Al-Qurtubi - Al-Ghaafir : 38
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِۚ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا تھا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اتَّبِعُوْنِ : تم پیروی کرو اَهْدِكُمْ : میں تمہیں راہ دکھاؤں گا سَبِيْلَ الرَّشَادِ : راستہ ۔ بھلائی
اور وہ شخص جو مومن تھا اس نے کہا کہ بھائیو ! میرے پیچھے چلو، میں تمہیں بھلائی کا رستہ دکھاؤں
(وقال الذی امن یوم۔۔۔ ) وقال الذین امن یقوم اتبعون آل فرعون کے مومن نے جو کہا یہ اس کا تتمہ ہے یعنی دین میں میری اقتدار کرو اھدکم سبیل الرشاد۔ یعنی ہدایت کے راستہ کی طرف، اس سے مراد جنت ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے۔ حضرت معاذبن جبل نے اسے الزشاد پڑھا ہے جبکہ اکثر عربوں کے نزدیک یہ غلط ہے کیونکہ باب افعال سے یوں فعل ذکر کیا جاتا ہے ارشد یرشد۔ افعال سے فعال کا وزن نہیں ہوتا یہ ثلانی سے وزن آتا ہے جب تو رباعی سے کثرت کا ارادہ کرتا ہے تو مفعال کہتا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ جائز ہے کہ رشاد، یرشد کے معنی میں ہو نہ کہ وہ اس سے مشتق ہو لیکن جس طرح یہ کہا جاتا ہے لا ال یہ لولو سے ہے یہ اس کے معنی میں ہے مگر اس سے مشتق نہیں مانا جاتا۔ یہ بھی جائز ہے کہ رشاد یہ رشد یرشد سے ہو جس کا معنی صاحب رشاد ہو۔ جس طرح کسی نے کہا : کلینی لھم یا میمۃ ناصب زمحشری نے کہا : اسے الرشاد بھی پڑھا گیا ہے یہ فعال کا وزن ہے یہ رشد سے مشتق ہے جس طرح علام، علم سے مشتق ہے یا رشد سے مشتق ہو جس طرح عباد ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ارشد سے مشتق ہے جس طرح جبار، اجبر سے مشتق ہے یہ اس طرح نہیں کیونکہ افعل سے فعال چند کلمات سے ہی آتا ہے جس طرح دراک، سار، تضار اور جبار ان قلیل کلمات پر قیاس صحیح نہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ رشد کی طرف منسوب ہو جس طرح عواج اور بتات ہے اس میں فعل کی طرف نہیں دیکھا جاتا مصحف میں اتبعون یاء کے بغیر ہے یعقوب اور ابن کثیر وصل اور وقف میں یاء کے اثبات کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عمرو اور نافع نے وقف میں اسے حذف کیا ہے اور وصل میں اسے ثابت رکھا ہے مگر ورش نے اسے دونوں حالتوں میں حذف کیا ہے۔ یقوم انما ھذہ الحیوۃ الدنیا متاع یعنی تھوڑا سا اس سے لطف اندوز ہوجاتا ہے پھر یہ دنیا منقطع ہوجانی ہے اور زائل ہوجانی ہے وان الاخرۃ ھی دارالقرار۔ یعنی آخرت قرار اور ہمیشگی کا گھر ہے۔ دارآخرت سے مراد جنت اور دوزخ کیونکہ یہ دونوں فانی نہیں اس ارشاد کے ساتھ اس کی وضاحت کی من عمل سیۃ جس نے شرک کیا مثلھا سے مراد عذاب ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : عمل صالح سے مراد لا الہ الا اللہ ہے جبکہ وہ اپنے دل سے اللہ تعالیٰ اور انبیاء کی تصدیق کرنے والا ہو یدخلون یہ مجہول کا صیغہ ہے : یہ ابن کثیر، ابن محصین، ابو عمرو، یعقوب اور ابوبکر کی عاصم سے روایت ہے باقی قراء نے اسے معروف کا صیغہ پڑھا ہے یعنی یدخلون۔ ویقوم ما لی ادعو کم الی النجوۃ نجات سے مراد ایمان کا راستہ ہے جو جنتیوں تک پہنچانے والا ہے وتدعوننی الی النار اس میں اس امر کی وضاحت کی کہ فرعون نے جو کہا تھا : وما اھدیکم الا سبیل الارشاد۔ یہ وہ گمراہی کا راستہ تھا جس کا انجام جہنم ہے انہوں نے آپ کو فرعون کی اتباع کی دعوت دی تھی اسی وجہ سے کہا : تد عونتی لا کفر بالا واشراک بہ ما لیس لی بہ علم اس سے مراد فرعون ہے۔ اور میں تمہیں عزیز و غفار کی طرف دیتا ہوں لا جرم اس کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے اس کا معنی ہے حقا، ان ما اس میں ما، الذی کے معنی میں ہے لیس لہ دعوۃ زجاج نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے (1) لیس لہ استجابہ دعوۃ تنفع اس کے لیے دعوت کی قبولیت نہیں جو نفع دے۔ دوسرے علماء نے کہا : اس کی ایسی دعوت نہیں جو اس کیل یے الوہیت کو ثابت کرے۔ فی الدنیا ولا فی الاخرۃ کلبی نے کہا : اس کے لیے دنیا و آخرت میں کوئی شفاعت نہیں، فرعون پہلے بتوں کی عبادت کی طرف بلاتا تھا پھر لوگوں کو گائے کی پوجا کی دعوت دی جب تک وہ زندہ ہوتی اس کی عبادت کی جاتی جب وہ بوڑھی ہوجاتی تو اسے ذبح کرنے کا حکم دے دیتا پھر دوسری گائے لے آتا تاکہ اس کی بادت کی جائے۔ جب اس پر طویل زمانہ گزر چکا تو کہا : میں تمہارا بڑا رب ہوں۔ وان المسرفین ھم اصحب النار۔ قتادہ اور ابن سیرین نے کہا : مفسرین سے مراد مشرک ہیں (2) مجاہد اور شعبی نے کہا : اس سے مراد سفہاء اور ناحق خون بہانے والے ہیں۔ عکرمہ نے کہا : مراد جبار اور متکبر ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حدود اللہ سے تجاوز کیا۔ اس کی تعبیر میں جو بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں یہ ان سب سے جامع ہے۔ ان جتنے بھی مواقع پر آیا ہے وہاں یہ محل نصب میں ہے کیونکہ حرف جار ساقط ہے۔ سیبویہ نے خلیل سے یہ قول نقل کیا ہے کہ لاجرم کلام کا رد ہے اور ان کا محل رفع میں ہونا بھی جائز ہوگا تقدیر کلام یہ ہوگی وجب انی ما تدعونی الیہ یعنی جس چیز کی طرف تم دعوت دیتے ہو وہ ثابت ہے گویا فرمایا : جس امر کی طرف تم دعوت دیتے ہوئے اس کا بطلان، اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا اور مسرفین کا اصحاب نار میں سے ہونا ثابت ہے۔ 1 ؎۔ تفسیر الکشاف، جلد 4، صفحہ 170 2 ؎۔ ایضاً فستذکرون ما اقول لکم یہ دھمکی اور وعید ہے اور ما کا الذی کے معنی میں ہونا بھی جائز ہے یعنی جو میں تمہیں کہتا ہوں۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ مصدر ہو جو میں نے تمہیں کہا ہے جب تم پر عذاب واقع ہوگا اس وقت تم میرا قول یاد کرو گے۔ واقوض امری الی اللہ میں اس پر بھروسہ کرتا ہوں اور اپنا معاملہ اس کے سپرد کر تا ہوں۔ ایک قول یہ کیا گا ہے : یہ ارشاد اس امر پر دلالت کرتا ہے انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ مقاتل نے کہا : یہ مومن پہاڑ کی طرف بھاگ گیا تھا اور وہ اسے پکڑنے پر قادر نہ ہوئے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ بات کرنے والے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تھے، زیادہ ظاہر یہی ہے کہ بات کہنے والا آل فرعون کا مومن تھا (1) یہی حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔
Top