Mazhar-ul-Quran - Al-Ghaafir : 38
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِۚ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا تھا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اتَّبِعُوْنِ : تم پیروی کرو اَهْدِكُمْ : میں تمہیں راہ دکھاؤں گا سَبِيْلَ الرَّشَادِ : راستہ ۔ بھلائی
اور وہ1 ایمان والا بولا : اے میری قوم ! میری پیرو کرو میں تم کو بھلائی کا رستہ دکھاؤں۔
(ف 1) سورة الاعراف میں گزرچکا ہے کہ قوم فرعون پر طوفان کی ، ٹڈیوں کی، مینڈکوں کی، غرض طرح طرح کی آفتیں آئیں اور فرعون اس طرح کا جھوٹا خدا تھا، کہ اس سے کوئی آفت نہیں ٹالی گئی آخرہرآفت کے وقت حضرت موسیٰ سے دعا کی التجا کی گئی اور حضرت موسیٰ کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک آفت کو ٹالا اسی بات کو ایماندار شخص نے ہر ایک آفت کو سمجھایا کہ جس طریقہ کو فرعون بھلائی کا طریقہ بتلارہا ہے اس طریقہ میں ہرگز نہیں بھلائی کیونکہ اس طریقہ میں اگر کچھ بھلائی ہوتی تو ان آفتوں کے وقت کچھ بھلائی ضرور پہنچتی، ہاں جس طریقہ کی حضرت موسیٰ نصیحت کرتے ہیں بھلائی کا طریقہ وہ ہے کہ اسکے طفیل تمہاری سب آفتیں رفع دفع ہوگئیں فرعون نے اپنی قوم کو حضرت موسیٰ کی پیروی سے روکنے کے لیے اپنے آپ کو مصر کا بادشاہ اور حضرت موسیٰ کو تنگ دست اور بےعزت کہا، اس بات کو ایماندار شخص نے قوم کے لوگوں کو یوں سمجھایا کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے فرعون جیسے بہت سے بادشاہ ہوئے اور مٹ گئے اور حضرت موسیٰ کے طریقہ پر چلنے سے آخرت کی جن راحتوں کا وعدہ ہے ان کو ہمیشگی ہے اب تم ایمان لاؤ، کفر چھوڑو، اس لیے کہ جو دنیا میں برے کام کرے گا کفر اختیار کرے گا تو اس کو براہی بدلہ ملے گا یعنی دوزخ ، اور جو مرد عورت اچھے کام کرے خالصا اللہ بشرطیکہ مسلمان ہوا اخلاص والا ہو تو وہ اچھا بدلہ پائیں گے جنت میں داخل ہوں گے وہاں طرح طرح کے رزق دیے جائیں گے اور بےحساب روزی ملے گی ، اب اے قوم کے لوگوتم ہی ذراغور کرو کہ جس طریقہ کی میں نصیحت کرتا ہوں وہ طریقہ نجات کا ہے کہ اپنی پیدائش کو انکھ سے دیکھ کر پیدا کرنے والے کی ہستی کا انکار کیا جائے فرعون کو خدا مانا جائے جس کے خدا ٹھہرانے کی میرے پاس کچھ سند نہیں، اور اللہ کے معبود ہونے کی سند تم کو معلوم ہے کہ وہ اپنی بادشاہت میں ایسازبردست ہے کہ اس کی آفتوں کو سو اس کے کوئی ٹال نہیں سکتا، قصور معاف کرنے والا وہ ایسا ہے کہ ہر ایک آفت کے ٹل جانے پر تم نے اس کو معبود ٹھہرانے کا اقرار کیا، اور اس نے فقط اس اقرار پر تمہارے پچھلے قصوروں سے درگذرفرماکر ہر ایک آفت کو ٹال دیا غرض اب تک کے بیان سے جو حق بات ثابت ہوئی وہ یہی ہے کہ جس طریقہ کو فرعون نے بھلائی کا طریقہ بتلایا اس طریقہ کی بھلائی کا دنیا اور آخرت میں کچھ پتا نہیں دنیا کی بھلائی کی ناامید کے حال تم کو دنیا کی آفتوں کے وقت معلوم ہوگئے اب تم اس پر غوروفکر کرلو، جو جھوٹا خدا دنیا کی آفتوں کے ٹالنے میں عاجزٹھہرا، اس سے کیا امید ہوسکتی ہے کہ جب ہم سب اللہ کے روبرو سزا وجزا کے لیے حاضر ہوں گے اور نافرمان لوگوں کی سزا دوزخ کی آگ قرار پائے گی تو کیا اس عاجز خدا میں اس عذاب کے ٹال دینے کی طاقت پیدا ہوجائے گی اب تو اے قوم کے لوگو تم میری باتوں کو اوپری دل سے سنتے ہو مگر آگے جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے یاد کرو گے آخر اس ایماندار شخص نے اپناانجام اللہ کے سپرد کیا اور کہہ دیا کہ سب بندوں کا احوال اللہ ہی کو معلوم ہے تفسیر مقاتل میں ہے کہ اس ایماندار شخص کی نصیحت سے غصہ ہوکر اس کو مارڈالنا چاہا اور وہ پہاڑ کی طرف چلا گیا، اور وہاں نما زمین مشغول ہوگیا فرعون نے ہزارآدمی اس کی جستجو میں بھیجے اللہ تعالیٰ نے درندے اس کی حفاظت پر مامور کردیے، جو فرعونی اس کی طرف آیا درندوں نے اس کو ہلاک کردیا، اور جو واپس گیا اس نے فرعون سے حال بیان کیا فرعون نے اس کو سولی دے دی تاکہ یہ حال مشہور نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے اس ایماندار شخص کو قوم کے لوگوں کی برائی سے بچایا، اور ایسی ایسی زیادتیوں کی سزا میں فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو کر ہلاک کردیا۔
Top