Tafseer-e-Haqqani - Faatir : 38
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عٰلِمُ : جاننے والا غَيْبِ السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کی پوشیدہ باتیں وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین اِنَّهٗ : بیشک وہ عَلِيْمٌۢ : باخبر بِذَاتِ الصُّدُوْرِ : سینوں (دلوں) کے بھیدوں سے
بیشک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں جانتا ہے، البتہ وہ دلوں کی باتیں بھی (خوب) جانتا ہے۔
ترکیب : عالم غیب قرء الجمہور بالاضافۃ وقریٰ بالتنوین ونصب غیب خلائف جمع خلیفۃ ویقال للمستخلف خلیفۃ و خلیف و یجمع الاول علی خلائف والثانی علی خلفاء ارونی بدل اشتمال من أَرأیتم ارونی ای شی خلقوا من الارض وقیل أَرأیتم وارونی تنازعا فی الفعل وقد اعمل الثانی علی قول البصریین، ام لہم و ام اٰتیناھم الضمیر یعو والی الشرکاء وام فی الموضعین منقطقہ بمعنی بل والھمزۃ فھو اضراب عن استفہام و شروع فی استفہام آخر ان تزدلا ای عن ان تزولا ویجوزان یکون مفعولا لہ ای مخالفۃ ان تزولا۔ تفسیر : کافر جو دوزخ میں کہیں گے، ہم کو باردگر دنیا میں بھیج دے کہ اچھے کام کریں گے، اس کے جواب میں فرماتا ہے۔ ان اللہ اعلم غیب السمٰوٰت الخ خدا تعالیٰ آسمان و زمین کے اندر کی سب چیزیں جانتا ہے۔ دلوں کے حالات و خیالات سے بھی بخوبی واقف ہے، یعنی وہ ہر بات کو خوب جانتا ہے۔ اگر تم باردگر دنیا میں جاؤ گے تو پھر بھی وہی بد کام کرو گے، جیسا کہ ایک جگہ فرمایا ہے۔ ولورد والعاد والمانھوا عنہ اور اس میں اس شبہ یا اعتراض کا بھی جواب ہے کہ جرم کا ارتکاب تو دنیا کی عمر تک ہوا جو پچاس ساٹھ برس یا کم زیادہ کی تھی، پھر ہمیشہ جہنم میں رکھ کر سزا دینا جزاء و سیئۃ مثلہا کے برخلاف ہے۔ جواب یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہی جانتا ہے۔ اگر تم ہمیشہ زندہ رہتے تو ہمیشہ اسی کفر پر رہنے ھو الذی جعلکم سے خسارًا تک یہ بات بیان فرماتا ہے کہ دنیا میں کون سی بات تم کو نہیں دی گئی تھی، تم کو خلیفہ بنایا گیا۔ تمام خلق پر تم کو حکومت دی گئی تھی۔ دنیا کے کاروبار خوب سمجھتے تھے۔ صناعی و حرفت و دیگر فنون میں بڑے استاد اور عقل کل تھے، پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور رسول کی رسالت اور دار آخرت کا مسئلہ سمجھ میں نہ آیا، نفس امارہ پر حکومت نہ کی گئی اس کو بدخواہشوں سے نہ روکا گیا ؟ اب تمہارے کفر کا وبال تمہی پر ہے اور تمہارے کفر نے تمہارا ہی نقصان کیا ہمارا کیا بگاڑا ؟
Top