Baseerat-e-Quran - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ وہ تو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں سے بھی واقف ہے۔
لغات القرآن :۔ آیت نمبر 38 تا 41 :۔ ذات ( والا) مقت ( عذاب) خسار ( نقصان ، گھاٹا) ارونی ( مجھے دکھائو) یمسک (وہ سنبھالتا ہے) ان تزولا ( یہ کہ وہ دونوں ڈھلک نہ جائیں) تشریح : آیت نمبر 38 تا 41 :۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کر کے اس کا نظام ایسا بنایا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے ہر راز اور بھید سے وہ اچھی طرح واقف ہے۔ کوئی چیز اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے وہ اس زمین و آسمان کی تمام مخلوق کی نیتوں ، خواہشوں ، اعتقاد ات اور دلوں کا حال جاننے والا ہے اور وہ قیامت میں ان کے ساتھ ان کے اعمال کے مطابق فیصلہ فرمائے گا ۔ لیکن وہ لوگ جو اللہ کا قولی یا عملی طور پر انکار کر رہے ہیں اور ان کے پاس اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے کوئی دلیل یا سند بھی نہیں ہے تو ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود ان کے کفر اور آخرت کے نقصان میں کوئی کمی نہیں آرہی ہے بلکہ وہ کفر و شرک میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔ فرمایا کہ ( اے نبی ﷺ آپ ان سے پوچھئے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھائو وہ کون سے تمہارے معبود ہیں جو تمہاری ہر حاجت اور ضرورت کو پورا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ فرمایا کہ کہئے اللہ نے تو سب کچھ پیدا کیا ہے لیکن تمہارے ان جھوٹے معبودوں نے کائنات کے کس ذرے کو پیدا کیا ہے یا انہوں نے اللہ کے ساتھ مل کر اس کائنات کے بنانے میں کیا شرکت کی ہے ؟ یقینا ان کے دل اور ضمیر چیخ اٹھیں گے کہ واقعی یہ سب کچھ اللہ ہی نے پیدا کیا ہے جس کی تخلیق میں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ فرمایا کہ ( اے نبی ﷺ ان سے پوچھئے کہ یہ سب باتیں کہنے کے لئے تمہارے پاس وہ کون سی کتاب نازل کی گئی ہے جس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ اللہ کے سوا یہ بےبس اور عاجز و محبوربت بھی اللہ کے ساتھ شریک رہے ہیں۔ فرمایا کہ ان ظالموں نے لوگوں کو کتنے بڑے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ فرمایا کہ اللہ نے ان آسمانوں اور زمین کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ وہ ان کو سنبھالے ہوئے ہے۔ اگر وہ اس پورے نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے نہ ہوتا تو زمین و آسمان ایک دوسرے سے ٹکرا کر ختم چکے ہوتے ۔ فرمایا کہ اللہ ان کافروں کی فوراً ہی گرفت نہیں کرتا بلکہ ان کو اپنے حلم و برداشت اور معاف کردینے کی عادت کی وجہ سے نظر انداز کر رہا ہے ۔ اگر اللہ ان کو ہر گناہ پر اسی وقت پکڑ لیا کرتا جب یہ کوئی گناہ یا خطا کرتے تو یہ روئے زمین پر ایک دن بھی نہ ٹھہر سکتے۔
Top