Anwar-ul-Bayan - Al-Ghaafir : 38
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِۚ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا تھا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اتَّبِعُوْنِ : تم پیروی کرو اَهْدِكُمْ : میں تمہیں راہ دکھاؤں گا سَبِيْلَ الرَّشَادِ : راستہ ۔ بھلائی
اور جو شخص ایمان لایا اس نے کہا کہ اے میری قوم میرا اتباع کرو میں تمہیں ہدایت والا راستہ بتاؤں گا
مرد مومن کا فناء دنیا اور بقاء آخرت کی طرف متوجہ کرنا، اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا مرد مومن کا سلسلہ کلام جاری ہے درمیان میں فرعون کی اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو ایک اونچی عمارت بنانے کا حکم دیا اور یوں کہا کہ میں اس عمارت پر چڑھ کر موسیٰ کے معبود کا پتہ چلاؤں گا، مرد مومن نے فرعون کی بات سنی اور قوم فرعون کو مزید نصیحت کی اول تو اس نے یہ کہا کہ تم لوگ میرا اتباع کرو میں تمہیں ہدایت کا راستہ بتاؤں گا جیسے میں موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لایا ایسے ہی تم بھی ایمان لاؤ اور یہ دنیا جس پر تم دل دئیے پڑے ہو اور اسی کو سب کچھ سمجھ رہے اور یہ سمجھتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے ہماری دنیا جاتی رہے گی اس کے بارے میں تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا والی زندگی تھوڑی سی ہے چند روزہ ہے اس میں جو کچھ سامان ہے وہ بھی تھوڑا سا ہے اور تھوڑے دن کام آنے والا ہے اس ذرا سی دنیا کے لیے تم اپنی آخرت برباد نہ کرو، جو شخص کفر پر مرے گا اس کے لیے وہاں دائمی عذاب ہے وہاں کے عذاب کے لیے اپنی جان کو تیار کرنا ناسمجھی کی بات ہے۔ سب کو مرنا ہے میدان آخرت میں جانا ہے جو لوگ ایمان کے ساتھ پہنچیں گے وہ وہاں جنت میں جائیں گے اور جنت ایسی جگہ ہے جو دارالقرار ہے حقیقت میں وہی رہنے کی جگہ ہے۔ مرد مومن نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نیکیوں اور برائیوں کا بدلہ دے گا برائی کا بدلہ تو اتنا ہی ملے گا جس قدر برائی کی تھی اور نیک عمل کا بدلہ بہت زیادہ ملے گا کسی بھی مرد یا عورت نے بحالت ایمان کوئی بھی نیک عمل کرلیا تو اس کے لیے اللہ نے یہ صلہ رکھا ہے کہ ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے وہاں انہیں بےحساب رزق دیا جائے گا تم لوگ اسی جنت کے لیے فکر مند بنو اور ایمان قبول کرو۔ مرد مومن نے یوں بھی کہا کہ میں تمہیں ایسے کام کی طرف بلاتا ہوں جس میں آخرت کی نجات ہے اور تم مجھے اس چیز کی طرف بلاتے ہو جو دوزخ کے داخلے کا سبب ہے میں ایمان کی دعوت دیتا ہوں اور تم مجھے یہ دعوت دیتے ہو کہ میں اللہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک بناؤں جبکہ شرک کے جائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں (مَا لَیْسَ لِی بِہٖ عِلْمٌ) کہا اور انہیں یہ بتادیا کہ تمہارے پاس بھی شرک کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بات رکھی اپنے اوپر اور سمجھا دیا ان کی قوم کو خطاب کرتے ہوئے مزید کہا (وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ ) یعنی میں تمہیں اپنے معبود کی طرف بلاتا ہوں وہ عزیز ہے زبردست ہے بہت مغفرت کرنے والا ہے اگر کسی کو عذاب دینا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور وہ غفار بھی ہے کوئی شخص کیسے ہی گناہ کرلے وہ معاف کرنا چاہے تو اسے کوئی بھی روکنے والا نہیں لہٰذا تم کفر سے توبہ کرلو اور بخشش کے دائرہ میں آجاؤ یہ نہ سوچو کہ ہم نے جواب تک کفر و شرک کیا ہے اور اعمال بد کا ارتکاب کیا ہے اس کی معافی کیسے ہوگی۔ مرد مومن نے یہ بھی کہا کہ تم لوگ جو مجھے کفر و شرک کی طرف بلاتے ہو یہ باطل چیز ہے اور اس میں بربادی ہے یہ جو تم شرک اور کفر کی دعوت دے رہے ہو یہ محض ایک جاہلانہ بات ہے تم نے جو بت تراش رکھے ہیں یہ تو ذرا بھی نہیں سنتے ہیں نہ ہاں کرتے ہیں نہ کسی نفع اور ضرر کے مالک ہیں یہ تو دنیا میں تمہاری دعوت کی حقیقت ہے اور آخرت میں اس کا کوئی نفع پہنچنے والا نہیں ہے۔ (قال صاحب الروح فالمعنی ان ما تدعوننی الیہ من الاصنام لیس لہ استجابۃ دعوۃ لمن یدعوہ اصلا اولیس لہ دعوۃ مستجابۃ ای لا یدعی دعا یستجیبہ لداعیہ فالکلام اما علی حذف المضاف او علی حذف الموصوف) ” تفسیر روح المعانی کے مصنف (رح) لکھتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کی طرف تم مجھے بلاتے ہو انہیں جو پکارے وہ اس کی پکار کا جواب ہرگز نہیں دے سکتے یا ان کو پکارنے والے کی کوئی دعاء مقبول نہیں ہے یعنی کوئی ایسی دعاء نہیں ہے جو مانگنے والے کے لیے قبول ہو، یہاں (لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ) میں یا تو مضاف محذوف ہے یا موصوف محذوف ہے۔ (وَاَنَّ مَرَدَّنَا اِِلَی اللّٰہِ ) مرد مومن نے مزید کہا کہ ہم سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے (وَاَنَّ الْمُسْرِفِینَ ھُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ ) (اور بلاشبہ حد سے آگے بڑھ جانے والے ہی دوزخی ہوں گے) اس میں ترکیب سے یہ بتادیا کہ تم لوگ مسرف ہو حد سے آگے بڑھنے والے ہو ایمان قبول کرو تاکہ آگ کے عذاب سے بچ سکو۔
Top