمہیں زمین پر آباد کیا اور دوسروں کا جانشین بنایا تمہیں چاہیے تھا کہ خود مثال بننے کی بجائے پہلوں کی مثال سے سبق حاصل کرتے اور اللہ کی اطاعت کرتے مگر تم نے کفر کی راہ اپنائی تو تمہارے اس عمل سے کسی کا کچھ نہ بگڑا بلکہ تمہارا کفر خود تمہارے ہی لیے وبال جان بن گیا اور یاد رکھو کہ کفر اور نافرمانی پہ اللہ کا غضب ہی مرتب ہوتا ہے۔ جوں جوں کفر کرتے چلے جاؤ اللہ کا غضب بڑھتا جاتا ہے اور یہی کافر کا سب سے زیادہ نقصان ثابت ہوتا ہے کہ یہ نقصان ہمیشہ زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ آپ ﷺ ان سے کہیے کہ یہ خود غور تو کو ریں کہ اللہ کے علاوہ جن کے بھروسے پہ یہ جیتے ہیں اور جن کی عبادت بزعم خود کرتے ہیں بھلا ہمیں بھی دکھائیں تو سہی انہوں نے زمین پر کی حیات میں کونسی شے تخلیق کی ہے یا ان کی آسمانی دنیا میں کوئی حصہ داری اور شراکت ہے جب یہ سب کچھ نہیں تو انہیں ان مشرکانہ عقائد کے لیے کیا ہم نے کوئی آسمانی کتاب عطا کردی ہے کہ ان کے پاس وہ دلیل ہے ہرگز نہیں کوئی عقلی یا نقلی دلیل ان کے کفر و شرک کی تائید میں نہیں بلکہ یہ آپس میں بھی جھوٹ بول کر دھوکے فریب سے ایک دوسرے کو تسلی دیتے رہتے ہیں ورنہ ارض و سماء کو یوں تھامنا کہ ہر حرکت و سکون میں طے شدہ پروگرام کے مطابق قائم رہیں کہ حیات خلق باقی رہے اور پھلتی پھولتی رہے یہ صرف اللہ کا کام ہے ورنہ اگر یہ ان راستوں یا طے شدہ حرکات سے ٹل جائیں تو اللہ کے علاوہ کوئی بھی انہیں روک نہیں سکتا یہ اللہ ہی کا احسان ہے کہ انسان کے کفر و شرک کے باوجود اس عالم کو آباد رکھے ہوئے ہے۔ یہ اس کا حلم ہے بخشش کہ درگزر فرمائے جا رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو قبل بعثت تو قسمیں کھایا کرتے تھے کہ انبیاء کی تعلیمات ہی نابود ہوگئیں اگر ہمیں کوئی آخرت خبر دینے والا نبی مبعوث ہوا تو ہم ہر امت اور ہر قوم سے بڑھ کر اس کی اطاعت کریں گے اور سب سے زیادہ ہدایت کی راہ پر چلنے والے ثابت ہوں گے لیکن جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو اطاعت تو کجا ان سے یہ نعمت برداشت ہی نہ ہوسکی اور سخت نفرت کا اظہار کرنے لگے کہ انہیں ان کے تکبر اور اپنی ذاتی بڑائی کے غرور نے آپ ﷺ کے خلاف بری بری تدبیریں کرنے پر اکسایا۔ اور ان کی برائی کا داؤ خود ان ہی پر الٹے گا کہ برائی کا نتیجہ تو برائی کرنے والا ہی بھگتتا ہے کیا انہوں نے اپنے سے پہلے والوں کا حال نہیں دیکھا کہ انہوں نے انبیاء کے خلاف تجاویز کیں تو الٹا خود تباہ ہوگئے یہی اللہ کا قانون ہے اور اللہ کریم کے طے شدہ ضابطے ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں اور اس کے قوانین کسی کی تدابیر سے ٹل نہیں جاتے۔ یہ سب باتیں تو اگلی قوموں کے احوال سے بھی ظاہر ہیں کہ یہ بھی تو روئے زمین پر سفر کرتے ہیں تو دیکھیں کہ ان سے پہلے جن اقوام نے کفر و شرک کی راہ اپنائی اور غرور وتکبر میں گرفتار ہوئے ان کا کیا انجام ہوا حالانکہ وہ لوگ ان کی نسبت بہت زیادہ طاقتور تھے اور بہت زیادہ مال و اسباب رکھتے تھے لیکن اللہ کی گرفت کو روکنے کی طاقت کسی آسمانی یا زمین مخلوق میں ہرگز نہیں اللہ ہی سب کچھ جاننے والا بھی ہے کہ ہر ایک کے ہر حال سے واقف ہے اور ہر چیز پہ قادر بھی ہے جو چاہے کرے۔ یہ تو اس کا کرم ہے کہ درگذر فرماتا ہے اور مہلت دیتا چلا جاتا ہے ورنہ ان کے کردار کے مطابق اگر گرفت فرمانے لگتا تو زمین کی پشت پر کوئی ذی روح بھی باقی نہ بچتا کہ انسانی آبادیاں تباہ ہوتیں تو دوسری مخلوق جس کی وجہ تخلیق ہی انسانوں کی خدمت ہے ساتھ تباہ ہوجاتی لیکن آخر کب تک اگر اس اجتماعی بربادی سے اللہ نے مہلت بھی دی تو آخر یہاں سے جانے کی گھڑی تو آ ہی پہنچے گی اس وقت تو انہیں جانا ہی ہوگا رہی یہ بات کہ یہاں سے تو نیک و بد سب کو جانا ہے تو کیا سب کا ایک ہی حال ہے نہیں بلکہ اللہ اپنے بندوں کے حال سے خوب واقف ہے اسے علم ہے کہ کون کیسا ہے اور وہ کیسے حال کو پہنچنا چاہیے۔
Top