Asrar-ut-Tanzil - Al-Ghaafir : 38
وَ قَالَ الَّذِیْۤ اٰمَنَ یٰقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَهْدِكُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِۚ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْٓ : وہ جو اٰمَنَ : ایمان لے آیا تھا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اتَّبِعُوْنِ : تم پیروی کرو اَهْدِكُمْ : میں تمہیں راہ دکھاؤں گا سَبِيْلَ الرَّشَادِ : راستہ ۔ بھلائی
اور اس ایمان دار شخص نے کہا اے میری قوم ! میری راہ پر چلو میں تم کو ٹھیک ٹھیک راہ بتاتا ہوں
رکوع نمبر 5 ۔ آیات 38 ۔ تا۔ 50: اسرار معارف : اس بندہ مومن نے بہت کوشش کی اور بتایا کہ لوگوں میری بات مان لو میں تمہیں نیکی اور ہدایت کی طرف دعوت دے رہا ہوں کہ یہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے یہاں کی دولت و عیش فانی اس پر فدا ہو کر آخرت کو مت بھولو کہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے اور جو کوئی بھی گناہ کرے گا اس کو اسی کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا لیکن جس کسی نے ایمان قبول کرلیا مرد ہو یا خاتون اور پھر ایمان کے مطابق اپنا کردار بھی ڈھال لیا اور اعمال درست کرلیے تو ایسے لوگ جنت میں پہنچیں گے جہاں انہیں بیحد و حساب آرام اور عیش نصیب ہوگا ارے بوقوفو تم مجھے اپنے عقیدے کی طرف بلاتے ہو حیرت ہے میں تمہیں اللہ کی رض اور جنت کی طرف بلا رہا ہوں اور تم خود کیا آتے مجھے بھی اپنے ساتھ دوزخ لے جانا چاہتے ہو کہ میں اللہ سے کفر اختیار کرلوں اور اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک مان لوں جو اتنی بودی بات ہے کہ میں نہیاں جانتا کہ اس کے بارے کوئی بھی دلیل مل سکتی ہو اور مجھے دیکھو کہ میں تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی قدرت واضح ہے اور جو بخشنے والا ہے کہ ہزار کفر کے باوجود اگر توبہ کرلو تو تمہیں معاف فرما دے گا اور یہ تو ظاہر ہے کہ تمہاری بات بلا دلیل ہے کہ کفر پر تو دنیا و آخرت میں کوئی دلیل نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور یہ بھی دلائل سے ثابت ہے کہ حد سے گزرنے والے یعنی کفار کا ٹھکانہ دوزخ میں ہوگا۔ تب میری باتیں تمہیں یاد آئیں گی اس پر وہ لوگ ان پر بگڑے تو انہوں نے کہا میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں جو اپنے بندوں کو ہر حال میں دیکھتا ہے چناچہ اللہ نے اسے ان کے مکر محفوظ رکھا اور وہ اس کا تو کچھ نہ بگاڑ سکے ہاں کود فرعون کی قوم بدترین عذاب کا شکار ہوگئی دنیا میں تو تباہ ہو ہی گئے برزخ میں بھی چین نہ پاسکے اور صبح و شام انہیں دوزخ کی آگ دکھائی جاتی ہے یہ آیت مبارک بھی عذاب قبر پر دلیل ہے مرنے والے فنا نہیں ہوجاتے بلکہ حدیث شریف کے مطابق قبر یا دوزخ کا گڑھا ہوتی ہے اور یا جنت کا باغ اور یہ قیامت قائم ہونے تک اس حال میں رہیں گے جب قیامت قائم ہوگی تو انہیں اس سے شدید عذاب یعنی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا اور دوزخ کے اندر جھگڑ رہے ہوں گے کہ کمزور لوگ اقتدار والوں سے کہیں گے ہم تو تمہارے پیروکار تھے کیا اس غلامی کے صلے میں ہماری کچھ مدد کرسکوگے سب نہ سہی تو آگ کسی قدر کم ہی کردو۔ وہ متکبرین جواب دیں گے کہ ہم بھی تو تمہارے ساتھ عذاب بھگت رہے ہیں بھلا ہم کیا کرسکتے ہیں اور اب تو اللہ نے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے پھر جہنم کے فرشتوں سے درخواست کریں گے کہ ہم تو اس قابل نہیں کہ ہماری بات سنی جائے آپ ہمارے حق میں دعا کیجیے کہ کاش ہم سے جہنم کا ایک دن کا عذاب ہی اٹھا لیا جائے تو وہ سوال کریں گے کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول دلائل لے کر مبعوث نہ ہوئے تھے تو کہیں گے یقیناً ہوئے تھے تو پھر تم خود اپنے لیے دعا کرو کہ ہم تو کافر کے لیے دعا نہیں کرسکتے مگر وہ خود بھی کیا کریں گے کہ آخرت میں تو کافر کی دعا کوئی اثر نہ رکھتی ہوگی کہ دعا کا موقع تو دنیا میں تھا جو کھوچکے اب تو محض ٹامک ٹوئیاں مارنے والی بات ہوگی۔
Top