Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 38
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِۚ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا تھا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اتَّبِعُوْنِ : تم پیروی کرو اَهْدِكُمْ : میں تمہیں راہ دکھاؤں گا سَبِيْلَ الرَّشَادِ : راستہ ۔ بھلائی
اور وہ شخص جو مومن تھا اس نے کہا کہ بھائیو ! میرے پیچھے چلو، میں تمہیں بھلائی کا رستہ دکھاؤں
38۔ 45۔ ایماندار قبطی کی نصیحت کا سلسلہ یہاں سے پھر شروع ہوا۔ سورة الاعراف 1 ؎ میں گزر چکا ہے کہ قوم فرعون پر طوفان کی ٹڈیوں کی مینڈکوں کی غرض طرح طرح کی آفتیں آئیں اور فرعون اس طرح کا جھوٹا خدا تھا کہ اس سے کوئی آفت نہیں ٹالی گئی آخر ہر آفت کے وقت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی التجا کی گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک آفت کو ٹالا۔ اسی بات کو ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو سمجھایا ہے کہ سبیل الرشاد کہہ کر جس طریقہ کو فرعون بھلائی کا طریقہ بتلا رہا ہے اس طریقہ میں ہرگز کچھ بھلائی نہیں ہے کیونکہ اس طریقہ میں اگر کچھ بھلائی ہوتی تو ان آفتوں کے وقت کچھ بھلائی ضرور پہنچتی ہاں جس طریقہ کی پابندی کی موسیٰ (علیہ السلام) نصیحت کرتے ہیں بھلائی کا طریقہ وہ ہے کہ اس کے طفیل سے تمہاری سب آفتیں رفع دفع ہوگئیں اور یہ طفیل ہوں ہوا کہ تم لوگوں نے ہر آفت کے ٹل جانے پر موسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ کے پابند ہوجانے کا عہد کیا تھا جس عہد پر آخر تم قائم نہیں رہے۔ سورة الزخرف میں آئے گا کہ اپنی قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی سے روکنے کے لئے فرعون نے اپنے آپ کو مصر کا بادشاہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو تنگ دست اور بےعزت کہا۔ اس بات کو ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو یوں سمجھایا کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے فرعون جیسے بہت سے بادشاہ ہوئے اور مٹ گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے طریقہ پر چلنے سے عقبیٰ کی جن راحتوں کا وعدہ ہے ان کو ہمیشگی ہے پھر اس ایماندار قبطی نے قوم کے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ دہریہ لوگوں کے اعتقاد کے موافق حشر کا انکار کرنا بالکل عقل کے مخالف ہے کیونکہ اس بات کو ہر عقل مند جانتا ہے کہ دنیا میں جو کام کیا جاتا ہے اس کا کوئی نتیجہ ضرور سوچا جاتا ہے مثلاً کھیتی کی جاتی ہے اناج ہاتھ آجانے کے لئے باغ لگایا جاتا ہے میوہ کھانے کے لئے مکان بنایا جاتا ہے رہنے کے لئے اب دہریہ لوگوں کے اعتقاد کے موافق نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کے لئے دوسرا جہان پیدا نہ ہو تو دنیا کے پیدا کرنے کا اتنا بڑا کام بےنتیجہ رہ جاتا ہے جو عقلی تجربہ کے برخلاف ہے اس لئے سزا جزا ضرور ہوگی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سزا و جزا کا یہ قاعدہ رکھا ہے کہ سزا جرم کی حیثیت کے موافق ہوگی اور جزا کا کچھ حساب نہیں ایک نیکی کا بدلہ دس گنے سے لے کر سات سو تک اور کچھ نیکیوں کا بدلہ اس سے بھی زیادہ ہوگا اس لئے جنت کی نعمتیں بھی حد و حساب سے باہر ہوں گی۔ اب اے قوم کے لوگو تم ہی ذرا غور کرو کہ جس طریقہ کی میں نصیحت کر رہا ہوں وہ طریقہ نجات کا ہے یا جس طریقہ کے تم درپے ہو وہ طریقہ نجات کا ہے کہ اپنی پیدائش کو آنکھوں سے دیکھ کر پیدا کرنے والے کی ہستی کا انکار کیا جائے فرعون کو خدا ماناجائے جس کے خدا ٹھہرانے کی میرے پاس کچھ سند نہیں اور اللہ کے معبود ہونے کی سند تو تم کو معلوم ہے کہ وہ اپنی بادشاہت میں ایسا زبردست ہے کہ اس کی آفتوں کو سوا اس کے کوئی ٹال نہیں سکتا قصور معاف کرنے والا وہ ایسا ہے کہ ہر ایک آفت کے ٹل جانے پر تم نے اس کو معبود ٹھہرانے کا قرار کیا اور اس نے فقط اس اقرار پر تمہارے پچھلے قصوروں سے درگزر فرما کر ہر ایک آفت کو ٹال دیا غرض اب تک کے بیان سے جو حق بات ثابت ہوئی وہ یہی ہے کہ جس طریقہ کو فرعون نے بھلائی کا طریقہ بتلایا ہے اس طریقہ کی بھلائی کا دنیا اور آخرت میں کہیں پتا نہیں لگتا دنیا کی بھلائی کی نا امیدی کے حال تو تم کو دنیا کی آفتوں کے وقت معلوم ہوگیا اب تم اس پر خود غور کرلو کہ جو جھوٹا خدا دنیا کی آفتوں کے ٹالنے میں عاجز ٹھہرا اس سے کیا امید ہوسکتی ہے کہ جب ہم سب اللہ کے رو برو سزا و جز کے لئے حاضر ہوں گے اور نافرمان لوگوں کی سزا دوزخ کی آگ قرار پائے گی تو کیا اس عاجز خدا میں اس عذاب کے ٹال دینے کی طاقت پیدا ہوجائے گی اب تو اے قوم کے لوگو تم میری باتوں کو اوپرے دل سے سنتے ہو مگر آگے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے یاد کرو گے اس ایماندار شخص کی پیشن گوئی کے موافق ڈویتے وقت جب خو فرعون نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا تو اس کے ساتھیوں کو اس کی جھوٹی خدائی کا حال اچھی طرح کھل گیا۔ آخر کو اس ایماندار شخص نے اپنا انجام اللہ کو سونپا اور کہہ دیا کہ سب بندوں کا انجام اللہ ہی کو معلوم ہے تفسیر مقاتل 1 ؎ میں ہے کہ اس ایماندار شخص کی نصیحت سے غصہ ہو کر قوم کے لوگوں نے اس کو مار ڈالنا چاہا وہ بھاگ کر پہاڑوں میں جا جھپا فرعون نے اس کی گرفتاری کے لئے آدمی بھیجے لیکن وہ ان آدمیوں کو نظر نہیں آیا اسی کو آگے فرمایا کہ اس ایماندار شخص نے اپنے انجام کا بھروسہ اللہ پر رکھا تھا اور اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اس ایماندار شخص کو قوم کے لوگوں کی برائی بچایا اور ایسی ایسی زیادتیوں کی سزا میں فرعون اور اس قوم کو ڈبو کر ہلاک کردیا۔ صحیح سند 1 ؎ سے ابن ماجہ میں ابوامامہ کی حدیث ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ظالم بادشاہ کے رو بروحق بات کا منہ سے نکالنا بڑے اجر کا کام ہے اس حدیث کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فرعون جیسے ظالم بادشاہ کے رو برو اس ایماندار شخص نے نصیحت کی باتیں جو منہ سے نکالی تو عقبیٰ میں اس کا بہت بڑا اجر اس شخص کو ملے گا۔ (1 ؎ تفسیر ہذا جلد 2 ص 286۔ ) (1 ؎ بحوالہ تفسیر جامع البیان حاشیہ بر آیت فوقاہ اللہ سیات مامکروا الا یۃ ص 239 ج 2۔ ) (1 ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب الامارۃ فی طاعۃ الامیر ص 322۔ )
Top